دی اسٹیٹ آف خان

بنی گالہ کا خان، اپنی کچھار میں بے تابی سے ٹہل رہا ہے۔


Arif Anis Malik April 10, 2019
[email protected]

اسلام آباد کی غلام گردشوں میں چند دن گزارنے، تقریباً دس وفاقی اور صوبائی وزراء اور کئی اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات، کچھ اہم ترین ممالک کے ڈپلومیٹک کور سے سمبندھ اور اسلام آباد کے کنگ میکرز کے درشن کرنے کے بعد فی الحال ایک ہی احساس جنم لے رہا ہے کہ آل از ناٹ ویل ان دی اسٹیٹ آف خان۔

یوں تو دارالحکومت میں موسم بہار، موسم گرما سے ہم آغوش ہو رہا ہے مگر اقتدار کی راہداریوں میں عجب سرد مہری کا دور دورہ ہے۔ کرسی کے اوپر بیٹھے، اور اس کے گرد کھڑے تمام افراد کسی عجیب سے کھنچاؤ کا شکار نظر آئے۔ ابھی وہ لمحہ تو نہیں آیا جب غلام مشعلیں لیے بھاگنا شروع کردیں، تاہم ہڑبونگ کا لمحہ کسی وقت بھی نازل ہوسکتا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ''پارٹی از اوور''، مگر یہ کھلم کھلا کہا جارہا ہے کہ 'یہ کمپنی چلتی ہوئی نظر نہیں آتی'.

بنی گالہ کا خان، اپنی کچھار میں بے تابی سے ٹہل رہا ہے۔ اس کا دل ایک زوردار باؤنسر مارنے کو چاہتا ہے، مگر پھر وہ دل کڑا کے رہ جاتا ہے، اسے بتایا جا رہا ہے کہ اسے خود پر ضبط کرنا ہوگا کہ اگلی پارٹی باؤنسر پر چھکا مارنے میں طاق ہے۔ اس کے قریب والے اسے دیکھتے ہیں اور آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ اس خان کو کیا ہوا جس کی دھاڑ سے ایوان لرزتے تھے۔بے تابی اور اضطراب رگ رگ سے پھوٹ رہا ہے مگر وہ کہے تو کس سے کہے؟ وہ شخص جس نے اپنے کیریئر کے عروج پر مائٹی ماجد خان کو گھر بھیج دیا تھا، بہت سے معاملات پر اب صرف دانت کچکچا کر رہ جاتا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کا اضطراب قیامت ڈھائے گا ۔

ادھر پارٹی میں گھمسان کا رن پڑ چکا ہے ، ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سب کے سامنے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گھس بیٹھیے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ صاف پانی والے پانی پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ مخدوم صاحب اپنی ہی پارٹی پر سرجیکل اسٹرائیک کیے جارہے ہیں اور اپنے ہدف کو زچ کرکے خوش ہیں۔ سرمایہ کار اپنا سرمایہ تیزی سے نکال رہے ہیں۔ نظریاتی چیتے ہوں یا پیراشوٹیے، جس کے ہاتھ جو لگا ہے وہ سے لے کر بھاگ نکلنے کی تیاری میں لگتا ہے۔ ایک دوسرے کو اٹھا کر نیچے پھینکنے کی تیاری ہے۔ نمبر دو اور نمبر تین کی نظریں اور سنگینیں ایک دوسرے پر تن چکی ہیں۔

نوکر شاہی سانس روکے وقت گزار رہی ہے۔ غیراعلانیہ طور پر 'گو سلو' کی مہم چل پڑی ہے۔ جس ایف بی آر کے دانت تیز کرکے اسے مؤثر بنانے کے وعدے تھے، اسی کے منہ پر توبڑا چڑھا دیا گیا ہے۔ گزشتہ حکومتوں پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لانے پر تبرے بھیجے گئے، پیٹ پھاڑ کر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے دعوے کیے گئے اور پھر معیشت کا پہیہ جام ہونے پر ایک اور ایمنسٹی اسکیم کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے۔ تیزیاں دکھانے والے وزراء کو انھی کی پارٹی کی تقریروں سے اقوال سنائے جاتے ہیں۔ اربوں ڈالر کی واپسی کی امیدوں پر پانی پڑ چکا ہے۔ ٹیکس کے محصولات، جنھیں دگنا کرنے کا دعویٰ تھا، ان کی روایتی کلیکشن میں بھی کم نظر آرہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ سکڑ گئی ہے ۔ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی نئی رپورٹ 2019 ہی نہیںبلکہ 2020 میں بھی پاکستان کی ترقی کی شرح کو پورے خطے میں سب سے نیچے گھسٹتے ہوئے دکھا رہی ہے۔ ایک طرف اسٹیٹ بینک کی شرح سود ساڑھے سات فیصد سے آٹھ کر ساڑھے گیارہ فیصد کی طرف لپکتی نظر آرہی ہے تو دوسری جانب پاکستانی روپیہ، ڈالر کے مقابلے میں ایک سو پچاسویں سیڑھی کی جانب زقند لگا چکا ہے۔

پنجاب میں جس خوشخبری کو تخت پر بٹھایا گیا تھا، اس کی کمزوری کی وجہ سے مسائل دگنے ہوگئے ہیں۔ آسمانوں سے نالوں کا جواب آتا نظر نہیں آرہا اور زمین پر بھی سکون نہیں ہے۔عوام کی آنکھیں رومانوی چکا چوند سے بھرنے کے بعد اب کھلنے لگی ہیں۔ لوگ بجلی، گیس اور پیٹرول کے بل پکڑے واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔ جوان خون جو وزیراعظم یونیورسٹی، پچاس لاکھ گھر، پروٹوکول سے نجات اور بے رحم احتساب کے وعدوں پر سر دھنتا نظر آتا تھا، اب بے زار نظروں سے آسمان کو گھورتا ہے۔

بادشاہ گروں کی طرف ہل چل شروع ہوچکی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ ہل چل ابھینندن کی وجہ سے کوئی مہینہ بھر کے لیے تھم گئی تھی، مگر تابہ کے! عدالت سے سابقہ وزیراعظم کو چھ ہفتے کے لیے رہائی کا پروانہ ملنا بھی بہت کچھ آشکار کررہا ہے۔ خان شریف اور زرداری خاندان کو رعائت دینے کے لیے تیار نہیں ہے مگر حالات ساتھ نہیں دے رہے۔ ان وجوہات کی بنا پر زرداری کی ہتھکڑیاں بھی ہاتھوں سے اٹھا کر شانوں پر لٹکا لی گئی ہیں۔

گزشتہ دس برس سے خان کی بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت، ایک چبھتا ہوا سوال بن چکی ہے۔ معیشت کے معاملے میں اسد عمر اور گورنیننس کے معاملے میں عثمان بزدار عمران خان کے المشہور ریلو کٹے ثابت ہوئے ہیں۔ معیشت کے امور کی تھوڑی بہت درک رکھنے والے لوگ جانتے تھے کہ پاکستانی معیشت کے دیرینہ مسائل کی وجہ سے آئی ایم ایف کا پروگرام ہی واحد حل ہے، جس کے بیل آؤٹ پیکیج کی بنیاد پر حکومت کو سانس لینے کے لیے دو، تین سال مل سکتے تھے۔ تاہم گزشتہ سات آٹھ ماہ مونکی بزنس پر ضایع کردیے گیے۔

متحدہ ارب امارات اور سعودی ولی عہد کو آئی ایم ایف کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا۔ تاہم بین الاقوامی معاملات کی الف بے جاننے والے بھی سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور بریٹن ووڈ کے ادارے امریکی پالیسیوں کی دفاعی لائن کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں اور امریکا کا ہاتھ جھٹک کر، ان سے معانقہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہی نہیں، امارات یا سعودی عرب کے نخلستانوں سے آنے والی ٹھنڈی ہوا ایک امریکی فون پر جھلسا دینے والی لو میں بدل جائے گی۔ بدقسمتی سے حکومت کی امریکا پالیسی بھی تزبذب کا شکار ہے، جس کا ہندوستان بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔

بیرون وطن پاکستانی جو خان حکومت کے ابتدائی دنوں میں مذہبی جوش و خروش کے ساتھ پاکستان چلو کا ورد کرنے لگے تھے، ایک دم تشویش کے ساتھ اپنے ہاتھ جیبوں میں ڈال کر حالات کا جائزہ لینے لگے ہیں۔ بیوروکریسی کا سیاسی ڈھانچہ ابھی تک شریف خاندان کی جدائی کو عارضی سمجھتے ہوئے اس کی واپسی کا منتظر ہے، سو تبدیلی کی تلاش میں پاکستان جانے والے، اب واپسی کی فلائیٹیں پکڑنے کے انتظار میں ہیں۔

سوچنے سمجھنے والوں کو ماہر نفسیات ڈیننگ کروگر کی یاد آنے لگی ہے جس کی تھیوری کی رو سے، جو بندہ جتنا کم عقل ہے وہ اتنا ہی اپنی مہارت کے بارے میں پر اعتماد ہو تا ہے۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ اگر فائینانشل ایکشن ٹاسک فورس نے بھی پاکستان کو گرے یعنی سلیٹی لسٹ سے اٹھا کر کالی لسٹ میں ڈال دیا تو جو کچھ چھ ماہ میں ہونا ہے، وہ دو مہینے میں ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ نومبر میں جو کچھ بدلنا ہے، وہ بدل جائے گا۔ اور صرف وہی بیٹھے رہیں گے، جو ستر سال سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ باقی کچھ گئے، کچھ تیار بیٹھے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔