آیئے عید مِلیں
ایک زمانہ تھا کہ عید کے موقعے پر طرح طرح کے عید کارڈ بڑی پابندی سے احباب کو بھیجے جاتے تھے۔
''عید مِلنا '' صرف ایک اصطلاح ہی نہیں۔ مسلمان معاشروں کی ثقافت کا ایک بہت اہم پہلو اور استعارہ بھی ہے کہ اس کی وساطت سے محمود و ایاز کا فرق اگر بالکل ختم نہیں تو بے حد کم ضرور ہوجاتا ہے یعنی عید کے دن آپ کو اکثر دو ایسے اشخاص ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے اور روائتی انداز میں تین بار اس عمل کو دہراتے نظر آتے ہیں جن کا بعض اوقات سِرے سے ایک دوسرے سے تعارف ہی نہیں ہوتا یا طبقاتی فرق کے باعث ان کے درمیان ایک دیوار سی حائل رہتی ہے، اسی طرح معاشرے کے بعض طبقے اور افراد ایک بالکل انوکھے اور منفرد تجربے سے گزرتے ہیں جس کی طرف عام حالات میں کوئی دھیان بھی نہیں دیتا۔ ایسا ہی ایک واقعہ مجھے ایک بار اشفاق احمد مرحوم نے سنایا تھا ایک تو واقعے کا انوکھا پن اور دوسرے خان صاحب کے سنانے کا دلکش انداز (جس کی نقل کم از کم میرے بس کی بات نہیں) سچی بات ہے کہ میں آج تک اس کے سحر سے نہیں نکل سکا ۔ کہنے لگے ''ایک بار یوں ہوا کہ عید کی نما زکے بعد ہم سب ماڈل ٹائونی ایک دوسرے سے روائتی جپھیاں ڈال رہے تھے کہ کسی نے مشورہ دیا کیوں نہ علاقے کے SHO سے بھی عید ملتے چلیں کہ تھانہ رستے ہی میں پڑتا ہے ۔
سب تیار ہوگئے، یہ جلوس تھانے پہنچا تو ایس ایچ او جو ابھی ابھی نماز پڑھ کر لوٹا تھا ایک دم گھبرا گیا کہ پتہ نہیں کیا حادثہ ہوگیا ہے جو علاقے کے اتنے عمائدین مل کر آئے ہیں ۔ سب سے پہلے ہم نے اس کو تسلی دی کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ سب خیر ہے ہم تو صرف اس لیے آئے ہیں کہ آپ ہمارے مستقل ہمسائے نہ سہی لیکن اپنی پوسٹنگ کی وجہ سے آنریری ہمسائے تو ہیں تو کیوں نہ آپ سے بھی عید ملی جائے۔ اس پر وہ میانوالی کا کڑیل چھ فُٹا جوان پہلے تو حیران سا ہوکر ہمیں دیکھتا رہا اور پھر بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے ۔ اب حیران ہونے کی باری ہماری تھی ۔ اس دوران میں وہ جوان ہم سب سے عید ملنے کے ساتھ ساتھ مسلسل روتا رہا، ہم نے وجہ پوچھی تو بولا، میں پندرہ سال سے اس نوکری میں ہوں ۔ یقین جانیئے کہ میرے خاندان اور ذاتی دوستوں کے علاوہ آپ پہلے لوگ ہیں جو مجھے عید ملنے آئے ہیں ورنہ عام طور پر مجھے اور میرے ہم پیشہ لوگوں کو ''تھانہ کلچر'' کی روائت کے پیش نظر ایک نا پسندیدہ شخص ہی سمجھا جاتا ہے''
ایک زمانہ تھا کہ عید کے موقعے پر طرح طرح کے عید کارڈ بڑی پابندی سے احباب کو بھیجے جاتے تھے۔ پھر اس میں تجارتی کمپنیاں بھی شامل ہوگئیں ۔ سو بعض اوقات سیکڑوں کے حساب سے عید کارڈ موصول ہوا کرتے تھے جن میںقرآنی آیات، قدرتی مناظر، خوب صورت کیلیگرافی سے لے کر گھٹیا اور بازاری قسم کے فلمی اداکارائوں کی تصویروں والے عید کارڈ سب شامل ہوتے تھے لیکن بہت سی دیگر روائتوں کی طرح جدید ٹیکنالوجی نے اس روائت کو بھی نگلنا شروع کر دیا اور اب یہ حال ہے کہ عید کے 90% پیغامات SMS اور ای میل کا رزق بن گئے ہیں اور اندیشہ ہے کہ آیندہ چند برس تک عید کارڈوں کا ذکر صرف پرانی کہانیوں اور بزرگوں کی یادوں تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔
اس بحث میں پڑنے سے کوئی فائدہ نہیں کہ یہ صحیح ہوا یا غلط کہ بقول شاعر ''چلو کہ قبروں پہ خون رونے سے اپنی آنکھیں ہی پھوٹتی ہیں'' لیکن اس صورتِ حال کا ایک پہلو ضرور ایسا ہے کہ جس کا ماتم و اجب بھی اور ضروری بھی اور وہ یہ کہ اب عید ملنے کے عمل سے بھی وہ گرمجوشی ، مساوات ، رواداری اور باہمی بے لوث محبت کم ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ دن دینی کے ساتھ ساتھ ایک معاشرتی تہوار بھی بن چکا تھا۔ برادرم امر جلیل نے کافی عرصہ قبل''محمود ایاز'' کے عنوان سے ایک بے مثال افسانہ لکھا تھا جس میں اس المیئے کو انتہائی مہارت اور طنزیہ دردمندی کے ساتھ بیان کیا گیا تھا جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ایک مسجد میں عید کی نماز ہورہی ہے ۔
پولیس کے عملے نے پہلی صف میں کچھ لوگ بٹھا رکھے ہیں تاکہ جب ڈپٹی کمشنر صاحب تشریف لائیں (ظاہر ہے ڈپٹی کمشنر صاحب عام عوام سے پہلے تو آنے سے رہے) تو ان کے لیے جگہ مخصوص ہو، سو ایسا ہی ہوا اور ڈپٹی کمشنر صاحب کے گرد جن کا اسمِ گرامی محمود تھا یہ لوگ ایک بے نام حفاظتی حِصار سا بنا کر بیٹھ گئے تاکہ نماز کے دوران اور اس کے بعد شرفاء اور عمائدینِ شہر کے علاوہ کوئی ایرا غیرا ان سے عید ملنے کے بہانے معانقہ نہ کرسکے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک پچھلی صفوں سے ایک پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ، صورت سے غریب نظر آنے والے شخص نے آگے بڑھنے کی کوشش شروع کردی اور محافظوں کے روکنے کے باوجود اپنی اس قبیح حرکت اور کوشش سے باز نہ آیا ۔ سیکیورٹی انچارج کے خفیہ اشارے پر عملہ اسے زبردستی گھسیٹ کر باہر لے گیا ۔ ایک انسپکٹر نے کڑک کر پوچھا کہ تم کون ہو اورتمہارا نام کیا ہے؟ جس پر اس نے جواب دیا کہ میرا نام ایاز ہے اور میں محمود صاحب سے عید ملنا چاہتا ہوں''
یہ کہانی کسی وضاحت یا تشریح کی محتاج نہیں کہ یہ ان روایات اور اقدار کا ایک نوحہ ہے جو ہمارے درمیان سے اٹھتی جارہی ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہ بالکل ہی اُٹھ گئی ہوں یا ان کی پاسداری کرنے والے لوگ اب کہیں موجود ہی نہ ہوں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تمام ترخرابیوں کے باوجود اب بھی ہمارے معاشرے میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو اِن اقدار کے ساتھ زندگی گزار نا چاہتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ یہ ''خاموش اکثریت'' بلند آواز میں بولنے اور شور مچانے والوں کے اُڑائے ہوئے گردو غبار میں گم رہتی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو عید کی خوشیوں کے راستوں میں طرح طرح کی خودساختہ رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو اس دن کی خوشی سے محروم رکھنے کے لیے نت نئی تاویلیں گھڑتے رہتے ہیں ۔ عید ہماری اجتماعی خوشیوں کا ایک روشن اور زندہ استعارہ ہے، آیئے سب کچھ بُھول کر ایک دوسرے سے عید مِلیں اور سب ایک دوسرے کی بہتری اور ترقی کے لیے مل کر دعا مانگیں۔