سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں…

فرمان صاحب کی علمی و ادبی خدمات پر تو پی ایچ ڈی کا ایک پورا مقالہ تیار کیا جاسکتا ہے


نجمہ عالم August 15, 2013

KARACHI: تین اگست کو نہ صرف پاکستان بلکہ اردو دنیا کی ایک عظیم ہستی، ادیب و محقق ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے دنیائے فانی سے عالم جاویدانی کی طرف کوچ کیا۔ یہ دنیائے علم وادب کا کتنا بڑا نقصان ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو ادب کا ذوق سلیم رکھتا ہو، فرمان صاحب مرحوم کے قریب رہا ہو، ان کا شاگرد ہونے کا اعزاز رکھتا ہو اور وہ بے شمار قارئین جو فرمان صاحب کی ہر کتاب ہر مقالہ، ہر مضمون کو پڑھنا ضروری سمجھتے تھے وہ چاہے پاکستان میں ہوں یا پوری دنیا میں کسی بھی جگہ، فرمان صاحب کے مداحوں اور قارئین کی تعداد سیکڑوں میں نہیں بلکہ لاکھوں سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ فرمان فتح پوری نہ صرف ایک بڑے ادیب و محقق، بہترین استاد تھے بلکہ لاکھوں افراد کی پسندیدہ شخصیت بھی تھے، اس لیے ان کا سانحہ ارتحال کسی ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ نہ جانے کہاں کہاں کون کون سی آنکھیں یہ خبر سن کر اشک بار ہوئیں۔

فرمان صاحب کی علمی و ادبی خدمات پر تو پی ایچ ڈی کا ایک پورا مقالہ تیار کیا جاسکتا ہے، وہ نہ صرف اردو ادب پر بلکہ زبان پر مکمل دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی تدریس کا حق ادا کرنے والی شخصیت تھے۔ تقریباً پچاس کتابوں اور بے شمار مقالوں کے خالق کے علاوہ نہ جانے کتنے پی ایچ ڈی کرنے والوں کے نگراں کے فرائض ادا کیے۔ ادبی تقریبات میں پڑھے گئے ان کے مضامین اس کے علاوہ ہیں، غرض یہ کہ ان کے علمی کارناموں کی فہرست خود ایک جداگانہ کتاب کی متقاضی ہے۔ وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جنھیں ان کی صحبت، علم و ادب سے استفادہ کا موقع ملا یا ان کی شاگردی کا اعزاز نصیب ہوا، میں بھی ان خوش نصیبوں میں اپنا شمار کرسکتی ہوں کیونکہ مجھے بھی ان سے استفادہ کا موقع ملا۔

انٹرمیڈیٹ کراچی سے چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر پرائیویٹ طور پر کرنے کے بعد ہمیں لاہور منتقل ہونا پڑا لہٰذا میں نے اپنا گریجویشن لاہور سے کیا مگر دو سال بعد واپس کراچی آکر جامعہ کراچی میں داخلہ لیا، ہم نے صحافت میں داخلہ لے کر پڑھائی کا جب آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ اس میں سال اول کے نصاب میں ایک پرچہ اردو فنکشنل کا بھی ہوتا ہے اور اس پرچے کی تیاری کے لیے ہمیں شعبہ اردو کے اساتذہ سے رجوع کرنا ہوگا۔ پہلے دن شعبہ اردو کے دفتر سے معلومات کے بعد جب ہم متعلقہ کمرے میں گئے تو سامنے فرمان صاحب ایک بڑی سی میز کے ساتھ کرسی پر موجود تھے اور یہ جان کر ہم سب نہ صرف حیران بلکہ بے حد خوش ہوئے کہ فرمان صاحب ہمارے اردو کے استاد ہوں گے کیونکہ ہم سب ہی یہ سمجھے ہوئے تھے کہ کوئی لیکچرار یا اسسٹنٹ لیکچرار ہمیں پڑھائے گا۔ بہرحال پہلے دن ڈاکٹر فرمان نے اپنا مکمل تعارف کرایا جب کہ ہم ان سے اپنے اسکول کے زمانے سے ہی واقف تھے مگر پھر بھی کئی نئی باتیں ہماری معلومات میں اضافے کا سبب بنیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ہم سب طلبا سے اپنا اپنا مختصر تعارف کرانے کے لیے کہا۔ ہم اتنی عظیم شخصیت کو دیکھ کر بے حد مرعوب ہورہے تھے مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنی ابتدائی گفتگو میں ہی ہمیں اپنا گرویدہ کرلیا اور وہ رعب جو ہم پر طاری تھا کچھ کم ہوچلا تھا لہٰذا سب نے اپنے اپنے انداز سے اپنا تعارف کرایا، سب سے واقفیت کے بعد استاد محترم نے ہمارا نصاب بتایا اور اچھی طرح ذہن نشین کرایا کہ وہ اس نصاب کو کس طرح مرحلہ وار مکمل کرائیں گے۔ ڈاکٹر فرمان صاحب کا حافظہ اس قدر عمدہ تھا کہ پہلے دن ہی انھوں نے سب طلبا و طالبات کے نام نہ صرف یاد کرلیے تھے بلکہ جو انھوں نے اپنے تعارف میں مزید معلومات فراہم کی تھیں وہ بھی ان کو ہمیشہ یاد رہیں۔

ایک بات جو میں نے اس وقت نوٹ کی وہ یہ کہ فرمان صاحب کم سے کم معلومات کے حامل طالب علم کی بھی کبھی حوصلہ شکنی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو اپنی علمی استطاعت بڑھانے کے لیے کتابوں کے حوالے دیتے اور مطالعے کی طرف راغب کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے Assignment دیتے اور جو وقت اس کام کو مکمل کرنے کا دیتے اس پر وہ ضرور کام طلب کرتے اگر اس طالب علم نے وقت مقررہ پر کام مکمل نہ کیا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب بے حد ناراض ہوتے مگر یہ ناراضگی غصہ یا ڈانٹ کی شکل میں نہیں ہوتی تھی، صرف ان کے رویے سے ظاہر ہوتی جو ہمارے لیے بے حد سوہان روح ہوتی اور ہمیں اس لڑکے یا لڑکی (جو کام وقت پر مکمل نہ کرتا) پر غصہ آتا کہ اس نے ڈاکٹر صاحب کا موڈ نہ صرف خراب کردیا بلکہ ان کو آزار پہنچانے کا سبب بھی بنا۔

فرمان صاحب کے ساتھ ہمارا استاد اور شاگرد کا سلسلہ محض ایک سال پر محیط ہے مگر ہمارا تعلق بحیثیت شاگر ہمیشہ برقرار رہا۔ جب بھی مجھے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا میں ڈاکٹر صاحب کو فون کرکے اس کو حل کروالیتی تھی۔ جب میں نے اپنی کتاب ادب عالیہ ترتیب دی تو میں اس پر ڈاکٹر صاحب کی رائے حاصل کرنا چاہتی جو میرے لیے ایک اعزاز سے کم نہ تھی۔ مگر ڈاکٹر صاحب ان دنوں شدید علیل تھے اس کے باوجود انھوں نے فون پر مجھے تسلی دی کہ آج کل تو میں کچھ لکھنے کے قابل نہیں ہوں ذرا ٹھیک ہوجاؤں تو تم فون کرکے آجانا میں مسودہ دیکھ کر کچھ اس کے بارے میں لکھ دوں گا میں دل میں بے حد شرمندہ ہوئی کہ میں نے علالت کے دوران انھیں پریشان کیا۔ جب کہ جناب سحر انصاری صاحب کو میں نے آرٹس کونسل میں ان کے دفتر میں مسودہ دکھا کر ان کے تاثرات حاصل کرلیے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی علالت نے طول کھینچا اور میری یہ کتاب ان کی رائے کے بغیر ہی شائع ہوگئی جس کا مجھے اس وقت بھی بے حد افسوس تھا اور اب تو یہ رنج کئی گنا ہوگیا ہے کہ اب ڈاکٹر صاحب ہم سب کو اداس چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوچکے ہیں۔

میری نظر میں آج وہ تمام واقعات فلم کی طرح گھوم رہے ہیں جب آرٹس کونسل کی تقریبات میں ان سے ملاقات ہوتی، میں فوراً ان کے سامنے جاکر انھیں سلام کرتی اور وہ ہمیشہ سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتے میری تازہ مصروفیات کے بارے میں پوچھتے۔ جب میں نے صحافت چھوڑ کر تدریس کے شعبے سے تعلق استوار کیا تو میں نے ایک تقریب میں فرمان صاحب کو بتایا اور کہا کہ سر! میں چاہتی ہوں کہ آپ کی طرح اپنے شاگردوں میں مقبول اور ہر دلعزیز قرار پاؤں، آپ اس سلسلے میں کچھ رہنمائی فرمائیں۔ فرمان صاحب نے فرمایا تم نے تو ہم سے پڑھا ہے اگر تمہیں ہمارا پڑھانا پسند تھا تو وہی طریقہ اختیارکرو، ہاں کبھی کسی طالب علم کو احساس کمتری یا محرومی میں مبتلا کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش مت کرنا، یہ استاد کے منصب کے خلاف ہے، اچھا استاد وہ نہیں جو قابل طلبا کو آگے بڑھائے بلکہ اچھا استاد وہ ہے جو علمی طور پر کمزور طلبا کو قابل طلبا کے برابر لے آئے اور اس کو کسی بھی موقعے پر یہ احساس نہ ہونے دے کہ وہ آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔

باتیں تو بہت سی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناجانے یادوں کے کون کون سے گوشے افق ذہن پر نمودار ہوتے رہیں گے لیکن یہ کسک کہ فرمان صاحب جیسے عالم و محقق اب کیا کبھی دنیائے ادب کو، زبان اردو کو میسر آسکیں گے دل سے دور نہیں ہوسکتی۔ فرمان صاحب کا نعم البدل تو دور کی بات ہے خود ان کی قدر و منزلت کا ادراک کرنیوالے ان کے چھوڑے ہوئے علمی خزانے سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد بھی کتنی ہے؟ آج اردو کا جو حال ہے اس میں تو کوئی توقع کی نہیں جاسکتی۔ مگر شاید کچھ دیوانے اب بھی ہوں جو ان نابغہ روزگار ہستیوں کو نہ صرف یاد رکھیں بلکہ ان کی قدرومنزلت کا شعور بھی رکھتے ہوں۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔