امریکا میں سیاہ فام گروہ کے نرغے میں تھا

لیفائٹ ایک چھوٹا شہر ہے جہاں یونیورسٹی آف لوزیانہ ایٹ لیفائٹ قائم ہے



وہ چار سیاہ فام میرے سامنے عجیب انداز میں اچھل کود کرکے ہراساں کرنے کی نا کام کوشش کررہے تھے۔ میں اس وقت وطن سے دور امریکی ریاست لوزیانہ کے شہر لیفائٹ میں موجود تھا ۔ سرد رات کے اس پہر فوری مدد کا امکان نہ ہونے کے برابر لگ رہا تھا۔ بازوؤں سے عاری ٹی شرٹس کے باعث بازوؤں کی پھڑکتی مچھلیوں پر بنے نقش ونگار یعنی ٹیٹو اور ان کے قد کاٹھ کسی کو بھی خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھے۔ میں چار روزہ گلوبل میڈیا کانفرنس میں شرکت کے بعد نیو یارک جانے کی غرض سے گرے ہاؤنڈ بس اسٹاپ پہنچا تھا۔

جب یونیورسٹی آف لوزیانہ ایٹ لیفائٹ میں منعقدہ گلوبل میڈیا کانفرنس میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی تو خوشی محسوس ہوئی کیونکہ یہ تیئیسویں میڈیا کانفرنس تھی جس میں پہلی بار پاکستان سے کسی کو شرکت کی دعوت ملی ۔ یہ دعوت عرب ، یو ایس ایسوسی ایشن فورکمیونیکشن ایجوکیٹرزکی جانب سے تھی۔ میں کیونکہ صحافت کے ساتھ درس و تدریس کے پیشے سے بھی منسلک ہوں اور مختلف یونیورسٹیوں میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر میڈیا کورسز پڑھاتا ہوں اور ماسٹرزوایم فل سطح کے طلبا کا استاد ہوں۔ صحافت میں 18سال کا عرصہ گزارنے کے بعد پڑھانے میں لطف آتا ہے۔

اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ کسی مغربی ملک کے مصنف کی لکھی گئی کتاب سے بہتر اپنے تجربات سے طالبعلموں کو آگاہ کرنا بہتر سمجھتا ہوں۔اس کانفرنس میں جرنلزم ، میڈیا و کمیونیکیشن سے متعلق دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیوں کے ڈینز ، پی ایچ ڈی پروفیسرز اور اسکالرز شرکت کے لیے آئے تھے۔ ایک پاکستانی کو ''کی نوٹ اسپیکر'' کے طور پر بلایا گیا اور ایکسیلینس فار جرنلزم عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مجھے خوشی تھی کہ اپنے وطن کا نام روشن کیا کیونکہ یہ ایوارڈ پورے پاکستان کا ہے اور میں نے تو وطن کی نمایندگی کی۔

لیفائٹ ایک چھوٹا شہر ہے جہاں یونیورسٹی آف لوزیانہ ایٹ لیفائٹ قائم ہے۔ 1897میں قائم ہونے والی یہ یونیورسٹی خود ایک چھوٹے شہرکی طرح ہے جہاں ریسرچ کا بہترین کام جاری ہے۔اس یونیورسٹی کا میڈیا اینڈ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ بہترین فیکلٹی پر مشتمل ہے جس میں چیئرمین ڈاکٹر پروفیسر ڈینو ، ڈاکٹر فلپ آٹر، ڈاکٹر فلپ میڈیسن ، ڈاکٹر دیدریا ، لورین وین جروین ، فومی ریٹا و دیگر شامل ہیں۔ کانفرنس کے تیسرے روز فرانس کی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے عرب نژاد پروفیسر ڈاکٹر زخبی ولید نے مجھ سے گزارش کی کہ ہوٹل کے کمرے کا کرایہ خاصہ ہے اورکیونکہ میرے پاس ڈبل روم تھا تو وہ میرے کمرے میں منتقل ہونے کے خواہشمند تھے۔


ڈاکٹر زخبی نے مجھے کہا کہ چوتھے روزکا آدھا کرایہ وہ ادا کرینگے۔ اپنی روایتوں کو مد نظر رکھتے ہم نے ان سے کرایہ لیے بغیر اپنے روم میں خوش آمدید کہا۔اس مرتبہ ہمارا منصوبہ بذریعہ سڑک سفرکا تھا مگر لیفائٹ سے نیو یارک خاصہ دور ہونے کے باعث یہ سفر بذریعہ ہوائی جہاز ہی بہتر تھا۔ چوتھے روز کانفرنس کے اختتام پر ڈاکٹر زخبی نے بتایا کہ وہ بذریعہ بس نیو یارک جا رہے ہیں۔ انھوں نے ساتھ چلنے کی دعوت دی جو مناسب لگی اور ہم ان کے ساتھ ٹیکسی کے ذریعے گرے ہاؤنڈ بس اسٹاپ پہنچے۔ بس اسٹیشن پہنچنے پر معلوم ہوا کہ بس لیٹ ہے اور ہیوسٹن سے روانہ ہوچکی ہے مگر لیفائٹ کب پہنچے گی کچھ اندازہ نہیں۔ بہرحال بس اسٹیشن پر موجود نوجوان سے ٹکٹ لینے کے بعد ہم نے اپنا سامان وہیں چھوڑا اور وقت گزاری کی غرض سے باہر آگئے۔

رات ساڑھے دس بجے کا وقت تھا اور چھوٹا شہر ہونے کے باعث ہوکا عالم تھا۔قریب ہی ڈاؤن ٹاؤن تھا ہم اس جانب چل دیے۔ اس دوران میں نے زخبی سے مخاطب ہو کرکہا کہ یہ علاقہ مناسب نہیں لگ رہا اور سنا ہے کہ یہاں جرائم پیشہ گروہوں کی خاصی تعداد ہے خاص کر سیاہ فام نوجوانوں کے گینگز زیادہ خطرناک ہیں۔میں عرب ہوں کوئی مسئلہ نہیں لمبے قد اور مضبوط جسم کے مالک زخبی نے بارعب انداز میں انگریزی میں جواب دیا۔ میں بھی پاکستانی ہوں میں نے بھی اسی طرح جواب دیا۔ ڈاؤن ٹاؤن میں بھی سناٹوں کا راج تھا البتہ دو،چار بارز، چائے خانے اور اسنوکر کلب ہی کھلے تھے اندازہ ہو رہا تھا کہ چھوٹا شہر ہونے کے باعث لوگ جلدی سونے کے عادی ہیں۔ واپسی پر جب ہم بس اسٹیشن پہنچے تو جس نوجوان نے ٹکٹ جاری کیا تھا وہ ہمارا منتظر تھا کیونکہ وہ اسٹیشن بند کرنا چاہتا تھا۔

گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشنز تو پوری رات کھلے رہتے ہیں اور پھر رات کے ان سناٹوں میں اگر بس اسٹیشن سے بھی باہر ہو گئے تو غیر محفوظ ہیں۔ ہم نے سمجھانے کی کوشش کی پر اس نوجوان کا کہنا تھا کہ لیفائٹ میں اسٹیشن بند ہونے کا یہ ہی وقت ہے اور میں مجبور ہوں ۔ بہرکیف سامان گھسیٹتے ہم بس اسٹاپ پر آگئے۔ ہمارے علاوہ ایک اور سیاہ فام نوجوان مسافر بھی موجود تھا ۔ ڈاکٹر زخبی فون پر گفتگو کرتے کچھ فاصلے پر چلا گیا تھا ۔ اچانک چار سیاہ فام نمودار ہوئے اور اس سیاہ فام مسافر اور زخبی کی جانب جانے کے بجائے میرے سامنے آ موجود ہوئے۔ترقی یافتہ ممالک میں یوں تو رنگت کی بنیاد پر تعصب کو انتہائی غلط گردانہ جاتا ہے مگرکئی مواقعے پر میرا تجربہ رہا ہے کہ یہ تعصب دلوں میں دونوں جانب پنجہ گاڑے موجود ہے۔

صاف رنگت کے باعث امریکا میں اکثر لوگ مجھے اسپینش سمجھ بیٹھتے ہیں۔اس وقت بھی وہ سیاہ فام باقی دونوں کو چھوڑ کر میرے سامنے تھے اچھل کود کر کے ہراساں کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔میں ہاتھ باندھے چہرے پر مسکراہٹ سجائے انھیں اس انداز میں دیکھ رہا تھا جیسے کہ میرے سامنے بچے شرارتیں کر رہے ہوں ۔اس دوران معمولی مکالمہ بھی ہوا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر زخبی بھی میرے ساتھ آ کھڑا ہوا۔ میں ایسے لوگوں کی نفسیات سے واقف ہوں اگر میں گھبرا جاتا تو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنتا بلکہ لوٹ بھی لیا جاتا۔ میں اور زخبی مسکرا رہے تھے اور ٹکٹکی باندھے انھیں دیکھ رہے تھے۔ آخرکار انھیں اندازہ ہو ہی گیا کہ وہ ہمیں ڈرانے میں ناکام ہوچکے ہیں ۔'' تم یہاں کے لگتے نہیں ہو'' لمبے قد والے سیاہ فام نے حیرت سے پوچھ ہی لیا۔ ہاں ہم یہاں کے نہیں ہیں میں پاکستانی ہوں اور میرا ساتھی عرب ہے، میں نے جواب دیا۔اوہ اچھا جب ہی، اس کا انداز ایسا تھا جیسے وہ جانتا ہو کہ انھی خطوں کے لوگ ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔

اس تعارف کے بعد وہ ہمارے ساتھ دوستانہ انداز میں گپ شپ کرنے لگے۔ایک بات میں نے محسوس کی کہ رات کے سناٹوں میں کوئی کار سست روی سے گزرتی تو وہ چونک کر خوفزدہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھنے لگتے۔ میرے استفسار پر اسی لمبے قد والے سیاہ فام نے کہا کہ آج ہمارے پاس اسلحہ نہیں ہے اورکسی بھی گاڑی سے اندھا دھند فائرنگ ممکن ہے۔ اس کی اس بات سے میرے خدشے کی تصدیق ہو گئی تھی کہ واقعی وہ کسی خطرناک گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور گروہوں کی آپس کی چپقلش کا نشانہ بن سکتے ہیں۔آخرکار بس آہی گئی اور ہم نے رخت سفر باندھا ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس بس نے 30 گھنٹوں میں نیو یارک پہنچنا تھا وہ مستقل لیٹ ہونے کے باعث 50گھنٹے میں نیو یارک پہنچی تھی ۔

ہم سوچ رہے تھے کہ اگر ایسا وطن عزیز میں ہوا ہوتا تو جانے میڈیا پر کیسا واویلا مچ چکا ہوتا پر یہاں تو کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ستم بالا یہ کہ جب واشنگٹن پہنچے تو معلوم ہوا کہ جہاں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام تھا وہ ناگزیز وجوہات کے باعث ممکن نہ رہا تھا۔مستزاد یہ کہ دیگردوستوں کو سر پرائز دینے کی غرض سے ہم نے بتایا نہ تھا کہ نیو یارک میں وارد ہونیوالے ہیں ۔ امریکا میں ہر سال ہی قیام دو ماہ کا ہو ہی جاتا ہے اور مختلف ریاستوں کے دوروں کے دوران کہیں ہوٹلز میں اور کہیں دوستوں کے ہاں قیام سے بجٹ زیادہ متاثر نہیں ہوتا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں