ٹریفک انجینئرنگ اور کراچی
شہر کو وقتی ضرورتوں یا مصنوعی نمود و نمائش کے طور پر غیر سنجیدہ طریقے سے ڈیزائن کیا جاتا رہا ہے۔
کراچی شہر اپنی کثیر آبادی وسیع و عریض رقبے اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کی انفرادی حیثیت کے علاوہ اردو کے ساتھ ساتھ مختلف زبان بولنے والے اور رنگ و نسل کی وجہ سے ایک امتیازی اہمیت کا حامل ہونے کے سبب دنیا میں بین الاقوامی شہر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں دنیا کے تمام بڑے ذرایع ابلاغ کے ادارے جہاں دنیا کے ترقی اور نیم ترقی یافتہ شہروں کا ذکر کرتے ہیں وہیں کراچی نے بھی ان میں شامل رہنے کا اعزاز برقرار رکھا ہے۔ ملک کی معیشت میں کراچی کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔
اس کی دو دو بندرگاہیں بحیرۂ عرب سے منسلک ہیں جو سامان کی ترسیل اور زرمبادلہ کے حصول کا ذریعہ بھی ہیں۔ بدقسمتی سے کراچی شہر کو مدنظر نہیں رکھا گیا اسی وجہ سے آج شہر کی مجموعی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو منفی اثرات کا مرتب ہونا ظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہزاروں کلومیٹر پر محیط شہر کی سڑکیں اور بے ہنگم ٹریفک اس بات کا ثبوت ہے کہ اس شہر کو وقتی ضرورتوں یا مصنوعی نمود و نمائش کے طور پر غیر سنجیدہ طریقے سے ڈیزائن کیا جاتا رہا ہے۔
شہر کی سڑکوں پر بھاری مال بردار گاڑیاں اور ٹرالر دوڑتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے سڑکوں، پلوں اور انڈرپاسز میں ٹریفک کا جام ہونا اور ان کا جلد ٹوٹ جانا اب ایک معمول کی بات بن چکی ہے شاہراہوں پر ٹرننگ اور یوٹرن کا درست مقام سے ہٹا کر غلط جگہ پر بنایا جانا بھی ٹریفک کی روانی میں خلل کا باعث ہے۔ سروس روڈ کا تصور اب تقریباً کراچی سے ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ یوٹیلیٹی سروسز کے اداروں نے سڑکوں کے عین درمیان اپنی تنصیبات کے گاڑنے کو اپنی پالیسی کا حصہ بنالیا ہے جب کہ پینے کے پانی کی لائنیں ہوں یا نکاسی آب سڑک کے درمیان انھیں ڈال کر موت کے کنوئیں جیسے مین ہول بھی ساتھ ہی بنا دیے گئے ہیں۔
یہ کس ملک کے ڈیزائن اور کس قانون کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں۔ یہی نہیں اس پورے شہر کراچی میں ایک واحد پارکنگ پلازہ صدر میں بنایا گیا ہے جو اپنی افادیت کے اعتبار سے تو بہتر ہے لیکن شہریوں کو وہ سہولت دینے سے اب تک قاصر ہے۔ اس کی ایک وجہ جو بظاہر نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جس مقام پر اسے بنایا گیا ہے وہاں سے بڑی مارکیٹیں اب ختم کردی گئی ہیں اور اس پارکنگ پلازہ میں پہنچنے کے لیے بے ہنگم ٹریفک سے گزر کر آنا پڑتا ہے یہ بھی اس واحد پارکنگ پلازہ کے ناکام ہونے کا سبب ہے۔ کراچی میں ترقیاتی کام کروانے والے ادارے کے۔ڈی۔اے، ایم۔ ڈی۔اے، ایل۔ڈی۔اے، کے۔ایم۔سی، کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس سوسائٹیز وغیرہ کے علاوہ صوبائی اور وفاقی ادارے بھی حصے دار ہیں۔ یہ تمام ادارے بشمول یوٹیلیٹی سروسز فراہم کرنے والے محکمے آپس میں کسی قسم کی باہمی روابط نہ رکھنے کی وجہ سے شہریوں کو جو سہولت دیتے ہیں وہ آسانی کے بجائے درد سر کا باعث بن جاتی ہیں۔
میں کراچی شہر کے دو میگا پروجیکٹس کے بارے میں صرف اتنا بیان کرسکتی ہوں کہ آمد و رفت کی سہولت کی خاطر کراچی میں میٹروبس کے منصوبے کا آغاز تو کردیا لیکن اس کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں مزید کتنا وقت درکار ہوگا اس کے بارے میں ماہرین بھی متنازعہ رائے رکھتے ہیں۔ اسی طرح کروڑوں شہریوں کی ایک بنیادی ضرورت پینے کے پانی کی فراہمی والا K-4 پروجیکٹ بھی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کا نمونہ بن چکا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس پروجیکٹ کی لاگت ماشا اللہ ہر سال اپنے اندر اضافہ ہی کرتی چلی جا رہی ہے۔
اب اس کا ذمے دار کون ہے عوام یا ادارے؟ کراچی کو مستقبل میں ایک اچھی اور بہتر لوکیشن سے آراستہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اب کراچی شہر کی مرکزی شاہراہوں کے علاوہ ذیلی سڑکوں اور ٹرننگ کے ساتھ ساتھ یوٹرن کو بھی درست الائنمنٹ میں تیار کیا جائے۔ انڈرپاسز کے داخلی اور خارجی راستوں میں آنے والی رکاوٹوں میں اضافہ کیا جانا ضروری ہے کیونکہ اکثر مقامات پر داخل ہوتے ہوئے یا انڈرپاسز سے نکلتے ہوئے دائیں اور بائیں جانب جو رکاوٹیں نظر آتی ہیں وہ مخدوش ہوچکی ہیں جہاں سے چھوٹی گاڑی والے یا پیدل افراد اچانک سامنے آجاتے ہیں جس کی وجہ سے حادثے کا سامنا ہوجاتا ہے۔
اسی طرح کی صورتحال پلوں پر بھی نظر آتی ہے جہاں اپ اور ڈاؤن اسٹریم (ٹریفک کے چڑھتے اور اترتے وقت) پر این سامنے ایسی گزر گاہیں بن چکی ہیں جو ٹریفک حادثات کا باعث بنتی جا رہی ہیں جب کہ یو ٹرن ایسے مقامات پر بنائے گئے ہیں جہاں ہر وقت کراس کی وجہ سے رش ہو جاتا ہے کہیں فیول اسٹیشنز کی وجہ سے تو کہیں اسپتال اسکول، مذہبی مقامات یا اس کی ایک وجہ اور بھی ہے وہ یہ کہ جو یوٹرن پیئر کی صورت میں بنائے گئے ہیں ان میں اتنا فاصلہ رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے گاڑیاں چلانے والے ایک ہی یوٹرن کو استعمال کرتے ہیں جو آسانی کے بجائے مشکلات میں اضافے کا سبب ہے اور ایسے یوٹرن جہاں پر اسٹاپر لگائے گئے تھے وہ تقریباً ٹوٹ چکے ہیں یا مٹی سے بھر کر جام ہوچکے ہیں اور کچھ چوری ہونے کے ساتھ اپنی افادیت بھی کھو چکے ہیں۔ یہ غلط سمت سے آنے والی گاڑیوں کو روکنے کے لیے لگائے گئے تھے یہ بھی توجہ طلب ہیں۔
اسی طرح ایک مسئلہ ٹرننگ پوائنٹ کا ہے جو مرکزی یا ذیلی شاہراہوں سے منسلک ہے کیونکہ اکثر گاڑیاں اچانک سامنے آجاتی ہیں جس کی وجہ سے سامنے سے آنے والی گاڑیاں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکنے کی وجہ سے یا تو ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی ہیں یا پھر ساتھ چلنے والی گاڑی سے رگڑ جاتی ہیں اس میں زیادہ نقصان ان موٹرسائیکل سواروں کا ہوتا ہے جن میں اکثر خواتین اور بچے شامل ہوتے ہیں وہ بھی زد میں آجاتے ہیں۔ سڑکوں پر زیبرا کراسنگ کا تصور تقریباً ختم کردیا گیا ہے جو مہذب ملکوں میں آج تک رائج ہے۔ نہ جانے ہمارے ملک کی شاہراہیں اس عالمی نشان سے کیوں خالی ہوتی جا رہی ہیں جب کہ ڈرائیونگ بک میں زیبرا کراسنگ کو تو شامل رکھا گیا ہے اور ڈرائیورز سے لائسنس حاصل کرتے وقت سوال بھی کیا جاتا ہے کہ زیبرا کراسنگ کیا ہے لیکن عملی طور پر اب شہری محکموں نے جن کی ذمے داری روڈ اور برجز کی تعمیر اور دیکھ بھال کی ہے اس کی بنیادی ذمے داری ان پر عائد ہوتی ہے۔
یہ زیبرا کراسنگ روڈ پر پیدل سڑک پار کرنے والوں کا بنیادی قانونی حق ہے اس کو سرے سے ختم ہی کردیا گیا ہے لہٰذا اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بعض شاہراہوں پر انڈرپاسز اور برجز کی فوری ضرورت ہے خاص طور پر کارساز روڈ پر جو اسٹیڈیم سے شاہراہ فیصل کی طرف جانے والے راستے میں عین نیوی گیٹ کے سامنے سگنل کی وجہ ٹریفک کی روانی میں خلل پیدا ہوتا ہے اس مقام پر ٹریفک کا دباؤ بہت زیادہ ہوگیا ہے لہٰذا ایک انڈرپاس یہاں پر بنایا جائے تاکہ اس مرکزی شاہراہ پر ٹریفک کا تسلسل جاری رہے اور عوام کا وقت اور فیول ضایع ہونے سے بچ جائے۔
کراچی کی اندرونی گزرگاہوں اور مرکزی راستے ہیوی ٹریفک کے اعتبار سے ڈیزائن نہیں کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ہیوی ٹریفک سڑکوں پر دن و رات رواں دواں رہتی ہے جو سڑکوں کو مخدوش کرنے اور ان کی تباہی کا باعث بن چکی ہے معذور افراد جن کی سب سے بڑی تعداد شہر کراچی میں موجود ہے سڑک کیسے پار کریں؟ اس جانب ذرا بھی توجہ نہیں دی گئی۔ پیڈسٹرین برجز پر عمر رسیدہ و معذور اور کمزور افراد نہیں جاسکتے ان کے لیے کوئی سہولت میسر نہیں ہے یہ مسئلہ انتہائی غور طلب ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ شعبۂ ٹریفک انجینئرنگ بیورو کا اس میں کردار درست نہیں جس نے اب تک جتنے بھی PC-1 تیار کیے ہیں۔
ان افراد یعنی معذور اور کمزوروں کو نظرانداز کیا گیا یہ نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ملک کے قوانین کی خلاف ورزی بھی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اب ان سب کا تدارک کیا جائے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں کراچی کو بین الاقوامی شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہیں اس کو اس معیار کے مطابق تیار بھی کیا جائے تاکہ عوام کے بنیادی حقوق اور ان کی پاسداری اداروں کا نصب العین ہو جو قوانین کے زیر سایہ کام کرتے ہیں۔ کراچی میں وفاقی اور صوبائی اداروں کے علاوہ تمام شہری ادارے بشمول کنٹونمنٹ بورڈ کے پالیسی تیار کرنے والے ماہرین، رائے دہندہ اور آرکیٹیکٹ کی یہ مشترکہ ذمے داری ہے کہ وہ اس شہر کی تعمیر و ترقی میں ایسا مثبت کردار ادا کریں جو مستقبل میں شاہکار کے طور پر یاد رکھا جائے کیونکہ وقت فیصلے قومی سرمائے کا ضیا ہونے کے ساتھ بدنامی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔