سوموٹو
سوال پیدا ہوتا ہے کہ میر ہزار خان بجارانی، عتیقہ اوڈھو اور وحیدہ شاہ جیسے معاملے پر ازخود نوٹس کیوں؟
KARACHI:
ایک وفاقی وزیر نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی۔ عدالت نے سوموٹو ایکشن لے کر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔سندھ کا طاقتور،جاگیردار، وڈیرہ وزیر بھاگتا پھر رہا تھا۔ اس موقعے پر وادی مہران کے بھولے بھالے لوگ حیران تھے۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ یہ ''سوٹوموٹو'' کیا ہے جس نے بڑے زمیندار کی ہوا اکھاڑ دی ہے۔ وزیر نے ایسے جرگے کی صدارت کی جس نے قتل کے بدلے لڑکیوں کے رشتے مقتول خاندان کے لڑکوں کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
سوموٹو اس عدالتی اختیار کو کہتے ہیں جو سپریم کورٹ ازخود لیتی ہے۔ جب سے ہمارے انصاف کے نظام نے عوام کے دکھ پر مرہم رکھا ہے تو ہر کوئی قمیص اٹھا کر اپنا زخم دِکھاتا پھرتا ہے۔ اتنا زیادہ درد اور دکھ ہے کہ نظریں صرف چیف جسٹس سے فریاد کررہی ہیں۔ کسی دن کا کوئی اخبار اٹھا لیں، ہر کوئی یہ مطالبہ کرتا نظر آتا ہے کہ اس کے معاملے پر عدالتِ عظمیٰ ایکشن لے۔ اس کا چرچا اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ اس سنجیدہ معاملے کو بعض افراد نے مزاح کے پہلو سے اجاگر کیا۔ کسی نے کہا کہ اگر ایک آدمی کی بیوی اس سے لڑ کر میکے چلی جائے تو وہ چیف جسٹس سے مطالبہ کرتا نظر آتا ہے کہ وہ اس کی بیوی کو واپسی لانے کا انتظام کریں۔
عتیقہ اوڈھو اور وحیدہ شاہ کے معاملے پر ازخود نوٹس نے سپریم کورٹ پر طنز کرنیوالوں کو موقع فراہم کردیا۔ وہ اس سے شدید تر معاملات اٹھا کر جسٹس افتخار چوہدری سے مطالبہ کرتے نظر آئے کہ اس معاملے پر بھی سوموٹو ایکشن لیا جائے۔ مطالبات کی رفتار اتنی تیز اور طنز کی کاٹ اتنی شدید ہے کہ اس معاملے نے راقم کو اظہارِ خیال پر مجبور کیا۔ دکھی دل کے لوگوں نے ایس ایم ایس، فیس بک اور ٹیوٹر پر پیغامات کی سہولت کو اس کام کے لیے استعمال کیا۔ اس میں ہر کوئی اس طرح کود پڑا ہے کہ جنھیں Suo moto انگریزی میں لکھنا بھی نہیں آتا انھوں نے بھی قلم آرائی کا میدان خالی نہیں چھوڑا۔ کچھ دکھی دل سچّے تھے تو کچھ دل جلوں نے عدالتوں سے اپنی تلخی کو محاذ آرائی کا ذریعہ بنالیا۔
معاملہ اتنا مشکل اور پیچیدہ ہے کہ آسان لفظوں میں قارئین تک بات پہنچانا ایک امتحان ہے۔ میاں بیوی کا جھگڑا ہو یا ان کے بچّوں کی تحویل کا حق، فیملی کورٹس موجود ہیں۔ کوئی کسی کے پیسے ہضم کرجائے تو آسول کورٹس میں وصولی کا مقدمہ دائر ہوسکتا ہے۔ مالک مکان و کرایہ داروں کے تنازع کے لیے رینٹ کنٹرولر کی عدالتیں ہیں۔ اگر کوئی ان معاملات پر ازخود نوٹس کا مطالبہ کرے تو غیر مناسب ہوگا۔ اگر پولیس کسی کو گرفتار کرلے تو مجسٹریٹس اور سیشن عدالتیں درخواست ضمانت کی سماعت کرتی ہیں۔ نامنظور ہوجائے تو اعلیٰ عدالتیں ہیں۔ قتل ہو یا ڈکیتی، اغوا ہو یا زنا، بھتہ خوری کی واردات ہو یا ٹارگٹ کلنگ، ان معاملات پر پولیس میں ایف آئی آر درج کروائی جاسکتی ہے۔ اگر تھانہ انکار کردے تب بھی عدالتوں سے رجوع کرنے پر ایس ایچ او کو رپورٹ درج کرنے کا حکم دیا جاسکتا ہے۔
ان معاملات پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیوں؟ پھر سوموٹو ایکشن کب اور کیوں لیا جاتا ہے؟ عدالت عظمیٰ قتل و غارت گری پر کیوں خاموش ہے؟ اس لیے کہ یہ انتظامی مسئلہ ہے عدالتی نہیں؟ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ پر سپریم کورٹ نے ہدایات جاری کیں۔ یہ کوئی عدالتی فیصلہ نہ تھا۔ ان پر عمل درآمد کرنا انتظامیہ کی ذمے داری تھی۔ لیکن کیا ہوا؟ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ رک گئی؟ 12 مئی اور 9 اپریل کی قتل و غارت گری پر عدالتیں بیٹھیں۔ کیا ہوا؟ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیار سے قبل ہم ہائی کورٹس کی طرف آتے ہیں۔ ادارتی صفحے پر یہ کالم پڑھنے والے ''ایکسپریس'' کے قارئین نے یقینا آئینی درخواست کا لفظ سنا ہوگا۔
یہ اس وقت قابل سماعت ہوتی ہے جب کوئی راستہ کسی فرد کو انصاف فراہم کرنے کا نہ ہو۔ جب تمام راستے بند ہوجائیں تو عدالت عالیہ کے اس اختیار سماعت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ یہ ہوگئی بات ہائی کورٹس کی۔ اسی طرح سپریم کورٹ کا سوموٹو کا اختیار ہے۔ ظاہر ہے کہ عدالت بڑی ہے تو اختیار بھی بڑا ہوگا۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ میر ہزار خان بجارانی، عتیقہ اوڈھو اور وحیدہ شاہ جیسے معاملے پر ازخود نوٹس کیوں؟ اس مرحلے پر قارئین کھلے ذہن اور بغیر کسی تعصب کے کالم پڑھیں تو ہمیں ایک باریک سی لکیر نظر آئے گی۔ ہم ان تینوں معاملات کو دوسرے معاملات سے علیحدہ دیکھیں گے۔ ہم محسوس کرینگے کہ واقعی چیف جسٹس کو ان پر ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا۔
پہلے ہم بنیادی اصول سمجھیں گے اور پھر ایک مرد اور دو خواتین کے معاملے کا جائزہ لیں گے۔ انصاف پسند نگاہیں خود بخود محسوس کریں گی کہ ان پر ازخود نوٹس کیوں لیا گیا۔ اگر کہیں مطالبات کے باوجود سوموٹو ایکشن نہیں لیا جا رہا تو اس کا سبب کیا ہے؟ یوں ہم غلط دروازہ کھٹکھٹانے کی زحمت اور تلخی سے بچ جائینگے۔ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کی بنیاد کیا ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ جب کوئی قانون نہ ہو تو یہ حرکت میں آتا ہے۔ یہ تو ہوگئی پہلی وجہ۔ بعض اوقات قانون ہوتا ہے لیکن فرد، جی ہاں فرد، فرد اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ قانون کو بے اثر کردیتا ہے۔ بجارانی، عتیقہ اور وحیدہ شاہ میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ تین شخصیات تھیں جنھوں نے قانون کو بے اثر کردیا تھا۔
ایک طاقتور وزیر کی عدالتی احکامات اور قانون کی خلاف ورزی ہمارے سامنے ہے۔ پولیس کے لیے انھیں گرفتار کرنا ممکن نہ تھا جب تک سپریم کورٹ کے واضح احکامات نہ ہوں۔ عتیقہ اوڈھو کی شہرت اور شخصیت سے مرعوب ہو کر ایئرپورٹ اور سیکیورٹی حکام نے شراب کی بوتلوں پر رعایت برتی۔ وحیدہ شاہ جیسی طاقتور خاتون اور منتخب ہونے والی رکن صوبائی اسمبلی نے ایک استانی کی پٹائی کی۔ میڈیا اور پولیس والوں کی موجودگی میں۔ ڈی ایس پی رینک کا افسر سرعام قانون توڑنے پر انھیں نہ روک سکا تو بعد میں کیا کرتا۔ حلف برداری کے بعد تو وہ افسر اور بھی ڈھیر ہوجاتا۔ وہ استانی صرف ایک غریب خاتون ہی نہ تھی بلکہ وہ ریاست کے احکام بجا لارہی تھی۔
وہ ڈیوٹی پر تھی اور اسے تھپڑ مارنا، ریاست کو ''تھپڑ'' مارنے کے مترادف تھا۔ اس حوالے سے ایک سوال کیا جاتا ہے کہ تھپڑ مارنا بڑا جرم ہے یا کسی کو قتل کرنا؟تھپڑ مارنے پر سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا لیکن ہر قتل پر نوٹس کیوں نہیں لیتی۔ قتل بڑا جرم ہے یا تھپڑ مارنا؟ یہ سوال ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں پوچھا گیا۔ جب راقم نے جواب دیا تو سوال کنندہ خاموش ہوگیا۔ پہلی بات یہ کہ تھپڑ کھانے والی انتہائی کمزور خاتون اور مارنے والی رعونت کا شکار جاگیردارنی تھی۔ قانون تھا لیکن بے بس، لاچار اور مجبور۔ قتل پر ایف آئی آر درج کروائی جاسکتی ہے جس پر شک ہو اس کا نام بھی لکھوایا جاسکتا ہے، جیسا کہ وقت کے وزیراعظم کے خلاف بھی رپورٹ درج ہوئی تھی۔
سوال وہی کہ تھپڑ بڑا جرم یا قتل؟ اگر کوئی دوست اپنے دوست کو قتل کرے اور دوسرا آدمی اپنی ماں کو تھپڑ مارے۔ جرم کس کا بڑا ہے؟ دوست تو دوست کو قتل کرتے ہی رہتے ہیں لیکن ماں کو تھپڑ مارنا انسانیت کی سب سے بڑی توہین ہے۔ یہ وہ جواب تھا جس پر لائیو کالر خاموش ہوگیا۔ یقین کریں کوئی ایکشن ایسے ہی نہیں لے لیا جاتا۔ اگر ہم وجہ سمجھ لیں تو نہ شکوہ و شکایت ہو اور نہ بے خبری میں غلط راہ کا انتخاب ہو۔ یہ اندھے کی لاٹھی نہیں۔ خود بخود اور ازخود نہیں ہوجاتا یہ سوموٹو۔