آرٹیکل260سپریم کورٹ کی رائے آڑے آگئی رانا بھگوان داس نے چیئر مین نیب بننے سے معذرت کرلی

حکومت اور اپوزیشن لیڈر رانا بھگوان داس کو چیئرمین نیب بنانے کے معاملے پر رضا مند ہو چکے تھے, ذرائع


Amir Ilyas Rana August 06, 2013
حکومت اور اپوزیشن لیڈر رانا بھگوان داس کو چیئرمین نیب بنانے کے معاملے پر رضا مند ہو چکے تھے, ذرائع۔ فوٹو فائل

جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کو چیئرمین نیب تعینات کرنے میں آئین ، سپریم کورٹ کی رائے اور قانونی حیثیت رکاوٹ ہے۔

جس پر بھگوان داس نے چیئرمین نیب بننے سے معذرت کر لی ہے۔ آرٹیکل 260 کے علاوہ سپریم کورٹ قانونی رائے دے چکی ہے کہ کسی شخصیت کی بنیاد پر قانون میں ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ ذمے دار ذرائع کے مطابق حکومت اور اپوزیشن لیڈر رانا بھگوان داس کو چیئرمین نیب بنانے کے معاملے پر رضا مند ہو چکے تھے ، کابینہ کے 25 جولائی کے اجلاس میں اس مقصد کیلیے سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کیلیے مسودہ بل ایجنڈے پر بھی موجود تھا تاہم آرٹیکل 260 اور بعد میں سپریم کورٹ کی رائے سامنے آنے کے بعد ایجنڈے سے یہ معاملہ موخر کر دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس جواد ایس خواجہ وفاقی محتسب سلمان فاروقی کی تقرری کیس میں رائے دے چکے ہیں کہ فرد واحد کیلیے قانون سازی نہیں کی جا سکتی، قواعد کے مطابق چیئرمین ایف پی ایس سی کے عہدے پر فائز رہنے والا اس کے بعد کوئی دوسری ملازمت نہیں کر سکتا۔ آرٹیکل 260 میں سروسز آف پاکستان میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین بھی آتا ہے، بھگوان داس کو تعینات کرنے کیلئے آئینی ترامیم بھی کرنا پڑ سکتی ہے۔



ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے جب بھگوان داس کا نام چیئرمین نیب کے عہدے کیلئے دیا تو حکومت نے رضا مندی ظاہر کی لیکن جب سپریم کورٹ کی طرف سے یہ رائے سامنے آئی کہ کسی شخصیت کیلئے قانون میں ترمیم کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا تو خود جسٹس (ر) بھگوان داس نے چیئرمین نیب کے عہدے پر فائز ہونے سے معذوری ظاہر کر دی۔ جسٹس (ر) بھگوان داس جو اب 71 سال کے ہو چکے ہیں اور ان کا معاشرے میں بہت عزت و احترام ہے۔

اس لیے انھوں نے خود کو متنازع بننے سے بچانے کیلیے اس عہدے پر آنے سے معذرت کی، وزیر اعظم نواز شریف کو جب یہ اطلاعات دی گئیں تو پھر انھوں نے 25 جولائی کو کابینہ کے اجلاس سے قبل ہی ترمیمی مسودہ ایجنڈے سے واپس لینے کی ہدایت کر دی تاہم وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے چیئرمین نیب کے عہدے پر مشاورت جاری رکھی ہوئی ہے اور جب تک کسی مناسب نام پر اتفاق نہیں ہو جاتا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اگر ضروری ہوا تو دونوں شخصیات کی ملاقات بھی ہو جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں