امن کی فاختہ

آج بھی ماضی کی طرح دونوں طرف کی اقوام کم و بیش ان ہی حالات سے نبرد آزما ہیں۔


قمر عباس نقوی April 10, 2019

برصغیر کو قدرت نے ہر قسم کے قدرتی وسائل اور بے بہا دولت و ثروت سے نوازا ہے۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے جس پر دنیا کے غاصبوں کی ہمیشہ نظر رہی ۔ ہر ذی شعور شخص بخوبی جانتا ہے کہ 1947ء میں ہونے والی ہند وپاک کی تقسیم سے مغربی قوتوں نے خوب اور بھرپور فائد ہ اٹھایا ۔اسی میں ان کی ترقی کی حکمت عملی پوشیدہ ہے۔

ایک زمانہ تھا دنیا میں اقتدار اعلیٰ مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا بالخصوص جنوبی ایشیا کے سرسبز وشاداب اور قدرتی وسائل سے مالا مال قیمتی خطہ برصغیر میں ۔ ادھر بھارت اور دوسری طرف پاکستان میں تقسیم برطانوی فرنگیوں کا ہی کارنامہ تھا جس کا شمار اس وقت کی سپر طاقت میں ہوا کرتا تھا ۔

بد قسمتی سے یہاں کی قوم مذہبی ، سماجی اور اپنے اپنے قدیمی روایتی رسم و رواج میں بہت زیادہ جذباتی ثابت ہوئی ہے۔ ہندو اور مسلمان کو دو قومی نظریہ کے تحت ایک دوسرے سے جدا کیا۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم نے اپنے خونی رشتوں سے دورکردیا۔آج بھی بھارت میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ شہرکے شہر مسلمانوں کی گھمبیر آبادیوں پر مشتمل ہیں۔

پاکستان کیا بنا وہاں کے مسلمان پاکستان کی محبت میں اپنی موروثی ثقافت اور جا ئیدادیں خیر باد کہہ کر نوآبادیاتی علاقوں میں آکر بس گئے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ایک دوسرے کے دست وگریبان رہے اور اس تقسیم کا ثمر غیروں نے کھایا ۔ وہ اپنا سرمایہ اسلحہ بنانے میں خرچ کرتے رہے اور اس صنعت میں بے بہا سرمایہ کاری کر کے اپنی دولت میں اضافہ کرتے رہے۔

فلاح و بہبود کی بنیادوں پر ہر فرد کو مفت تعلیم، بنیادی علاج معالجے کی مد میں آسان اور بروقت صحت کی سہولیات کو ترجیحی بنیادوں پر فراہمی کو یقینی بنایا۔آپ اندازہ لگا لیں کہ وہ آج کہا ں کھڑے ہیں اور آپ کہا ں ہیں ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں نہ صرف اپنے وسائل کا بے دریغ ضیاع کرتے ہیں بلکہ ہمیں اس جنگ کو جیتنے کے لیے ان ہی اقوام سے بھاری شرح سود پر بیرونی قرضہ جات بھی لینے پڑ جاتے ہیںاور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضہ لینے پر مجبورہو جاتے ہیں۔ اسی جنگ وجدل کی ایک طویل سیریزکے نتیجے میں جو ترقی ہونی چاہیے وہ نہیں ہو پاتی اور یوں دونوں طرف کی عوام کو معاشی بدحالی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔

آج بھی ماضی کی طرح دونوں طرف کی اقوام کم و بیش ان ہی حالات سے نبرد آزما ہیں۔ عصرحاضر صدیوں اور ماضی بعید کے مقابلے میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے جسکو بلاشبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حیران کن ایجاد نے اس اہم شعبے کو مزید تیزرفتاری سے بڑھاوا دیا ہے۔ دنیا چاند پر چکر لگا کر آ گئی اور ہم علاقائی زبان و مذہب کی بنیاد پر فرقہ واریت کا شکار ہوکر آپس میں دست و گریبان ہیں۔ یہا ں کی پسماندہ عوام کو باہمی دست و گریبان ہونے سے ہی فرصت نہیں مل پا رہی ہے۔

1965ء،1971ء اور پھر سیاچن اورکارگل میں ہونے والی محاذ آرائی سے دونوں ممالک کو فائدہ نہ ہوسکا بلکہ دونوں ممالک کے عوام معاشی بد حال ہو گئے۔ فائدہ صرف انکو پہنچا جنھوں نے اسلحہ بنا کر دونوں ممالک کو فروخت کیا۔ سیاچن اور کارگل میں بھارت کے بیشتر علاقوں پر پاک افواج کا قبضہ ایک ایسا ٹرننگ پوائنٹ تھا کہ پاکستان باسانی مقبوضہ کشمیر اپنے قبضے میں لے سکتا تھا مگر سپر پاور اور عالمی طاقتوں کی دباؤ پر ہمیں وہ علاقے دوبارہ بھارت کے حوالہ کرنے پڑگئے۔ دنیا کی جنت نظیر سر زمین آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیرکی سرحدی جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں بلکہ روزکا معمول ہیں۔ حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو دونوں طرف کے عوام کو ان جھڑپوں میں رتی برابر دلچسپی نہیں ۔ وہ یورپ کی طرح امن ، ترقی اور خوشحالی کے آرزو مند ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے شہر پلوامہ میں ہونے والا بم دھماکے نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان شدید کشیدگی کی جو صورتحال پیدا کر دی، وہ نہ صرف قابل افسوس بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔ دونوں ہمسایوں کے درمیان زمینی عسکریت تو ہوتی رہتی ہیں مگر فضائی حملے جب کیے جاتے ہیں جب اشتعال شدت اختیار کرجائے۔ بھارت کی طرف سے فضائی حملوں کا جواز سمجھ میں نہیں آسکا ۔ بلاشبہ پاک فضائیہ کی طرف سے بھارتی لڑاکا جنگی طیاروں کوگھیرکر اپنی حدود میں لا کر مارگرانا، پاک فضائیہ کی فنی مہارت کا بین ثبوت ہے۔ تباہ ہونیوالے بھارتی طیاروں میں سے ایک بھارتی پائلٹ کا بذریعہ پیراشوٹ چھلانگ لگا کر زمین کی طرف پاکستان کی حدود میں گرنا جس سے نا صرف بھارتی ونگ کمانڈر ابھی نندن نے پاک افواج اور با لخصوص پاک فضائیہ کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے اور دو دن پاکستان کے مہمان رہ کر باعزت واہگہ بارڈر کے راستے سے اپنے وطن روانہ ہوگئے۔

قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ کارگل کے دوران بھی ہماری بری افواج کی اینٹی ایئرکرافٹ گن نے ایک بھارتی طیارہ تباہ کیا تھا مگر خوش قسمتی کہیے کہ طیارے میں سوار پائلٹ نے پیرا شوٹ کے ذریعے ہماری سر زمین میں اترکر اپنی جان بچائی تھی ۔ وہ بھی پاکستان کی تحویل میں رہنے کے بعد بھارت واپس بھیج دیا گیا۔ خوش آیند ہے یہ امرکہ پاکستان نے دوسری امن کی فاختہ واپس کی مگر پھر بھی ہمسایہ ملک کو عقل نہ آئی۔ مزے کی بات دیکھئے، عوام ان طیاروں کے مارگرائے جانے کا جشن منا رہے تھے کہ ان پر پٹرول بم گرایا گیا تو وہ اس سے ابھی تک سنبھل نہیں سکے ہیں ۔ ساری خوشی وجشن دھرے کا دھرا رہ گیااور ابھی نندن کیا پاکستانی حدود میں گرے کہ ملک کے تمام عوام کی توجہ اپنی طرف کر لی جب کہ ملک کی اشرافیہ اسی شوروغوغا میں اپنا کام دکھا گئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی اشرافیہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ان کی توجہ ایک ایسے قومی مسئلے کی طرف کردیتے ہیں۔

ہمسایہ ملک خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان ایک عالمی معیارکی جدید اسلحے سے لیس فوجی قوت ہے۔ یہ ہر محاذ پر خواہ وہ سمندری ہو، فضائی ہو یا خشکی سطح پر ہو، ایک طویل تجربہ ہے۔ جذبہ ایمانی اس کا شعار ہے۔ عسکری مقاصدکی کامیاب تکمیل اور ملک کے مضبوط دفاع ناقابل تسخیر بنیادوں پر قائم رکھنے کے لیے عسکری مد میں سالانہ مالیاتی بجٹ کا خطیر حصہ مختص کیا جاتا ہے۔

امریکا کی حریف سپر طاقت سوویت یونین نے جب طاقت کے بل بوتے پر افغانستان میں اپنے پنجے گاڑے ، پاکستان وہ واحد ملک تھا جسکی افواج نے افغان فوج اور طالبان کا پورا پورا ساتھ دیا اور یوں پراکسی جنگ کا شریک کار ہوتے ہوئے سوویت یونین کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہوئے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں سیلاب ہو طوفان ہو یا قدرتی آفات ہوں یا خانہ جنگی کی صورت میں انسانی ہمدردی کے جذبہ سے سرشار ہماری فوج کے چاک و چوبند دستے بلا امتیازخدمات پیش کر دیتے ہیں۔ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے لحاظ سے ہماری افواج کا اہم حصہ ایس ایس جی کمانڈوز کا ہے۔

نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا تھا کہ ''وطن سے وفاداری مومن کی نشانی ہے، اپنے وطن کی حفاظت کے لیے جہاد کرنا ایمان کا حصہ ہے'' بھارتی ایئرچیف نے ایک موقعے پر بھارت کے وزیراعظم مودی کو خبردار کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ ہم دو سو طیارے لے کر بھی پاکستان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بلا شبہ دونوں طرف کے عوام کو اس بات کا احساس ہو چلا ہے پڑوسیوں سے جنگ اور جھڑپوں کی بجائے امن اور شانتی کا پائیدار راستہ اختیارکیا جانا چاہیے،اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے ۔ بقول فرینکلن '' امن کبھی برا نہیں ہوتا اور جنگ کبھی اچھی نہیں ہوتی'' تاہم بحیثیت ایک آزاد اور خود مختار قوم اپنے دفاع کا پورا پورا حق رکھتی ہے،کیونکہ واشنگٹن خود اس حقیقت کو آشکارکرگیا کہ ''ہر وقت جنگ کے قابل رہنا امن قائم رکھنے کا باعث ہوتا ہے'' امن کی تلاش میں دشمن کی فاختائیں اڑانا، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمارا شعار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں