تم قتل نہیں کر سکتے

تم گولیاں چلائو،میرا سینہ حاضر ہے ۔ لیکن تم یہ سوچتے ہو کہ 38 گولیاں برسانے کے بعد ہمارے قلم کی طاقت ختم ہو جائے گی۔۔۔


انیس منصوری August 18, 2013
[email protected]

تم گولیاں چلائو،میرا سینہ حاضر ہے ۔ لیکن تم یہ سوچتے ہو کہ 38 گولیاں برسانے کے بعد ہمارے قلم کی طاقت ختم ہو جائے گی تو تم خوابوں کی جنت میں بستے ہو۔ ایکسپریس نیوز کے دفتر پر برسنے والی گولیاں اس نظام کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ۔لوگوں کو سڑکوں پر کھڑا کر کے تم نے بھون دیا ۔معصوم عورتوں کو تم نے بھری جوانی میں بیوہ کر دیا ۔ کھلونوں کو ہاتھوں میں لے کر چہرے پر مسکراہٹ سجانے والے میرے بچوں کو اپنے باپ کی قبر پر مٹی ڈالنی پڑی لیکن ہم سچ بولتے رہے اور ہم بولتے ہی رہیں گے ۔ تم نے نفرتوں کے بیج بوئے ۔ فرقوں کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کیا ۔ مگر میں چپ نا رہا میں بولتا رہا ۔ میں مانتا ہوں کہ آج ضیاء الحق نہیں پر جالب اُس وقت بھی کہتا تھا کہ وہ ظلمت کو ضیاء نہیں لکھے گا اور آج بھی اس ملک کا ہر شہری یہ کہتا ہے کہ وہ گولی کی سرکار کو نہیں مانتا ۔

تمھیں مارنا ہی ہے تو آتی ہوئی خوشبو کو مار دو ۔ کیونکہ جب تک ہوا چلے گی تو تبدیلی آتی رہے گی ۔ تم ان برستی بارود کی گولیوں کو عجائب خانوں میں سجا کر رکھ دو تاکہ آنے والی نسلیں تمہاری بے بسی ، کاہلی اور جہالت کا ماتم کرتی رہیں ۔ تمہیں یہ گولیوں کا تحفہ دینے والے کبھی نظر نہیں آئینگے ۔ کیا تمہیں سوات میں ظلم کی داستان رقم کرنے والے مل گئے۔؟ کیا تم نے مستونگ کی سڑکوں پر لوگوں کا فرقہ دیکھ کر قتل کرنے والے تلاش کر لیے ؟ کیا تمھیں رحیم یار خان میں فساد برپا کرنے والے مل گئے؟ کیا تم نے کراچی کی سڑکوں پر موت کا رقص سجانے والے ڈھونڈ لیے ؟ لوگ کیوں کہہ رہے ہیں کہ دو دن پہلے ضیاء الحق کی برسی منائی ؟؟ مجھے تو کراچی سے لے کر خیبر تک وہ زندہ نظر آتا ہے ۔ تمھاری آنکھیں نہیں جو بہتے ہوئے خون میں اُس کے عکس دیکھ سکو۔

بغداد کو پیروں تلے روندا جا رہا تھا اوراُس وقت میرے اجداد کی بحث یہ تھی کہ سوئی کے سوراخ میں سے اونٹ کیسے نکلے گا؟ اور کوا کھانا حرام ہے یا حلال۔ آج ایک طرف میری آنکھیں یہ منظر دیکھ کر شرمندہ تھی کہ کیسے دیدہ دلیری سے جیلوں کی سلاخیں توڑ کر یہ بتایا گیا کہ اصل طاقت کس کے پاس ہے تو میرے آج کے لیڈر اس الجھن میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہودیوں کا ایجنٹ کون ہے ؟کسی کے سینے پر کوئی بھی تمغہ لگا ہو مجھے امن چاہیے ۔ بکھری ہوئی گولیاں خود سے نہیں چلتیں ۔ کرسی کے گرد تم ایک نہیں ہزار چکر لگائو ۔ مگر اتنا تو بتا دو کہ آج میرے بچوں کو نیند کی گولی سے سلانا ہے یا پھر بندوق کی گولی سے ۔

تمھارے پاس لفظوں کی دکان ہے اور میرے پاس خالی جیب ، فاقے ، تعلیم سے محرومی اور دوا کے لیے بلکتے ہوئے بوڑھے ۔ تم حکمت عملی کے ماہر ہو گے ، تم مصلحت کے شہنشاہ ہو گے ، تمھیں ناز ہو گا اپنی سیاست پر ، تمھیں فخر ہو گا اپنی جیت پر ،لیکن میری بات سنو ۔ لمحہ بہ لمحہ میری الجھنوں میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ اسلام آباد کی ایک سڑک پر پھیلے ہوئے خوف سے میرا جسم کانپ رہا تھا۔ کوئٹہ میں بیٹھا میرا دوست مستوئی مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ کہیں بلوچ تو نہیں ؟؟ چارسدہ سے میرا بھائی بار بار فون کر کے یہ پوچھ رہا تھا کہ کہیں کوئی بڑی سازش تو نہیں ۔ اور تم کہتے ہو ۔ کہ میڈیا کا قصور ہے ۔ اپنی چادر میں سے اگر بدبو آرہی ہو تو دوسروں کی قمیص کا داغ مت بتایا کرو۔ کیا میڈیا نے اتنی سیکیورٹی کے دوران اُسے اسلحہ دیا تھا؟ کیا میڈیا نے اُسے کہا تھا کہ وہ گاڑی چوری کرے ؟ آپ کے خیال میں میڈیا نے ہی اُس کو بتایا ہو گا کہ کس چورنگی پر وہ کھڑا رہے گا تو اُسے زیادہ کوریج ملے گی ۔ اُس شام کہا تھے جب دعا کر رہے تھے کہ یااللہ میرے ملک کی حفاظت فرما ۔ ہاں تمھیں دوسرے دن زمرد خان بُرا لگ رہا ہو گا۔ کیونکہ تم چاہتے ہی نہیں کہ اس ملک میں تمھارے سوا بھی کوئی ہیرو بنے ۔

تم ہمارے مرنے کے بعد ہی کیوں جاگتے ہو؟ تمھیں اب بھی وہ سو لاشیں نظر نہیں آرہی ہونگی جو پچھلے ایک ہفتے میں سیلاب اور بارش میں بہہ کر ہمارے گھروں تک آگئی۔ اسلام آباد پولیس کے مقدر پر سوالیہ نشان کھڑا کرنے والا سکندر تو پاگل تھا جو اکیلا بندوق ہاتھ میں لیے جہالت کے مینار گولیوں سے کھڑے کرنے لگا ۔ زمرد خان بھی اپنے ہوش کھو بیٹھا تھا ۔مگر تم ہوش میں ہو ۔ تم پاگل نہیں۔ تو پھر روک لو چلتی ہوئی گولیوں کو ۔ روک لو، اُن ذہنوں کو جو دیوانے نہیں ۔ اگر پاگلوں سے لڑنے کے لیے نیم پاگلوں کی ہی ضرورت ہے تو پھر میں تمھارے حضور کیوں فریادی بنوں۔

داد دیجیے ، تالیاں بجائیے ، واہ واہ کریں اتنا عظیم کارنامہ ہماری قومی اسمبلی نے کیا ہے کہ مصر میں فوج کے ظلم کی مذمت کر دی ۔ مگر اسی دن تو کچھ لاشیں اس سرزمین سے بھی اٹھی تھیں انھیں دنوں پرانے مُردے اکُھاڑ کر ایک دوسرے کو زندہ کرنے والے سیاست دان ضیاء الحق کو بھی تو یاد کر سکتے تھے۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم ایک قرارداد منظور کرتے ہیں اور ہم مذمت کرتے ہیں کہ جو ضیاء دور میں سانگھڑ کی سڑکوں پر قتل عام ہوا ہم اُس پر سپریم کورٹ میں مقدمہ چلانے کی درخواست کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ تعین کیا جائے کہ ضیاء دور میں جن عورتوں کے سہاگ اجاڑ دیے گئے اُن کو اب انصاف دیا جائے ۔ کیا پاگل پن ہے ۔!میں بھی 17 اگست کو ضیاء کی برسی پر کسی جنت کا خواب دیکھ رہا تھا ۔ میں بھول ہی گیا تھا کہ اسمبلی کی بلڈنگ وہ ہی ہے جو اُس وقت تھی۔عمارتوں پر رنگ کر دینے سے کوئی اپنا ماضی تھوڑا چھپا سکتا ہے ۔ وہ تو ذہنوں میں بستا ہے جیسے ہماری دیواروں پر لگنے والی گولی ہمارے ذہنوں میں آکر بس گئی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں