’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘
ارتقائے انسانی سے گزرتے ہوئے فلسفے نے اپنے سفر کے لیے تین راستوں کا انتخاب کیا۔ پہلا راستہ امر و نہی اور۔۔۔
ارتقائے انسانی سے گزرتے ہوئے فلسفے نے اپنے سفر کے لیے تین راستوں کا انتخاب کیا۔ پہلا راستہ امر و نہی اور اخلاق و عمل کی پرخار راہ سے گزرتا ہے۔ اور اس پہلے راستے پر دنیائے انسانی کی عظیم المرتبت شخصیات سفر کرنے کا شرف حاصل کرچکی ہیں۔ ان سب نے ذہنی پاکیزگی کو روحانی تربیت کا جزو حقیقی قرار دیا ہے۔
دوسرا راستہ فہم وخِرد کا ہے۔ جو عقل ودانش کی عظیم کِرنوں سے منور ہوتا ہے۔ وہ فہم جس سے کام لے کر کائنات کا ادراک ابتدائی حالتوں میں ممکن ہوا۔ اور وہ خِرد جس نے انسان پر خود شناسی کے کچھ در و دریچے وا کردیے اور یہ وہ راستہ ٹھہرا جس پر صرف پیدائشی فلاسفر سفرکرسکے۔ مغرب کے بیشتر فلاسفر اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
جب کہ تیسرا راستہ وہ خفیہ راستہ ہے جو روح سے مادّے تک اور عمل وتخیل کے بیچوں بیچ یعنی سنگم پر واقع ہے۔ اور اسی ر اہ پر سے گزرکرکائنات کی لامحدود اور لایَنْحَل وسعتوں کا شعوری احساس اور ذہنی ادراک ممکن ہوسکا۔ یہ تیسرا راستہ مشرق کے عارفین اور ہند کے ویدانتیوں کی گزرگاہ بھی ثابت ہوا ۔
فلسفے کا بنیادی اور اولین پہلو جس کا ذکر ہم ابتدائی سطور میں کرچکے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق اور بلند اعمال، پاکیزگی، دل و دماغ کے ذریعے سے بڑھتا ہوا آسمانی رفعتوں کی سمت پرواز کناں رہتا ہے۔ اور بالیقین مشرق و مغرب کے فلسفہ نظریات میں ایک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم ایک معلوم تاریخ کے حوالے سے مستند علم رکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب ، شمال و جنوب میں ہر قوم پر مبعوث ہونے پر مذہب کے پیغمبروں نے اپنی امت یا قوم کو جس پہلے پیغام سے روشناس کیا وہ نفس کُشی اور اخلاقی بلندی کا درس تھا جب کہ انھوں نے واشگاف الفاظ میں یہ بھی کہا کہ ذہن اور ذہن کے تابع جسم اگر عیش و عشرت میں مبتلا ہوگا تو تم پروردگار عالم کی بارگاہ تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ اگرچہ مغربی فلاسفرز نے اس نقطۂ نظر پر عمل پیرا ہونے کو تقدیر پرست تصورات کا تسلط اور غلبہ قرار دیا کیونکہ ان کی رائے میں اگر اس خیال کی اہمیت فزوں تر ہوتی چلی گئی تو دنیا رہنے اور جینے کے لیے ایک ناپائیدار مقام قرار پائے گی اور اس سے وابستہ تمام خوشیاں، دُکھ اور معاملات زندگی پر فانی ہونے کی مہر چسپاںہوجائے گی۔
لیکن اگر ہم مذاہبِ عالم کا جائزہ لیتے ہیں تو بالعموم تمام اور بالخصوص ''اسلام'' میں اسی ممکنہ وجہ کو لے کر ''جنت'' جو ابدی خوشیوں کی دائمی رہائشگاہ ہے کے تصور کو بہت واضح اور نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے ۔
اور جنت تک پہنچنے کا ذریعہ اولاً اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم اور ثانیاً وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک میں شرک نہ کرتے ہوئے اس ''کارزار'' سے بخیر و عافیت باہر نکل آئیں جس نے زندگی کا جامہ اوڑھ کر ان گنت حسین و خوبصورت چیزوں کی شکل میں انسانوں کے دل ودماغ کو ہر ساعت اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے۔ بلکہ بُری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔
گویا اس موڑ پر اگر صاف اور واضح الفاظ میں اظہار خیال کیا جائے تو فلسفے کے پہلے راستے نے انسان کے لیے موجودہ حالت پر قناعت کرنے کے بجائے اسے اگلی منزل اور ایک دائمی زندگی پر یقین کرنے کی تحریک دی ہے۔ اور وہ انسان کو مسلسل اس راستے یا منزل حقیقی کی سمت سفرِ حیات کو جاری رکھنے کے لیے اصرار کرتا ہے۔
اسلام کا نقطۂ نظر ہے کہ انسان کو زندگی اور اس سے جڑے سامانِ عیش وعشرت،آرزوؤں اور امنگوں کو ایک عارضی قیام گاہ سے زیادہ حیثیت نہیں دینی چاہیے۔ اگرچہ اسے کوشش یا تدبیر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اپنی روحانی حالت اورکیفیت کو مضبوطی کے ساتھ قائم رکھتے ہوئے پاکیزگی اور پرہیزگاری کو قائم رکھتے ہوئے اپنی ابدی قیام گاہ کو منزل قرار دینا چاہیے۔ اور انسان کی بہترین کوشش بھی اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کو بجالانے میں صرف کرنے کو بتایا گیا ہے۔
لہذا انسانی خواہشات... جسے ''شوپنہار''نے ''بھوکی خواہش'' (Angry Desire) کا نام دیا تھا۔ اور یہ کہہ کر ''خواہشات کے اس تندوتیز بہاؤ میں فلسفے کے پہلے راستے نے ہی بند باندھ کر اسے ایک سوسائٹی قائم کرنے اور اس کی بنیادوں کو مستحکم کرنے پر مجبور کردیا ہے۔'' کسی حد تک حقیقت سے قریب تر دکھائی دیتا ہے اور انسان نے فلسفے کے اسی پہلو کو لے کر اپنے درمیان اخلاق اور سماجی قدروں کی بنیاد رکھی اور بتدریج وہ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ ورنہ شاید انسانی تہذیب و تمدن کا عمل ارتقاء میں رک چکا ہوتا۔
لہذا عجم میں صوفی ازم کی ابتدا اور ہند میں یوگ اور بھگتی کی تحریکیں فلسفے کے اسی پہلو سے متاثر دکھائی دیتی ہیں۔ جب کہ مہاتما بدھ کے فلسفۂ حیات نے انسان کو زندگی کے روز مرّہ معاملات و فرائض سے منحرف کرنے سمیت زندگی کو ایک ایسی طویل سڑک پرگامزن ہونے کی ترغیبات دیں جس کے اختتام پر ''نروان'' کا دیا تو جل رہا ہوتا ہے لیکن آلام و مصائب کا انبار بھی اپنی جگہ پر موجود رہتا ہے۔ گوتم بدھ کے بقول ''اگر خواہش کو ختم کردیں تو اطمینانِ قلب اور ابدی چین حاصل کیا جاسکتا ہے۔'' اسلام کے نقطۂ نظر سے جزوی مماثلت رکھتا ہے۔ جب کہ اسلام کلی طور پر جائز خواہشات اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ بے شمار نعمتوں کے لیے کوشش کو لازمی قرار دیتا ہے۔ مزید برآں فہم اور دانش مندی کو اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں شمار کرتا ہے۔
فلسفے کے دوسرے پہلو کاجائزہ لیتے ہوئے مغرب کے فلاسفرز نے اعتراف کیا ہے کہ ہم ''فہم وخرد، عقل و دانش سے کام لے کر کائنات کے بہت سے اسرار دائرہ ادراک میں لاسکتے ہیں۔ نیز فلسفے کا یہ پہلو الفاظ کے ''اندر جال'' اور دلیل و ماورائے دلیل کے چُونے گارے سے ایک ایسا محل تعمیر کرتا ہے جو ہمارے ذہنی تناؤ میں آسودگی کا سبب بنتا ہے۔ مغربی فلاسفر کی اِس رائے سے قطع نظر محسوس ہوتا ہے کہ ایسی آسودگی شاید اس روحانی آسودگی کی رفعت کو نہیں پہنچ سکتی جو فلسفے کے تیسرے پہلو یعنی ''دل و دماغ'' کی مشترکہ کوششوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور جو خیالات اور احساسات کی ایک سطح سے یکلخت اور لاشعوری طور پر خیالات اور احساسات کو اس بلندترین سطح پر پہنچادیتی ہے جہاں انسان احساس بحرِ آسا سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔
لیکن ناقدین فلسفہ کی نظر میں فلسفے کا یہ تیسرا پہلو جو ویدانت اور معرفت کے ارفع تصورات کی اساس پر استوار ہے۔ اس اندازِ نظر کو فرار کی ایک ایسی شکل قرار دیتا ہے جو کسی عارف کی روحانی عظمت کا تنہا تماشائی ہے اور بدقسمتی سے وہ اِسے ایک ٹھوس حقیقت کی طرح دکھانے یا ثابت کرنے سے قاصر ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جدید دور میں کسی شے کے وجود کو ماننا اِس شرط سے مشروط ہے کہ وہ انسانی حسِّیات سے ثابت ہو۔ یا پھر سائنسی آلات و ایجادات اسے ثابت کرسکیں۔ لہٰذا اس پہلوئے فلسفے میں ایک عارف کے روحانی تجربے کو ایک افیونی کے خواب سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آگہی کو انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے بیکار بلکہ مضِر قرار دیا گیا ۔
لیکن ناقدین فلسفہ کی رائے اور نقطۂ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آسمان تلے اور زمین سے اوپر ایسے انگنت اور بے شمار مظاہرِ قدرت ابھی باقی ہیں جنھیں نہ تو ہمارے آنکھیں دیکھ سکی ہیں اور نہ کان سن سکے ہیں۔
جب کہ اُن کے وجود کا احساس ہمارے دل و دماغ کی بعض قوتیں خود کار انداز سے کرتی چلی آئی ہیں۔ ''کہیں کچھ ہے'' یا کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ لہٰذا عارفین کے معرفانہ تجربات بھی ہمارے دل و دماغ کی ان قوتوں کا کرشمہ ہوسکتے ہیں ۔ اور اِن تجربات کا لطف صرف وہی شخص بیان کرسکتا ہے جس نے ان منازل تک رسائی حاصل کی ہو۔
میں جانتا ہوں کہ فلسفے سے متعلق ایک عام سی لفظی نشست بھی ایک دقیق اور مشکل ترین موضوع ہے۔ اور اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ فلسفے کے موضوع کا احاطہ مجھ جیسا کم علم، عام اور عامیانہ شخص نہیں کرسکتا۔ بلاشبہ اس کے لیے علم سمیت ایک گہری نظر رکھنے والے بصیر (بصارت رکھنے والا) مفکر اور دانشور کی ضرورت ہوتی ہے لیکن عزیزان گرامی میں یہ درخواست اس کے باوجود بھی کروں گا کہ آپ اور ہم عام طور پر اپنی گفتگو میں فلسفے کا ذکر آتے ہی یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اب کوئی ایسی بات ہونے والی ہے جو ہماری سمجھ اور فہم سے بالاتر ہوگی۔
اور گویا کوئی ایسا موضوع چھڑ گیا ہے کہ محفل سے اٹھتے ہی بنے گی لیکن میری ناقص رائے میں اگر آپ زندگی اور اس سے جڑی حقیقتوں کا ادراک کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے گردو پیش موجود معلوم اور نامعلوم چیزوں کے اسرار جاننے کی کوشش رکھتے ہیں۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پیش منظر کا پسِ منظر کیا ہے۔ تصور کیا ہے تخیل کیا ہے۔ کیا شعور سے لاشعور اور بالآخر تحت الشعور میں جھانک لینا ممکن ہے اور اگر آپ انسانی ارتقاء، ابتداء اور انتہا کی سرگوشیاں سننے کا شوق رکھتے ہیں تو پھر آپ کے لیے یہ جاننا بھی لازم ہوگا کہ فلسفہ کیا ہے کیوں ہے۔ کیا یہ اشیاء میں قبل از وجود موجود تھا یا ہم نے اشیاء کو فلسفے کا مفہوم دینے کی کوشش کی ہے۔