ٹرین مارچ کیوں اور کس لیے

بلاول اور پی پی پی کا بیانیہ اور عمل اب تک عوام تو عوام خود بلاول اور اُس کی جماعت کے لوگوں میں بھی واضح نہیں ہوسکا ہے



ہمارے ملک پاکستان کے نام میں ''جمہوریہ '' لفظ شامل ہے۔ کئی رہنماؤں نے اس کے لیے شہادت کا جام نوش کیا ،کئی رہنماؤں ، شعراء نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ہزاروں سیاسی کارکنوں و لاکھوں لوگوں نے سیاسی ہلچل میں شاہراہوں و سڑکوں کے دھکے کھائے ،جب کہ کئی نے ٹارچر سیلوں کو جھیلا تو کئی وہیں تشدد کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اس جمہوریت کے پرچم کو بلند رکھنے کی کوششوں سے دستبردار نہیں ہوئے ۔ لیکن پون صدی گذرنے کے بعد بھی ملک میں حقیقی جمہوریت ابھی تک اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر چلنے کے قابل نہیں ہوسکی ہے ۔

ہمیشہ اپنے کسی پالِک (Gaurdian)کی انگلی پکڑ کر ڈولتے و لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھنے کی سعی میں لگی رہتی ہے ۔ 1945کے الیکشن سے لے کر آج تک یہاں ہونیوالے انتخابات کبھی شفاف اور آزادانہ نہیں ہونے دیے گئے ۔ ملک کا وہ سب سے بڑا مسئلہ، جو کہ دوسرے تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ ملک میں کرپشن کا گرم بازار ، چور بازاری ، جاگیردارانہ نظام کے باقی رہنے کا سبب بھی یہی ہے تو سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی روپ کی وجہ بھی یہی ہے ، جب کہ اقربا پروری ، اختیارات سے تجاوز ، عدم برداشت کے حامل فرقہ وارانہ و مذہبی شدت پسند معاشرے کا موجودہ روپ بھی انھی قوتوں کی جانب سے بنائے گئے اسی ماحول کی وجہ سے ہے۔اور تواور ملکی دفاع اور معاشی استحکام داؤ پر لگا ہوا ہے ۔

عوام کا چوتھائی حصہ (25%) غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے ، ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ، ملک کے 50%فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ۔ جب کہ ان مسائل کے حل کے لیے حکومتی اقدامات عوام کی آنکھوں میں سرما ڈالنے کی کوشش ہے ۔ جسے بنیاد بناکر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو (زرداری) نے احتجاجاً ٹرین مارچ کیا ۔

ویسے تو دنیا بھرکے جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ ہی مؤثر پلیٹ فارم تصور کیا جاتا ہے، جہاں موقف رکھنے سے لے کر ارکان سے ہم آہنگی پیدا کرکے اپنے نقطہ نظر کو قانون بنانے سے متعلق لابنگ کرکے کام کیا جاتا ہے اور اس میں مہارت ہی کسی بھی سیاسی جماعت کی قدر و قیمت بتاتی ہے ۔ اس کی ایک مثال 1943میں سندھ اسمبلی سے پاکستان کی قرار داد پاس کرانے کی ہے ، جو کہ حامی ارکان کی تعداد کم ہونے کے باوجود شیخ عبدالمجید سندھی اور جی ایم سید نے اپنی نہایت عمدہ سیاسی مہارت سے پاس کرائی تھی ۔ لیکن ہمارے یہاں ایسی بالیدگی کی حامل و بالغ القوت سیاسی جماعتوں اور افراد کا آج کل قحط ہوتا جارہا ہے ۔ ماضی کی پروگریسو اور Aggresiveجماعتیں بھی آج Pro-establishmentبن کر اُن کی سجائی ہوئی اسٹیج پر نرتک (ناچ) کرتی نظر آتی ہیں ۔

ٹرین مارچ در اصل لانگ مارچ کی طرز کے اُس احتجاج کا نام ہے ،جو کسی طویل مسافت کے حامل Targetکی طرف احتجاج کے لیے کیا جائے ۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو اور جماعت اسلامی کے ٹرین مارچ ہمیں نظر آتے ہیں ۔ لیکن بلاول بھٹو کا یہ ٹرین مارچ ان سے یکسر مختلف ہے، کیونکہ اس میں واضح مطالبات یا پیغام اور Targetنظر نہیں آیا ۔ یہ صرف اور صرف ایک جماعت کی قیادت کی عوام میں مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے کیا گیا نظر آتا ہے ۔ورنہ چین کے انقلاب کے لیے ماؤزے تنگ کا یہ جمہوری ہتھیار انتہائی کارگر ہے، جو اگر واضح اور حقیقی مطالبات کے ساتھ شروع کیا جائے تو یہ سامنے والے حریف کی نیندیں اُڑا دیتا ہے اور پھر اس میں کامیابی کی بھی قوی اُمید ہوتی ہے ، جیسا کہ اس وقت لندن میں بریگزٹ بحران خالص عوامی ملین مارچ ہے ، جو "Put it to the People"یعنی ''عوام پر چھوڑ دیں'' کے مطالبے کے ساتھ کیا جارہا ہے ۔

برطانوی عوام نے دراصل اپنے ہی کیے گئے ملکی ریفرنڈم کے ذریعے یورپ سے علیحدگی کے فیصلے کو دوبارہ تبدیل کرنے کے لیے حکومت سے مطالبے پر یہ تحریک شروع کررکھی ہے ۔ یہ عوام اپنے گھروں سے نکل کر پارلیمنٹ اسکوائر کے گرد جمع ہیں ۔ لیکن اس کے برخلاف بلاول صاحب اپنے کراچی کے گھر سے اپنے ہی دوسرے گھر لاڑکانہ اپنے نانا کی برسی میں شرکت کے لیے جارہے ہیں، جو بہرحال نہ تو صوبائی اور نہ ہی وفاقی دارالحکومت ہے اور نہ ہی وہاں کسی اقتداری فریق کو کوئی پریشانی کا سامنا ہونے کا امکان ہے ۔

بلاول اور پی پی پی کا بیانیہ اور عمل اب تک عوام تو عوام خود بلاول اور اُس کی جماعت کے لوگوں میں بھی واضح نہیں ہوسکا ہے کہ وہ چاہتے کیا ہیں ؟بلاول کے موجودہ ٹرین مارچ کا سبب مہنگائی اور انتہا پسند تنظیموں سے متعلق حکومتی رویے کے خلاف بتایا جارہا ہے ۔ بقول بلاول ''حکومت اس معاملے میں غیر مخلص و غیر سنجیدہ ہے ''۔حالانکہ مارچ کے دوران مختلف شہروں میں تقاریر میںوہ ان دونوں مسائل کا حل بتانا تو ایک طرف ان پر واضح موقف بھی نہیں دے پائے۔

پھر جو پی پی پی، اے پی ایس پشاور سانحے اور عبادت گاہوں پر حملوں جیسی دہشت گردی، تھر کے کوئلے ، صوبہ میں اقلیتی لڑکیوں کے اغوا اور زبردستی مذہب کی تبدیلی ، صوبہ کے مالی وقدرتی وسائل اور پانی پرآئینی حق و انتظامی اختیار نہ ملنے ، وفاق کی جانب سے سندھ کے سمندر پر قبضے اور سمندری جزائر کی غیر قانونی فروخت ،صوبہ کے اُمور میں بے جا وفاقی مداخلت ، مسنگ پرسنز اور مسخ شدہ لاشوں کے ملنے جیسے سنگین مسائل پر لبوں پر چپ کے تالے لگائے بیٹھی رہی ، اُسے آج اچانک ملکی عوام خاص طور پر سندھ کے عوام کی تکالیف اور مسائل کا خیال کیسے آگیا ؟لیکن صورتحال چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ یہ مگرمچھ کے آنسو ہیں ۔

سندھ کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ۔ ساحلی علاقوں میں صومالیہ کے قحط کی سی صورتحال ہے ، بدین اور دادو میں لوگ شدید احتجاج کررہے ہیں ، لیکن سندھ میں ایسی بھیانک صورتحال پر بھی وفاق کی جانب سے بحالی کے کسی منصوبے کا اعلان نہ ہونے اور 1991کے آبی معاہدے پر عمل کرکے سندھ کے عوام کے 65سالہ زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے اُلٹا نئے ڈیم بنانے اور اس پر اداراتی دھمکیاں دینے جیسا ایشو بھی بلاول کے ٹرین مارچ کے مقاصد میں شامل نہیں !تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع ہوکر نیشنل گرڈ میں جانے کو تیار ہے، لیکن وفاق کی جانب سے صوبہ سندھ کو تو چھوڑیں تھر کے علاقے کے لیے بھی کوئی مراعاتی پالیسی نہ ہونے پر بھی بلاول نے کوئی احتجاجی بیان یا مطالبہ مارچ میں نہیں رکھا !نئی وفاقی حکومت نے محض 8ماہ میں 15000ارب کے بیرونی قرضے لے کر ملک پر بوجھ مزیدبڑھادیا، مگر بلاول کے لبوں پر یہ کہانی بھی نہیں ! سمندر سے 50کروڑ بیرل تیل اور گیس کے بڑے ذخائر نکلنے سے متعلق وفاقی پالیسی بھی بلاول کے بیانیے کا حصہ نہیں !جہاں تک بات ہے مہنگائی کی تو عوام پر آٹے اور تیل سے لے کر موبائل لوڈ کے ذریعے ٹیکس کا بوجھ ڈالا گیا ہے ، جن پر ٹیکس لاگو نہیں اُن سے بھی وصول کیا جارہا ہے ۔

یہ بات خود سپریم کورٹ نے زیر سماعت مقدمے کے دوران اپنے ریمارکس کی ہے ۔ لیکن بلاول صاحب اس پر بھی خاموشی کی مورت بنے رہے !تیسری بار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور لوڈ شیڈنگ بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے ، جب کہ گیس کمپنیاں بھی 145%نرخ بڑھانے کے لیے پَر تول رہی ہیں ۔ عمران خان کے حالیہ دورہ سندھ میں بھی صوبہ کے پس ماندہ ترین علاقوں کو چھوڑ صرف کراچی میں اپنے اور اپنی اتحادی جماعت کے اراکین ِ اسمبلی کے حلقوں کے لیے پیکیج دینے کا اعلان کیا گیا ہے، جو کہ متعصبانہ رویہ ہے ۔ 8ماہ میں پارلیمنٹ سے کوئی قانون سازی یا کارروائی عوامی مفاد ِ عامہ کے مسائل پر بحث سے عاری رہنا بھی جمہوریت اور پارلیمنٹ کی توہین ہے ۔ مگر ان تمام مسائل اور حکومت کی ناکامیوں کا ذکر نہ ہونا بھی ٹرین مارچ کے کھوکھلے پن کا ثبوت ہے ۔

میڈیا کو دبوچ لیا گیا ہے ۔ جس سے ایک طرف میڈیا حکومتی طوطا بن گیا ہے تو دوسری طرف میڈیا ورکرز بے روزگاری کی لپیٹ میں آ گئے ہیں ۔ حکومت کی ناکامی کی داستان تو اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ برائے 2019کی دوسری سہ ماہی سے ہی واضح ہوجاتی ہے ۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ترقیاتی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کے باوجود ملکی مالیاتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے ، جاری اخراجات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور زرعی پیداوار میں کمی آئی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ جب کہ ایف بی آر نے بھی اپنی رپورٹ میں ٹیکس ریکوری میں 236ارب روپے کمی کا اعتراف کیا ہے ۔ لیکن بلاول صاحب وفاقی حکومت کے ماتحت ان اداروں جیسی جرأت بھی نہ دکھا سکے !

ٹرین مارچ کے دوران مختلف شہروں میں بلاول کے خطابات میں صرف نیب کی سندھ میں کارروائیاں اور وفاق کی جانب سے 120ارب روپے روکے جانے کا ذکر بارہا دہرایا گیا ۔ ان کے دوران کی جانے والی باقی تمام باتیں محض خود کوذوالفقار علی بھٹو کی طرح جوشیلے پن اور Bold شخصیت کاحامل ثابت کرنے کے طور پر تھیں ۔ البتہ ایک جگہ سرسری طور پر مہنگائی اور کالعدم انتہاپسند تنظیموں کا ذکر تھا جب کہ 18ویں ترمیم کے خاتمے سے متعلق وفاقی حکومت کی نیت پر بھی بات ہوئی جوکہ واقعی عوام کے دیرینہ مسائل اور مستقبل سے جڑے ہیں ۔ لیکن اُس پر بھی کوئی واضح حکمت عملی اور واضح و مؤثر موقف نظر نہیں آیا ۔

تو پھر آخر یہ ٹرین مارچ کیوں اور کس کے خلاف تھا ؟ اس کا سیدھا سیدھا جواب تو وفاقی وزیر اطلاعات نے دیا کہ یہ ''ابو بچاؤ مہم '' ہے ،لیکن ملکی اقتدار کی اُکھاڑ بچھاڑ و تبدیلیوں اور قلابازیوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ ملک کی مقتدر قوتیں بلاول کو عمران خان کی طرح آیندہ کے وزیر اعظم کے طور پر پرکھنے اور عوام میں Popularبنانے کے لیے یہ گیم کھیل رہی ہیں ۔ لگ تو ایسا رہا ہے کہ یہ بلاول کا سلیکشن ٹیسٹ ہے ، جس میں کامیابی بلاول کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریگی ۔شاید اسی لیے بلاول کےso calledاحتجاج میں کوئی بھی مطالبہ یا بیانیہ ریاست کے گمبھیر اُمور و اداراتی پالیسیوں اور عوام کے حقیقی مسائل پر واضح اور مؤثر نہیں تھا ۔

یہ محض وفاقی حکومت کو آنکھیں دکھانے پر محیط تھا جو خود بھی اس طرح کی روش کی عادی اور اسی طرح کی سیڑھیوں سے اقتداری مسند پر براجمان ہوئی ہے ۔ اگر یہ حقیقی معنوں میں احتجاج ہوتا تو عوامی مسائل کو پہلے جلسوں اور میڈیا و پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے اُجاگر کیا جاتا پھران اُمور و مسائل پر وائٹ پیپرجاری کرکے حکومتی ناکامی کو ظاہر کیا جاتا اور دیگر سیاسی و جمہوری طریقوں سے اپنا موقف یا ایجنڈہ عوام میں مشتہر کیا جاتا تاکہ عوام اور دنیا کو مارچ کے مقاصد کا پہلے سے پتہ ہوتا اور پھر اُس مارچ کے ذریعے عوامی طاقت سے حکومت ِ وقت سے مخاطب ہوتے ۔

جہاں تک بات ہے نیب کی کارروائیوں کی تو اُسے قانونی طریقے سے اسمبلی فلور پر قانون سازی کے ذریعے قابو میں کرنے کے آپشن کو اگر بروئے کار لایا جاتا تو بہتر تھا یا پھرعدالتی قانونی جنگ لڑی جاتی جوکہ خود بلاول اور اُس کی جماعت کوعوام کی نظر میں ایک پختہ و بالغ النظر اور قانون کی بالادستی کی قائل جماعت ٹھہراتی ۔پھر اگر آپ عوام کے پاس جاتے تو مظلوم یا حق پرست بن جاتے یوں ''ابو بچاؤ مہم '' کا ٹھپہ نہ لگتا!

ویسے احتساب بھی عجیب ہو رہا ہے ، پورے ملک میں کرپشن صرف سندھ میں ہوتی نظر آتی ہے اور کیسز بھی صرف سندھ میں یا پھرحکومت کے مخالفین پر نظر آتے ہیں ۔ یہاں تک کہ کیسز نہ ہوں تو بنا بھی لیے جاتے ہیں ۔ اور پھر کارروائی کی بنیاد پر ہی لوگوں کو ملزم کے بجائے مجرم مشتہر کردیا جاتا ہے ۔ ایسی کارروائیوں اور ماحول نے ایسا ذہنی دباؤ پیدا کیا ہے کہ ایک طرف لوگ خود کشیوں پر مجبور ہیں تو دوسری طرف محکمے و بیوروکریٹس کام سے بھی کتراتے رہتے ہیں کہ پتا نہیں کس معاملے پر کیس بناکر ریکارڈ و لوگوں کو اٹھاکر لے جایا جائے ۔ یوں صوبے کا پورے کا پورا نظام منجمد ہوکر رہ گیا ہے ۔

وزیر اعلی سے محکموں کے چپڑاسیوں تک نیب کے دفتر کے چکر لگانے میں نڈھال ہیں ۔ اس سے صوبہ سندھ کا امیج خراب ہوکر رہ گیا ہے ۔ جب کہ اس تمام تر صورتحال سے سندھ اور سندھ کے عوام کا مفاد اور صوبائی خودمختاری کو فٹبال کی طرح وفاقی انتظامیہ اور ادارے ٹھوکریں مارتے رہتے ہیں اورنیب ایمپائر کی طرح ہیڈ بال فاؤل اور پلینٹی اسٹروک دینے میں مصروف ہے ۔ دیکھا جائے تو کارروائی کے طریقہ کار اورپلی بارگین سے حاصل کردہ رقوم کی بناء پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں ، لیکن سندھی کی کہاوت ''ڈاڈھے جی لَٹھ کھے 2مَتھا '' یعنی ''طاقتور کی لاٹھی کو دو سَر '' ہوتے ہیں جو ادھر سے بھی لگتی ہے تو اُدھر سے بھی ۔ اسی طرح احتساب وفاقی طاقت کی لاٹھی ہے جو مخالفین کے سروں پر برس رہی ہے ۔ پھر چاہے اسد منیر جیسے خود کشی کرتے رہیں یا مراد علی شاہ جیسے پنڈی کی ٹھوکریں کھاتے رہیں ۔

اس ملک کے کرتا دھرتاؤں کو وفاق کی مضبوطی اسی ماحول میں نظر آتی ہے ۔ورنہ صوبائی اینٹی کرپشن ادارہ اور صوبائی عدالتی نظام بھی ہے اور اسی نیب کا دفتر سندھ کے دارالحکومت کراچی میں مکمل طور پر فعال حالت میں بھی موجود ہے ۔ پھر پلی بارگین کے دوران پس پردہ لی جانے والی رقوم تو چھوڑیں ظاہری طور پر حاصل کردہ رقوم بھی صوبہ کو واپس نہیں کی جاتیںبلکہ اُسے وفاق کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کیوں اور کس لیے کارروائیاں ہو رہی ہیں ۔ رہی بات ٹرین مارچ میں عوام کے'' ٹھاٹھیں مارتے سمندر'' کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے عوام پی ٹی آئی سرکار سے شدید مایوس اور نالاں ہیں ، اور پھر دیگر تمام جماعتوں کے منشور و عوامل میں سندھ اولیت نہ ہونا بھی سندھ کے عوام کو برائے نام سندھ کی باتیں کرنے والی پی پی پی کے قریب رکھتا ہے۔

تجزیہ کار تو اس عمل کا 2013کے طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور 2014کے عمران خان کے دھرنوں سے موازنہ کررہے ہیں، اور اس بنیاد پر بلاول کو ملکی روایتی سیاسی و اقتداری ریس کا وہ کھلاڑی سمجھ رہے ہیں ، جو ریس کورس کی انتظامیہ سے لے کر تماش بینوں تک سب کا Favourite ہوتا ہے ،اور ریس کورس کے تمام جواری اُس پر پیسہ لگاتے ہیں ۔ اور حالات سے یہی لگ رہا ہے کہ ملک کی ''اصل انتظامیہ '' بلاول کو اقتداری Game کا آیندہ چیمپئن دیکھنا چاہتی ہے۔شاید اسی لیے مارکیٹ میں اس کے سکے کو عام کیا جارہا ہے !

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں