عقلمند والدین
ایسے بچے جن کی نہ نیند پوری ہوئی ہے اور نہ صحیح طریقے سے ناشتہ, وہ کس طرح اچھے طریقے سے پڑھائی کر سکتے ہیں؟
جب صبح واک کر کے آتے ہیں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے نظر آتے ہیں۔ اسکول جانے کے لیے وین میں بیٹھے بچے۔ ان بچوں کو دیکھ کر ان کے والدین کی سمجھداری اور بے وقوفی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کی عمر پچیس سے پچاس سال کی ہے تو یہ کالم آپ کے لیے فائدہ مند ہے۔ اب رہ گئے نوجوان تو انھیں مستقبل میں آج کی باتیں کام میں آئیں گی جب قدرت انھیں بڑی ذمے داری سونپے گی۔ اب رہ گئے ہیں وہ لوگ جو عمر کی نصف سنچری مکمل کر چکے ہیں، وہ تجزیہ کرسکتے ہیں کہ وہ کسی حد تک عقلمند والدین تھے جب ان کے بچے اسکول جایا کرتے تھے۔
وین میں بیٹھے بچے جمعہ کو بڑے خوش ہوتے ہیں کہ یہ آخری دن ہوتا ہے اور پھر دو دن مزے کے ہوتے ہیں۔ پیر کے دن ایسے بچے بڑے اداس نظر آتے ہیں۔ اب جب کہ ہم اپنے قارئین کو ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کر چکے ہیں تو یہ طے کرنا باقی ہے کہ ان بچوں کو دیکھ کر ان کے والدین کی ذہانت کا اندازہ کس طرح ہوتا ہے؟ بعض بچے وین میں سوئے سوئے سے نظر آتے ہیں اور کچھ بچے اونگھ رہے ہوتے ہیں یا سمجھ لیں کہ اپنی نیند پوری کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کے والدین کو ہم کیا کہیں گے؟ یہ درمیانے درجے کے بے وقوف والدین کے بچے ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو اگر جلدی سلا دیا جاتا اور ان کی نیند پوری ہو چکی ہوتی تو ایسے بچے وین میں بیٹھے جھونکے نہ کھا رہے ہوتے۔ کچھ والدین ان سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں۔ وین میں ایسے بچے نظر آتے ہیں جو نیند پوری کرنے کے علاوہ ایک اور کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں سینڈوچ یا بسکٹ یا کوئی بن ہوتا ہے اور وہ بند آنکھوں سے اپنی بھوک مٹا رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایسے والدین کی اولاد ہوتی ہیں جو رات گئے خود بھی جاگ رہے ہوتے ہیں اور بچوں کو بھی جگائے رکھتے ہیں۔ اب ایسے بچے جن کی نہ نیند پوری ہوئی ہے اور نہ انھوں نے صحیح طریقے سے ناشتہ کیا ہوتا ہے وہ کس طرح اچھے طریقے سے پڑھائی کر سکتے ہیں؟
ٹی وی کی آمد نے بچوں کے سونے اور اٹھنے کے معمولات کو بگاڑ دیا۔ پھر وی سی آر آیا اور اس کے بعد چوبیس گھنٹے کے ٹی وی، ایک آدھ چینل نہیں بلکہ درجنوں چینلز۔ پھر موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، فیس بک اور آئی پیڈ۔ ان تمام ایجادات کے باوجود عقلمند والدین اپنے بچوں کو جلد سلا دیتے ہیں جب کہ دانشور والدین خود بھی جلد سونے اور جلد اٹھنے کی ترتیب بناتے ہیں۔ Early to bed and early to rise والے محاورے پر عمل کر کے وہ صحت، دولت اور دانش کو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں سردی کے دنوں میں جب راتیں بڑی ہوتی ہیں اور سورج دیر سے نکلتا ہے تو واک کے بعد بچے نظر آتے ہیں۔ اسکول جاتے معصوم بچے۔ پیدل، سائیکل پر، گاڑیوں میں اور اپنی وین میں بیٹھے۔ ہنستے کھیلتے اور گاتے بچے جو فریش ہوتے ہیں وہ اپنے والدین کے عقلمند ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ دوسری طرف اسی وین میں اونگھتے ہوئے اور ہاتھ میں کھانے کی کوئی چیز پکڑے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ ہم لاپرواہ والدین کے بچے ہیں۔
اسکول جانے والے بچوں کی بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ایک رویہ والدین کا بچوں کے اساتذہ، پرنسپل اور وین ڈرائیور کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ آج کے دور میں اساتذہ اور والدین کی میٹنگز ہوتی ہیں۔ زبیر اور ہانی کے اساتذہ کے حوالے سے درجنوں مرتبہ واسطہ پڑا۔ زبیر انٹرمیڈیٹ کر چکا جب کہ ہانی نویں کلاس کا طالب علم ہے۔ جب دوسرے والدین، اساتذہ سے گفتگو کرتے تو اسے بھی سننے کا موقع ملا۔ متوسط طبقے میں اپنے بچوں کو پڑھانے اور آگے بڑھانے کا جذبہ بہت بڑھ گیا ہے۔ جو والدین خود بھی پڑھے لکھے ہوں اور بچوں پر ذاتی توجہ دیتے ہوں وہ اساتذہ سے الجھتے نظر آتے ہیں۔ آگے بڑھنے کی شدید اور غیر ضروری خواہش نے والدین اور بچوں دونوں کو دباؤ میں ڈال دیا ہے۔
بعض اوقات غلطی والدین کی ہوتی اور کبھی خطا کار ٹیچر ہوتے اور کبھی شرارت بچے کی ہوتی ہے۔ اساتذہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں بالخصوص خواتین اساتذہ۔ اب والدین کسی ایک مضمون کی ٹیچر سے خوش ہوں وہ تبدیل ہو جائے تو وہ کلاس ٹیچر سے الجھتے نظر آتے ہیں۔ اب اس انتظامی معاملے میں ٹیچر کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ خواتین اساتذہ کی منگنی ہو جائے اور سسرال کا تقاضا ہو کہ جاب چھوڑ دیں تو وہ چھوڑ دیتی ہیں۔ بعض اوقات شادی کے بعد وہ اسکول چھوڑ جاتی ہیں۔ اگر منگنی و شادی کے بعد بھی استانی پڑھانے کے سلسلے کو جاری رکھے ہوتی ہے تو اب اس پر قدرت بڑی ذمے داری ڈال رہی ہوتی ہے۔ دوسروں کے بچوں کے بجائے اپنے بچوں کی۔ یوں ماں بننے والی خواتین بھی اسکول چھوڑ دیتی ہیں یا چھٹی لے لیتی ہیں۔ یوں نئی استانی کے آنے تک بچے اور والدین اس مضمون کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں۔ اس معاملے پر کلاس ٹیچر سے الجھنا فضول ہوتا ہے۔
والدین کو اپنے بچوں کے اساتذہ سے کس طرح بات کرنی چاہیے؟ خاص طور پر اس وقت جب بچہ اس گفتگو کو سن رہا ہو۔ ایسے میں الفاظ میں نرمی اور ان کا بہتر چناؤ والدین کی عقلمندی اور بے وقوفی کو ظاہر کرتا ہے۔ سخت سے سخت بات مناسب الفاظ میں کہی جا سکتی ہے۔ غلطی بعض اوقات اساتذہ کی ہوتی ہے۔ بچے نے نمبر زیادہ لیے ہوتے ہیں لیکن رپورٹ میں کم لکھے ہوتے ہیں۔ طالب علم اور والدین کی دن رات کی محنت، استاد کی ذرا سی غلطی کے سبب غارت ہوتی نظر آتی ہے۔ یوں والدین اپنے بچوں کے اساتذہ سے سخت بات کر جاتے ہیں۔
یاد رکھیے! آسمان سے بچوں کو زمین پر لانے کا سبب والدین ہوتے ہیں لیکن انھیں زمین سے آسمان کی بلندی پر استاد پہنچاتا ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت نہیں کریں گے تو وہ ہمارے بچوں کو ہماری عزت کرنا کیا سکھائیں گے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اساتذہ یا وین ڈرائیور سے الجھنے والے والدین اپنے بچوں کا خود ہی نقصان کرتے ہیں۔ اسکول جانے والے بچوں کا زیادہ تر وقت اساتذہ کے ساتھ گزرتا ہے۔ ٹیچر سے بد تمیزی کرنے والے والدین کے بچوں کو اکثر اساتذہ یاد رکھتے ہیں۔ پھر وہ بچوں پر اس طرح طنز کر سکتے ہیں جو پوری کلاس کو آپ کے بچے پر ہنسنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ بچے کے کسی عمل یا پڑھائی کی کسی بات کو وہ پوری کلاس کے لیے مذاق بنا کر اپنا بدلہ لے سکتے ہیں۔ اسکول جانے والے چھوٹے بچے ایسی یلغار کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ نہ وہ شکایت کر سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ نہ مار پیٹ نہ تشدد جسے دکھایا جا سکے۔ طنز کا تیر سچ مچ کے تیر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ والدین کے استاد کے ساتھ سخت الفاظ کا ان کے بچوں کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پھول جیسے بچوں کی حفاظت کریں اور انھیں معاشرے کے کانٹوں سے بچائیں۔ جلد سلائیں، جلد اٹھائیں۔ کم ازکم ان لوگوں سے غیر ضروری طور پر نہ الجھیں جن کے ساتھ آپ کے بچوں کا زیادہ وقت گزرتا ہے، اگر آپ ہیں اسکول جانے والے بچوں کے عقلمند والدین۔