اتحاد و یگانگت کے عملی اظہار کا دن

جس طرح ایک طالب علم دن رات محنت کرتا ہے، امتحان کے وقت اپنی بہترین ذہنی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے۔۔۔


[email protected]

جس طرح ایک طالب علم دن رات محنت کرتا ہے، امتحان کے وقت اپنی بہترین ذہنی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے، سوالوں کے جوابات کا پورا نقشہ اور جائزہ اس کی نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ بہت اچھے اچھے، اوسط اور واجبی جوابات کا تناسب، نتیجے کے لحاظ سے اسے ذہنی کشمکش میں مبتلا رکھتا ہے۔ یہ خیال کہ ممتحن کی نگاہ میں جوابات معیاری ہیں یا نہیں۔۔۔۔؟ کبھی ایسا نہ ہوجائے، کبھی ویسا نہ ہوجائے، یہ سوچ نفسیاتی طور پر اسے اطمینان و سکون سے نہیں رہنے دیتی۔ نتیجے کے دن اس کی حالت اور غیر ہوجاتی ہے، لیکن جب وہ امتحان میں نمایاں کامیابی کی نوید مسرت سنتا ہے تو اس کی خوشی کا پیمانہ بھر کر آنسوؤں کی صورت چھلکنے لگتا ہے۔

اسی طرح ایک مسلمان ماہ رمضان میں عبادت و ریاضت کے ذریعے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی حتی الوسیع کوشش کرتا ہے۔ وہ تلاوت قرآن، قیام ، رکوع و سجود اور دیگر طریقوں سے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن تقاضائے بشری کے تحت اس کا دل دھڑکتا رہتا ہے کہ کہیں نفس اور شیطان کھیل نہ گیا ہو، کہیں ریا کاری، خودنمائی اور کسی اور ان جانے شر نے اس کی محنت پر پانی نہ پھیر دیا ہو۔ رحمت، مغفرت اور دوزخ سے خلاصی کے اعلان عام کے باوصف اپنی کسی کوتاہی اور لغزش کی وجہ سے اﷲ رب کریم کی نظر رحم و کرم سے محروم نہ رہ گیا ہو۔ جوں جوں نتیجے کی گھڑیاں قریب آتی جاتی ہیں، اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جاتی ہے، لیکن جب پہلی شوال کو نتیجے کا اعلان بہ زبان ناطق قرآن سنتا ہے۔

''جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور تراویح میں پابندی کی اور صدقہ ادا کیا اور پھر عید گاہ کو گیا، وہ مغفور ہے۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ ایسے شخص پر توجہ فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ ''اے میرے بندو! تم نے میرے لیے روزے رکھے، میرے لیے نمازیں پڑھیں، اب تم اپنے گھروں کو اس حال میں لوٹ جاؤ کہ تم بخش دیے گئے ہو''۔

اﷲ رب کریم کی طرف سے رحمت اور مغفرت کا پروانہ ملنے پر ایک مسلمان کی خوشی کا کیا عالم ہوگا۔ وہ خوشی اور مسرت کی کیفیت محسوس تو کی جاسکتی ہے لیکن الفاظ اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ ہر چہرہ خوشی سے دمکتا ہوا اپنے رب کی بڑائی، پاکی، تعریف اور کبریائی کا ورد کرتے ہوئے رب کعبہ کے حضور دو رکعت نماز بشکل نماز عید، برادران اسلام کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ اﷲ کی واحدانیت اور معبودیت اور شمع توحید کے پروانوں کی عبدیت، وحدت و اخوت کا عالمی سطح پر روح پرور منظر دیکھ کر دشمنان اسلام انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔

عیدالفطر روح کا مادے پر فتح کا جشن ہے، ہر ادا نفس کی آلودگی سے مبرا اور روح کی پاکیزگی سے منزہ ہوتی ہے۔ مادی تقاضوں کی تکمیل کو اسلام یک سر ختم نہیں کرتا، کیوں کہ اسلام دین فطرت ہے، لیکن وہ مادی خوشیوں کی تکمیل میں روحانی اور اخلاقی قیود کو پیش نظر رکھنے کی سختی سے تاکید کرتا ہے۔

اسلام میں ہر مسرت جھوٹی ہے، اگر روح تسکین نہ پائے۔ یہی بنیادی، اصولی اور جوہری فرق ہے، اسلامی اور غیر اسلامی جشن و تہوار میں۔ اسلام، روحانی اور اخلاقی خوشی اول، مادی اور نفسانی خوشی آخر کا قائل ہے۔ غیر اسلامی تہواروں میں مادے کا پرچم فضا میں لہراتا ہے اور روح کا پرچم سرنگوں رہتا ہے۔ لذت نفس کا بھوت سروں پر سوار رہتا ہے۔ روحانیت پر اداسی چھا جاتی ہے۔ ہمیں بہ حیثیت مسلمان غیر اسلامی تہذیب و تمدن کے متوالوں کی حرکات و سکنات سے اجتناب کرنا چاہیے، کیوں کہ ہم اﷲ کے لیے ہیں، اﷲ کے آگے جواب دہ ہیں اور ہمیں اﷲ کی طرف لوٹ کر جانا بھی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں زندگی اس لیے عطا کی ہے کہ وہ ہمیں آزمائے کہ ہم کس طرح عمل کرتے ہیں۔ قوم رسول ہاشمی کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں یا یہود و ہنود کا انداز فکر و عمل۔ اسلام اخلاقی اقدار کے حصار میں رہ کر مادی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کی کھل کر اجازت دیتا ہے، لیکن اس میں مادر پدر آزادی کی قطعاً اجازت نہیں۔

قوم رسول ہاشمی کا عید الفطر کے مبارک اور مقدس دن کو غیر اسلامی اقوام کی طرز پر منانے سے کیا ہم اپنے کلمہ طیبہ کے اقرار کی عملی طور پر نفی نہیں کرتے۔ کیا ہم روز قیامت اپنے رب کو منہ دکھانے کے قابل رہیں گے؟ کیا وہ ہماری جفا پر، خفا ہونے میں حق بجانب نہ ہوگا؟ عیدالفطر درد دل کا پیغام اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اسلام معاشرتی اور سماجی فلاح کا سب سے بڑا داعی ہے۔ وہ آسودہ حال مسلمانوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ معاشی طور پر بدحال مسلمانوں کا سہارا بنیں۔ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، جینا وہ ہے جو دوسروں کی خاطر ہو۔ عیدالفطر کے مبارک دن رسول اکرم ﷺ کے دو ارشادات اگر ہماری زندگی کے لیے مشعل راہ بن جائیں تو واقعی ہماری عید ہوجائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ''مخلوق اللہ کی عیال ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ وہ محبوب ہے جو اس کی عیال سے محبت کرے''۔ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا ''خدا کی قسم وہ مومن نہیں، جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوک سے کروٹیں بدلتا رہے''۔

اسلام اپنے ماننے والوں میں اجتماعیت کا احساس شدت سے پیدا کرتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر انفرادیت کو اجتماعیت کی خاطر قربان کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ خالق اور مخلوق کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہے۔ جو مخلوق کو نظر کرم سے نہیں دیکھتا، خالق بھی اس پر ابر کرم نہیں برساتا۔ عیدالفطر کے مقدس دن ہمیں دکھی انسانیت کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے۔ غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں اور دکھ درد میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو تلاش کرکے ان کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ عید کی مادی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ یہی ہے عبادت، یہی دین وایمان اور یہی پیغام عید ہے۔

عید صرف ایک رسمی تہوار نہیں بلکہ ایک عبادت ہے، دین داری میں دنیاداری ہے۔ اپنی خوشیوں کے ساتھ دوسروں کی خوشیوں کا سامان کرنا ہی عید کا حقیقی مقصد ہے ۔ اس سلسلے میں ہمیں وہ واقعہ یاد رکھنا چاہیے جب حضور اکرمﷺ نماز عید ادا کرنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے، آپؐ نے دیکھا کہ بہت سے بچے عید کی خوشی میں کھیل کود رہے ہیں، لیکن ایک بچہ ان سب سے الگ غم کی تصویر بنا اداس بیٹھا ہے۔ آپؐ نے اس بچے کو دیکھا اور اس کے قریب تشریف لے گئے، شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا کہ بیٹے! کیوں رو رہے ہو؟ اس لڑکے نے جواب دیا، میرے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہے، بچے کے اس جواب کو سن کر آپؐ کی آنکھیں پرنم ہوگئیں، آپؐ نے فرمایا: میرے والد بھی بچپن ہی میں انتقال کرگئے تھے، آج سے میں تمہارا باپ ہوں، آپؐ اس کو اپنے ساتھ گھر لائے، اچھا سا لباس پہنایا۔ وہ بچہ اچھے کپڑے پہن کر باہر نکلا تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ سب کہاں سے آیا؟ تو اس نے جواب دیا کہ آج سے میرے سرپرست حضور اکرمﷺ ہیں۔ ہم سب کو رسول اللہﷺ کے اصولوں کو اپناتے ہوئے یتیموں، بیواؤں، غریبوں اور مسکینوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ جس کے بغیر عید کا حقیقی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ جو بندگان خدا کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں، خدا ان پر مہربان ہوتا ہے۔ خدمت خلق عیدالفطر کی روح رواں ہے۔ اس کے بغیر عید کا تصور ایسا ہے، جیسے پھول بغیر خوشبو کے، جسم بغیر روح کے۔

یورپی مصنف سرتھامس آرنلڈ لکھتے ہیں:
''اسلام میں مشترکہ عبادات کا ایک عظیم عمل ہے، یہاں افریقا کے مغربی ساحل کا نیگرو، مشرق بعید کے چین سے ملتا ہے، امیر اور مہذب ترک ملایا کے بعید ترین حصے سے آنے والے غیر مہذب جزیرے کے رہنے والے اپنے (مسلمان) بھائی کو پہچانتا ہے، وہ عیدین مناتے ہیں، نمازی کسی بھی رنگ و نسل اور مرتبے کا ہو، اس کا ماضی کیسا ہی کیوں نہ ہو، اسے اسلامی برادری میں قبول کرلیا جاتا ہے اور وہ مساوی درجہ پاتا ہے۔ اسلام ایک زبردست سیاسی قوت ہے، جیسے کرہ ارض کے فاصلے سمٹتے چلے جائیں گے، ویسے ویسے اس قوت کا اثر زیادہ محسوس ہونے لگے گا''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔