لاوارث سندھ…

تمام اُمور صاف و شفاف اور بہتر طرز حکمرانی سے ختم ہوسکتے ہیں اور اس کے لیے صاف وشفاف انتخابات ہونا لازمی ہیں۔



عرصہ دراز سے کرپشن کرپشن کا ڈھول پیٹ پیٹ کر لوگوں کو شفافیت کے پاٹ پڑھانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ ویسے یہ معاملہ ہے بھی ایسا کہ ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ ملک میں شفافیت قائم ہو لیکن اُس کے باوجود اس میں کوئی خاص کامیابی یا پیش رفت نہیںہوسکی ہے۔

سندھ کی صوبائی حکومت کے خلاف شور مچانے والوں کی نیت بھی صوبہ کے مسائل حل کرنا اور عوام کوسہولیات و ریلیف دینا نہیں نظر آتی ۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ سندھ حکومت پر کڑی نظر تو رکھتے لیکن ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے کہ صوبہ کے ترقیاتی کاموں پر کم از کم ایک سو ارب روپے بجا طورپر خرچ ہوں ، صوبہ کے صفائی ستھرائی کے نظام میں بہتری کے لیے مل کر کام کیا جاتا ، صوبہ کو حصے کاپانی فراہم کرنے کے لیے وفاقی اداروں کو پابند کیاجاتا ، کوسٹل پٹی میں مچی ہوئی تباہی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سروے کرایا جاتا ، ڈیموں کے معاملے پر آمر مشرف طرز پر ہی سہی لیکن صوبہ کے عوام اور سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی جاتی۔

لیکن ایسے اقدامات کے بجائے وفاقی حکومت کا سارا زور صرف اس بات پر ہے کہ اُسے پکڑو، اس کی تضحیک کرو، اُسے رسوا کرواور سماج میں افراتفری کی صورتحال پیدا کرنے جیسے کاموں سے اس کی نیت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ وہ سندھ کے عوام کے لیے نہیں صرف صوبائی وسائل پر قانونی طور پر(18ویں ترمیم کے باعث) کھوئے ہوئے قبضے کودوبارہ حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کیا جارہاہے ۔

یہ تمام اُمور صاف و شفاف اور بہتر طرز حکمرانی سے ختم ہوسکتے ہیں اور اس کے لیے صاف وشفاف انتخابات ہونا لازمی ہیں۔ اور شاید اسی وجہ سے ملک میں صاف و شفاف انتخابات نہیں ہونے دیے جارہے کہ اس سے قائم ہونے والی بہتر حکمرانی ملک میں بیورو کریسی کی اجارہ داری ختم کرنے کاباعث بنے گی ۔ سندھ کی منتخب صوبائی حکومت سے سیاسی مخالفت کی بناء پر صوبہ بھر کو چھوڑ کر صرف صوبہ کے دارالحکومت میں چند ہمدردوں سے مل کر مخصوص علاقوں میں براہ راست پیسے خرچ کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔

وفاقی بیورو کریسی یاحکومت کو سندھ کی صوبائی حکومت کے وزراء یاحکومتی پارٹی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ انھیں مسئلہ ہے 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والے اختیارات سے ۔اُنہیں فکر ہے اپنے اختیارات کے ختم ہونے کی ۔ اس لیے ملک میں یہ کرپشن کے راگ والا میلہ دراصل بیورو کریسی کا ہی لگایا ہوا ہے جو اس کرپشن کی آڑ میں اپنی اُن مراعات ، پروموشنز اوراختیارات و مفادات کو قائم و دائم رکھنا چاہتے ہیں،جوکہ 18ویں ترمیم پر مکمل عمل کرنے کے بعد ختم ہوکر رہ جائیں گے ۔ اس لیے ملک کی بیورو کریسی موجودہ حکومت کو 18ویں ترمیم کے خلاف اُبھار رہی ہے ۔

ویسے پی ٹی آئی حکومت کی قابلیت اور حیثیت پرکیا بات کریں ، وہ تو خود اپنی ٹیم کو گھر بھیج کر اپنی پارٹی اور پارلیمان سے باہر کے لوگوں کو کابینہ کی اہم وزارتیں دیکر خود کو تالی بجانے والے ثابت کرچکے ہیں ۔ سندھ کی صوبائی حکومت کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اس وقت اپنے پارٹی رہنماؤںپر قائم جائز ناجائزمقدمات سے پریشان ہے اور ان کو بچانے کی فکر میں ہے ، حالانکہ اس مسئلے کا حل بھی 18ویں ترمیم ہی ہے،جو کہ وفاقی حکومت سے تحریری طور پر 18ویں ترمیم پر مکمل طور پر عمل درآمد کے مطالبے میں ہے کہ جس کے تحت وفاقی حکومت کے پاس سے 4، 5کے سوائے تمام وزارتیں اور ڈویژنیں ختم ہوجائیں گی اور اُن کے تمام اختیارات صوبوں کو منتقل ہوجائیں گے ۔

ایک طرف اس کرپشن کھیل میں نیب پرخود ملک کی عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ سندھ میں مقدمات چل رہے ہیں ۔ وزیر اعظم اور اُن کی ہمشیرہ کے بھی آمدن سے زیادہ اثاثہ جات کی موجودگی پر نیب ریفرنسز لاگو کرنے کا مطالبہ موجود ہے تو وفاقی کابینہ کا ایک وزیر نیب کی تحویل میں بھی ہے ۔ پھر دیگر صوبوں میں بھی ٹرانسپورٹ سے بجلی گھروں اور دیگر منصوبوں میں بدعنوانیوں اور اختیارات سے تجاوز کی کئی کہانیاں موجود ہیں لیکن وہاں نہ کوئی گورنر راج کی بات کرتا ہے اور نہ ہی کوئی صوبے کو توڑنے کی بات کرتا ہے اور نہ ہی اُن کابجٹ روکا جاتا ہے ۔

پھر آخریہ کرپشن والی بات سندھ میں ہی اتنی گہری اور شدت کیوں اختیار کر گئی ہے ؟ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے تحت وفاقیت پسندوں کے ہاتھوں سے نکلنے والے اختیارات کو وہ قوتیں دوبارہ حاصل کرنے کے لیے 18ویں ترمیم کا خاتمہ چاہتی ہیں ۔ جن کے سامنے اس وقت صرف اور صرف سندھ کی صوبائی حکومت اور اُس کی جماعت ہی رکاوٹ ہے ۔ جس کی سزا نہ صرف اس جماعت کی قیادت کو دی جارہی ہے بلکہ صوبہ کے عوام کو بھی اس کے نقصانات بھگتنے پڑ رہے ہیں ۔ نیب کارروائیوں کی مد میں پلے پارگین کے ذریعے کھربوں روپے صوبہ سندھ سے وصولی کرکے صوبہ کو واپس دینے کے بجائے وہ وفاق اپنے پاس رکھتا ہے ۔

ملکی تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے صاف نظر آتا ہے کہ قیام پاکستان سے ہی سندھ کے علمی وقائدانہ کردار سے خائف قوتیں سازشوں میں مصروف رہی ہیں ۔ کبھی انھیں ''گدھوں کے کلچر والے''، ''کام چور، سُست و کاہل اور نااہل قوم'' کے کلمات سے انھیں نوازا جاتا رہا ہے تودوسری طرف ون یونٹ لاگو کرکے، سندھی زبان کی سرکاری حیثیت ختم کرنے اورصوبہ کو توڑنے کی کوششوں سے اُنہیں مخالف بننے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے ۔ حال میںبھی وفاقی حکومت میں آکر صاف و نفیس قرار پانیوالی جماعت کے ایک رُکن اوروفاقی وزیر نے صوبہ سندھ کی جغرافیائی وحد ت کے خلاف گفتگو کی ہے ۔

حیرت کی بات ہے کہ اُسے میڈیا نے بھی اولیتی بنیادوں پر نشریاتی سہولیات فراہم کیں۔ اس وقت صوبہ میں اردو بولنے والی اور سندھی بولنے والی آبادیوں کے درمیان کوئی کشیدگی نہیں ہے لیکن اس طرح کی نفرت کو ہوا دینے کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح صوبہ میں انارکی پھیلے ، امن امان کا مسئلہ پیدا ہو تاکہ وفاقی حکومت براہ ِ راست صوبہ میں مداخلت کرسکے۔ پنجاب میں آباد ہونے والی اردو آبادی توکب کی وہاں کی مقامی آبادی میں mergeہوگئی لیکن مضبوط وفاقیت کے ایجنڈا کے مطابق ہی صوبہ سندھ میں نفرت کو ہوا دینے کے لیے سندھ میںجان بوجھ کر سامراجی قوتوں کی جانب سے اردو بولنے والی آبادی کو مہاجریت کا نام دیکر صوبہ میں الگ تھلگ رکھنے پر کام کیا گیا ہے ۔پھر آمر ضیا ء کے دورمیں سرکاری سرپرستی میں ایک جماعت بناکراُسے اس آبادی کی نمایندہ جماعت بناکر پیش کیاگیا۔

جو4دہائیوں سے بلدیاتی حکومت میں مکمل طورپر اور صوبائی و وفاقی حکومتوں میں طویل شراکت داری کی بنیاد پر رہنے والی ایم کیو ایم اپنے ووٹروںکی اجتماعی فلاح و بہبود اور بنیادی مسائل حل کرنے کے بجائے سرکاری بجٹ پارٹی اور پارٹی قیادت کے اخراجات پورے کرنے پر صرف کرتی رہی ہے ۔ جب کہ وہ مرکز کے اشاروں پر صوبہ کے اجتماعی مفادکو نقصان پہنچانے کے لیے بھی ہر وقت تیار نظر آتی ہے ۔صوبائی حکومت اور اہلیان ِ سندھ پر بے جا الزاماتی رہتی ہے ۔

میڈیا ، عدلیہ ، سول سوسائٹی کو سندھ میں عدم ترقی پر فکر تو ہے لیکن وہ اس کی وجوہات پر بات نہیں کرتے اور نہ ہی یہ صورتحال تبدیل کرنے میں دلچسپی رکھتے نظر آتے ہیں ۔ اگر ان کو واقعی میں سندھ کی اس بدحالی کا احساس ہوتا تو وہ سندھ کواُس کے مالی وسائل ، حصے کی رقم اور پانی و معدنیات پرحق و انتظامی اختیارات دینے کے لیے آواز بلند کرتے یا اس کی راہ ہموار کرتے ۔ لیکن

''یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے ''

سندھ کے کوہستانی علاقے میں گاج ڈیم کی تعمیر کے لیے ڈیم فنڈ یا وفاقی بجٹ نہ دینے کے فیصلے سامنے آتے ہیں ، وفاق کی جانب سے سندھ کے روکے گئے پیسوں پر خاموشی چھائی رہتی ہے۔ 30لاکھ ساحلی علاقوں کے دربدر لوگوں کی بحالی کے لیے کسی بھی پلیٹ فارم پر بات نہیں کی جاتی ۔کوٹری ڈاؤن اسٹریم کی 27لاکھ زرعی اراضی کے سمندر برد ہونے کو پاکستان کا نقصان نہیں سمجھا جاتا ۔لاکھڑا ،جامشورو اور تھر سے مفت میں بجلی کی پیداوار تو اُٹھائی جاتی ہے لیکن صوبہ میں12سے 18گھنٹے کی ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کو جائز سمجھا جاتا ہے ۔

ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل کو RBODاسکیم کے ذریعے زہریلا بنایا جاچکا ہے،جسے پی کر لوگ ہیپا ٹائیٹس اور دیگر موذی امراض کا شکار ہورہے ہیں ۔تمام قومی و بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق سندھ میں سب سے زیادہ غربت ہے حتیٰ کہ 50فیصد لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں ، لیکن اس کا سارا نزلہ صرف سندھ حکومت پر گرانا ہی اپنی ذمے داری سمجھی جاتی ہے۔ بدین کے لوگ کئی ماہ سے مسلسل احتجاج کررہے ہیں لیکن ان کی داد فریاد سننے والا کوئی نہیں ۔

غذائی قلت سے بچے بلکنے کی سکت تک کھوچکے ہیں ، مائیں پتھرائی ہوئی آنکھوں اور ہڈیوں کے پنجرے بن کر رہ گئی ہیں ۔جہاں دودھ بیچنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا وہاں آج لوگ مفلسی سے تنگ آکر اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہیں ۔ جہاں پرند و چرند کو مارنے کو حقارت کا کام سمجھا جاتا تھا وہاں آج لوگ خودکشیاں کررہے ہیں ۔لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے پر صرف الزام تراشیوں میں مصروف ہیں ۔ تدارکی اقدامات کے لیے جو بڑے پیمانے پر مشترکہ پالیسی و عمل کی ضرورت ہے اس سے دونوں کی چشم پوشی کی وجہ سے سندھ کے عوام ایک غیر فطری و غیر قدرتی عذاب کو بھگت رہے ہیں ۔

ایسے میں بھی صوبہ میں روزانہ کی بنیاد پر دوسرے صوبوں سے لوگ اس غریب ترین ، پس ماندہ اور بدترین حکمرانی والے صوبے میں روزگار حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں، کہیں تو گڑ بڑ ہے ۔۔!!!ایسی ہی صورتحال کی وجہ سے ایک مرتبہ ملک کا بڑا حصہ ٹوٹ کر الگ ہوچکا ہے مگر یہ قوتیں سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی غلطیوں سے اب توبہ کرنی ہوگی اور چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ کے لوگوں کو ستانا ترک کرنا ہوگااور اُنہیں احساس دلانا ہوگا کہ تم لاوارث نہیں بلکہ تم بھی اس ملک میں برابر کے حصہ دار ہو،اور نہیں تو کم از کم اپنے صوبے کے اُمور میں تو مکمل طور پر بااختیار ہو ۔

جس کے لیے سیاسی و قانونی ماہرین اور صوبہ کی قوم پرست جماعتیں یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ صوبہ میں روزگار کے مواقع پر نہ صرف مقامی لوگوں کے حق کو تسلیم کرکے اس پر عمل کیا جائے بلکہ صوبہ میں موجودصنعتی و ٹیکنیکل اداروں کو نوجوانوں کی فنی تربیت کا بندوبست کرنے کا بھی پابند کیا جائے ۔ وفاق صوبوں کے ساتھ مساوانہ اور غیر جانبدارانہ رویہ اور طرز عمل اختیار کرے ۔ وفاقی بجٹ سے سندھ میں بھی اولیتی بنیادوں پر ترقیاتی اسکیمیں دی جائیں ۔

موجودہ وفاقی حکومت سے تو خیر کام کچھ ہوتا نہیں بس کبھی عوام کی چیخیں نکالنے اور چھترول کرنے کی دھمکیاں دیتی رہتی ہے تو کبھی پارلیمانی نظام کو تباہ و برباد کرکے صدارتی و گورنر راج لاگو کرنے سے ڈراتی رہتی ہے ۔ خیر اُس نے اپنے اہم ترین وزراء کو ہٹاکر غیرمنتخب اور عدالت کی جانب سے ہٹائے گئے لوگوں کو اپنی کابینہ میں مشیر لگا کر اپنی نااہلی اور ناکامی کو تسلیم کرلیا ہے ۔ دوسری جانب سندھ حکومت جو ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر تو اسمبلی سر پر اٹھا لیتی ہے وہ عوام کے حقوق غصب کرنے والے اس ظلم پر صرف میڈیائی بیان بازی ہی کرتی نظر آتی ہے ۔

لیکن کہتے ہیں کہ کٹھن لمحات میں ہی اچھے اور برے حکمرانوں کی پہچان ہوتی ہے توسندھ کی حکومت اگر خود کو اچھا ثابت کرنا چاہتی ہے تو صوبہ سندھ میں جاری مشکل ترین صورتحال، وفاق کی بے جا اورانتہائی مخالفت اور اپنی قلیل تر بجٹ کے ساتھ ہی صوبہ میں ہنگامی اقدامات و قانونسازی کے ذریعے ہر حال میں:

(1) صوبہ میں شفافیت کو ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنائے۔

(2) ترقیاتی اسکیموں کی مدت ِ تخمینہ کے اندر تکمیل اور معیار کو یقینی بنائے ۔

(3) صوبائی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹی یا کمیشن قائم کرکے ہر حال میں بنیادی سہولیات کی فراہمی ، صفائی ستھرائی سے صحت و تعلیم اور پولیس سروسز اور انتظامات کی درستگی و فعال نظام کو یقینی بنائے ۔اور ملک کے تصور کے اہم جُز صوبائی خودمختاری کی ضمانت 18ویں ترمیم کا تحفظ کرکے اُس پر مکمل طور پر عمل درآمد کے لیے دیگر صوبوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرکے وفاق پر زور ڈالے۔ یہی بہتر سیاسی و جمہوری حکمرانی کی اصل اہلیت ہوتی ہے ۔ کیونکہ بے اختیاری ، وفاقی بے جا دخل اندازی کے رونے اور شور مچانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لیے اداراتی وپروفیشنل اہلیت اور سیاسی تدبر کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی اور Willکا ہونا لازمی ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں