ماحولیاتی تباہی فیشن انڈسٹری بھی کچھ کم نہیں

فیشن انڈسٹری سالانہ 93 بلین گیلن پانی کا استعمال کرتی ہے، جس سے 50 لاکھ افراد کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں


دیگر صنعتوں کی طرح فیشن انڈسٹری بھی ماحول کی تباہی کا باعث ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حسن ہر انسان کی کمزوری ہے، ایک دوسرے سے مختلف نظر آنا، اعلیٰ لباس زیب تن کرنا اوراپنے لباس اور فیشن کی بدولت خود کو ممتاز محسوس کرنا ہر انسان کی کمزوری ہے۔ یوں تو خواتین نت نئے فیشن اور لائف اسٹائلز کے لیے مشہور ہیں لیکن مرد بھی کسی سے کم نہیں۔ نسل آدم نے غاروں سے نکل کر دنیا کو آباد کرنے کا کام شروع کیا، جس کے بعد اس نے اپنے قدرتی مساکن کو تباہ کرنا بھی شروع کردیا۔ سردی محسوس ہوئی تو جنگلات کو جلانے کا آغاز کردیا، گھر بنانے کی ضرورت پیش آئی تو تب بھی جنگلات ہی کی شامت آتی ہے۔ زراعت کا شوق چرایا تو جنگلات کو کاٹ کر فصلوں کی کاشت کی گئی۔ یوں انسان نے قدرت کی جانب سے عطا کی گئی عظیم نعمت جنگلات کو خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کردیا۔ اس تباہی سے جہاں جنگلی حیات متاثر ہوئی ، وہیں ماحول پر بھی اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔

بات ہورہی تھی فیشن کی! قارئین کےلیے یہ بات باعث حیرت ہوگی کہ دیگر صنعتوں کی طرح فیشن انڈسٹری بھی ماحول کی تباہی کا باعث ہے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں فیشن انڈسٹری کو موسمیاتی تغیر کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے اس پر خصوصی رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ کے مطابق صرف ایک جینز کی تیاری کے لیے 2 ہزار گیلن پانی ضائع ہوتا ہے، جو کہ ایک فرد کی 7 سالہ ضروریات کے لیے کافی ہے، جبکہ فیشن انڈسٹری سالانہ 93 بلین گیلن پانی کا استعمال کرتی ہے۔ جس سے 50 لاکھ افراد کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ دنیا بھر میں مضر صحت پانی کے اخراج میں فیشن انڈسٹری کا 20 فیصد حصہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں صرف جوتوں اور کپڑوں کی صنعتوں کا 8 فیصد حصہ ہے۔ اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو اگلے دس سال کے دوران یہ حصہ 50 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہر سیکنڈ میں فضلے کا ایک ٹرک زمین پر پھینکا یا جلایا جاتا ہے۔


ماحولیاتی بگاڑ اور موسمیاتی تغیر میں صرف جوتا سازی اور کپڑے کی انڈسٹری ہی شامل نہیں بلکہ حسن کی آرائش و زیبائش کےلیے استعمال ہونے والے دیگر عناصر بھی برابر کے حصے دار ہیں۔ پرانے وقتوں میں جہاں قدرتی اجزا کو چہرے اور جلد کی خوبصورتی کےلیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب مختلف کمپنیز صرف چہرہ دھونے کےلیے نت نئے فیس واشز متعارف کرا رہی ہیں، اسی طرح شیمپو، باڈی لوشن، شیونگ کریم، شیونگ لوشن، فیس لوشن، الغرض جسم کے ہر حصے کےلیے الگ سے لوشن دستیاب ہیں۔

ڈیوڈ سوزوکی جاپانی سیاستدان ہیں، جو ان دنوں کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ماحولیاتی بگاڑ پر انہوں نے کئی مضامین لکھے اور پروجیکٹ شروع کیے ہیں۔ ان کی ویب سائٹ پر ماحولیاتی تغیر پر ایک مضمون پڑھا۔ مضمون نگار کے مطابق فیس واش میں پلاسٹک کے باریک ذرات پائے جاتے ہیں۔ جو ذرات ری سائیکل نہیں کئے جاتے اور یہی ذرات سمندری حیات کے لیے بڑے پیمانے پر نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق کچن کے فضلے کا 90 فیصد حصہ ری سائیکل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن واش روم میں استعمال ہونے والے اجزا کا 50 فیصد حصہ ری سائیکل نہیں کیا جاسکتا، جو پانی کے ساتھ ہی نالیوں، دریاؤں اور پھر سمندر میں چلا جاتا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سالانہ 27 بلین پلاسٹک کی بوتلیں سمندر میں جاتی ہیں جبکہ انڈسٹری کم و بیش 120 بلین سے زیادہ پلاسٹک کی مصنوعات تیار کرتی ہے۔ زمین پر پلاسٹک کا 85 فیصد استعمال فیشن انڈسٹری میں کیا جاتا ہے۔ فیشن انڈسٹری سالانہ 1 لاکھ 90 ہزار ٹن پلاسٹک استعمال کرتی ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ 2050 تک 12 بلین ٹن ویسٹ فیشن انڈسٹری کے ذریعے سمندر اور زمین پر پھینکا جائے گا، جو کہ 35000 کثیرالمنزلہ عمارتوں کے برابر ہے۔ عالمی اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق حسن کی آرائش کےلیے 10 ہزار 500 کیمیائی مادے استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں سے صرف 11 فیصد کیمیائی مواد عالمی سطح پر تصدیق شدہ ہے۔

فیشن انڈسٹری کے ان نقصانات پر رپورٹس کے مطالعے کے دوران مجھے قمر جلالوی بے اختیار یاد آئے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کا زبان زدعام شعر فیشن انڈسٹری ہی کے نام تھا۔

مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے، وہ ہیں محو آرائش

اُدھر ہونٹوں کی لالی ہے، اِدھر جانوں کے لالے ہیں

محبوب کی آنکھوں میں جھیل سیف الملوک کے نظارے تلاش کرتے محبوب، رخساروں کےلیے سرخ اناروں کے استعارے استعمال کرنے والے شعرا اور اس کے قدموں کی چاپ کو ہرن کی چال سے تشبیہہ دینے والے افراد یاد رکھیں، یہ نظارے، یہ استعارے اور یہ انداز جہاں جیب پر بھاری پڑے ہیں، وہیں ایک ایک قدم کرۂ ارض کے لیے بھاری ثابت ہورہا ہے۔ سائنسدان جہاں آبی آلودگی سے پریشان ہیں، وہیں یہ امر باعث تشویش ہے کہ آبی آلودگی کا باعث بننے والا 20 فیصد صنعتی فضلہ ٹیکسٹائل انڈسٹری سے آتا ہے۔ یہ صنعت سالانہ 1.5 ٹریلین صنعتی فضلہ خارج کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 1 ٹن کاٹن کےلیے 200 ٹن تازہ پانی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس وقت دنیا بھر میں 750 ملین انسانوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ مضمون کی ابتدا ہی میں جینز کی تیاری کا تذکرہ کیا جاچکا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صرف 15 فیصد زیر استعمال کپڑے ری سائیکل یا عطیہ کیے جاتے ہیں۔ باقی کپڑے کوڑے میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ یہ مقدار زمین پر سالانہ پھینکے جانے والے کوڑے کا 5.2 فیصد ہے۔

کپڑے کی تیاری میں بڑے پیمانے پر کیمیائی مرکبات کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک کلو کپڑے کی تیاری کےلیے ایک کلو کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں استعمال ہونے والے کیمیکل کا 23 فیصد حصہ فیشن انڈسٹری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کپڑے کے وزن میں 27 فیصد وزن کیمیائی مواد کا ہوتا ہے۔ یہی نہیں ایک کلو ٹیکسٹائل پراڈکٹ کی تیاری کے دوران 23 کلو گرین ہاؤس گیسز خارج ہوتی ہیں۔ پولیسٹر ٹیکسٹائل کی صنعت کا اہم جزو ہے، جس کی تیاری کے دوران 70 ملین بیرل تیل ہر سال استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم ایک کپڑے کو 50 دفعہ پہننے کے بجائے صرف 5 دفعہ پہنیں تو کاربن کی مقدار میں اضافے کے خطرات 400 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔ خواتین میں ریشم کا استعمال ہر دور میں مقبول رہا ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مصنوعی ریشم کی تیاری کےلیے سالانہ 70 ملین درخت کاٹے جاتے ہیں، جبکہ مصنوعی ریشم کا محض 30 فیصد حصہ حاصل کیا جاتا ہے۔

یہ چونکا دینے والے اعداد وشمار جہاں کرۂ ارض کےلیے خطرے کی علامت ہیں، وہیں اپنے اس مسکن کی تباہی میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں۔ اپنی روزمرہ زندگی کو پرسکون بنانے کے لیے ہم اپنے ماحول کو تباہ کررہے ہیں۔ گو کہ عالمی موسمیاتی تغیر اور ماحولیاتی بگاڑ میں پاکستان کا حصہ انتہائی کم ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان اس تغیر سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں صنعتیں جتنی کم ہیں، اس میں صنعتی فضلے کے غیر ذمے دارانہ اخراج کا تناسب زیادہ ہے۔ حکومتی سطح پر اس موسمیاتی تغیر اور ماحولیات کےلیے وزارت بھی قائم ہے، لیکن تاحال وزارت کی جانب سے کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے۔ بلوچستان میں صنوبر اور کراچی کے تیمر کے جنگلات اقوام متحدہ کے ورثے میں شامل ہیں، لیکن ٹمبر مافیا آج بھی ان جنگلات میں سرگرم ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان کی معاشی پالیسیوں پر اختلاف ہوسکتا ہے ، لیکن بحیثیت سربراہ مملکت ماحول کی بہتری کےلیے ان کا وژن قابل ستائش ہے۔ اپنا ماحول جتنا بہتر ہوگا، ملک کو اس کے اتنے ہی فوائد ہوں گے۔ روزانہ کی بنیاد پر حسن کی آرائش کےلیے استعمال ہونے والے مصنوعی مرکبات اگر یونہی استعمال ہوتے رہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ندی نالے پلاسٹک سے بھرجائیں گے۔ بقول شخصے محبوب کے نام درخت پر لکھنے کے بجائے محبوب کے نام کا درخت لگانا چاہیے۔ ماحولیاتی بگاڑ سے بچاؤ کےلیے جہاں عوام میں شعور اور آگاہی کی ضروری ہے، وہیں حکومت سطح پر اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔ مثلاً فیشن انڈسٹری کے بزنس ماڈل میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کپڑوں اور دیگر مصنوعات کی ری سائیکلنگ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح فیس واش اور دیگرمصنوعات میں پلاسٹک کے باریک ذرات کے استعمال کی روک تھام کرنا ہوگی۔ کیوں کہ پلاسٹک زمین میں 450 سال سے 1000 سال تک موجود رہتا ہے اور اس کے اجزا کبھی بوسیدہ نہیں ہوتے۔ اسی طرح عوام میں کپڑوں بالخصوص جینز اور پولیسٹر مصنوعات کی ری سائیکلنگ کے لیے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔

فیشن انڈسٹری کی کامیابی کا دارومدار صارفین کی پسند اور ناپسند پر ہے۔ ملبوسات ہوں یا آرائش حسن کی مصنوعات، جب تک صارفین کے رویے تبدیل نہیں ہوتے مال یونہی بکتا رہے گا۔ لیکن یاد رکھیں! جان ہے تو جہان ہے کے مصداق ایک لمحے کو سوچیں کہ آپ کی آرائش و زیبائش کے لیے تیار کردہ مصنوعات آپ کے ماحول اور صحت کےلیے کتنی خطرناک ہیں۔ جب جان ہی نہیں ہوگی تو حسن کس کام آئے گا؟ فیشن زدہ مرد و خواتین فیشن ضرور کریں، لیکن ایسی برانڈز کی مصنوعات استعمال کریں جو ماحول کےلیے خطرناک نہ ہوں۔
(نوٹ: مضمون کی تیاری میں کئی بین الاقوامی ماحولیاتی ویب سائٹس سے مدد لی گئی ہے۔)

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں