پیپلز پارٹی میں اعتزاز احسن کا ’کم بیک‘
یہ ’’عدلیہ بحالی تحریک‘‘ کے چمکدار دنوں کی بات ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن کی مقبولیت بام ِ عروج پر تھی۔۔۔
یہ ''عدلیہ بحالی تحریک'' کے چمکدار دنوں کی بات ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن کی مقبولیت بام ِ عروج پر تھی۔ ایک روز زمان پارک لاہور، ان سے ملنے کے لیے گیا۔ تھوڑی دیر میں چائے آ گئی۔ اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ہو گئیں۔ میں نے کہا، ''چوہدری صاحب لوگ کہہ رہے ہیں، جلد یا بدیر، آپ مسلم لیگ ن میں شامل ہو جائیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اورکہا، ''نہیں، پیپلز پارٹی اور میرے درمیان کوئی فاصلہ نہیں، میں پیپلز پارٹی میں ہوں اور پیپلز پارٹی میں ہی رہوںگا، میں مسلم لیگ ن میں فٹ ہو سکتا ہوں، نہ مسلم لیگ ن مجھ میں فٹ ہو سکتی ہے۔''
پھر کہا، ''پیپلز پارٹی سے میرا اختلاف صرف ''عدلیہ بحالی تحریک'' تک محدود ہے، ایک بار جب یہ تحریک کامیاب ہو گئی، میں پیپلز پارٹی کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہوں گا، اور پیپلز پارٹی میں جو لوگ میرے خلاف یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں، ان کو سخت مایوسی ہو گی۔'' آج جب میں پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں، تو سوچتا ہوں کہ ''عدلیہ بحالی تحریک'' کا زمانہ، چوہدری اعتزازاحسن کے لیے بڑی آزمایش کا زمانہ تھا۔ اگر پیپلز پارٹی مخالف حلقوں میں ان کی مقبولیت برابر بڑھ رہی تھی، تو پیپلز پارٹی کے اندر ان کی مخالفت میں متواتر اضافہ ہو رہا تھا۔ چوہدری اعتزاز احسن کی آزمایش کا یہ دور 16 مارچ 2009 ء کو اختتام پذیر ہوا، جب آخر ِکار عدلیہ مکمل طور پر بحال ہو گئی۔
چوہدری اعتزازاحسن کو اب ایک اور آزمایش کا سامنا تھا۔ پیپلز پارٹی حکومت کی آزاد عدلیہ سے نبھ نہ سکی۔ جلد ہی کھلی چپقلش کی نوبت آ گئی۔ پیپلز پارٹی میں ان کا مخالف حلقہ، جو پہلے ہی ان پر ادھار کھائے بیٹھا تھا، پھر ان کے سر ہو گیا۔ الزام لگایا گیا کہ یہ چوہدری اعتزاز احسن ہیں، جنہوں نے ''عدلیہ بحالی تحریک'' کو کامیاب کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ آزمایش در آزمایش، مالی آزمایش تھی۔ چوہدری اعتزاز احسن ''عدلیہ بحالی تحریک'' کے واحد رہنما وکیل ہیں، جنہوں نے عدلیہ بحالی کے بعد کروڑوں روپے کے مقدمات صرف اس لیے لڑنے سے انکار کر دیا کہ اس صورت میں انھیں چیف جسٹس کے روبرو پیش ہونا پڑتا تھا۔ ان کے نزدیک، یہ ان کے لیے کسی طور مناسب نہیں، کیونکہ وہ چیف جسٹس کے وکیل رہ چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی اندرونی سیاست میں چوہدری اعتزاز احسن کا ''کم بیک '' اس وقت ہوا، جب وہ وزیرِاعظم یوسف رضاگیلانی کا توہین ِعدالت کا مقدمہ لڑنے پر رضامند ہو گئے۔ مقدمہ عدالت میں وہ بے شک ہار گئے، لیکن جس جانفشانی سے انھوں نے یہ مقدمہ لڑا، اس کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کے اندر ان کی پوزیشن کافی حد تک بحال ہو گئی۔
لیکن پیپلز پارٹی میں چوہدری اعتزاز احسن کی مقبولیت حقیقتاً بحال ہوئی ہے، موجودہ صدارتی الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران، جب انھوں نے پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار رضا ربانی کے کندھے سے کندھا ملا کے کنویسنگ شروع کی۔ بظاہر مسلم لیگ ن کے صدارتی امیدوار کا پلہ بھاری تھا، اور کوئی معجزہ ہی رضا ربانی کو جتوا سکتا تھا، لیکن چوہدری اعتزازاحسن نے اس قدر پر اعتماد انداز میں انتخابی مہم شروع کی کہ ایک بار تو ہلچل پیدا کر دی۔ مسلم لیگ ق اور اے این پی نے غیر مشروط طور پر رضاربانی کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ بلوچستان کی حکمران نیشنل پارٹی نے بھی رضا ربانی کی حمایت کا اشارہ دے دیا تھا، اور یہ معمولی بات نہیں تھی۔ ایم کیوایم کا ابتدائی ردِعمل بھی خوشگوار تھا۔ یہاں تک کہ جے یوآئی بھی تذبذب میں مبتلا ہو گئی۔
چوہدری اعتزاز احسن نے اپوزیشن پارٹیوں کو اس امر پر قائل کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ رضا ربانی کو مشترکہ امیدوار نامزد کر دیں۔ لیکن یہ کوششیں دھری کی دھری رہ گئیں، جب مسلم لیگ ن کی استدعا پرسپریم کورٹ نے الیکشن شیڈول تبدیل کر دیا۔ یہ قراردیا کہ صدارتی الیکشن کے لیے پولنگ اب 6 اگست کے بجائے 30 جولائی کو ہو گی۔ اس طرح صدارتی امیدوار کے لیے انتخابی مہم کا دورانیہ اچانک ایک ہفتہ کم ہو گیا۔ اطلاعات یہ ہیں، اس مرحلہ پر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ صدارتی الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی تمام صدارتی امیدواروں کو اعتماد میں لیے بغیرہر گز نہیں کی جا سکتی تھی۔ ہمارے پاس مشترکہ امیدوار لانے کے لیے وقت رہا ہے، نہ انتخابی مہم چلانے کے لیے، لہٰذا اب ایک ہی آپشن بچا ہے کہ ہم صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا دیں۔ اپوزیشن کے نقطۂ نظر سے یہ سراسر منطقی تجویز تھی۔
چنانچہ پیپلز پارٹی کی مجلس ِ عاملہ نے یہ تجویز منظور کر لی۔ مسلم لیگ ق، اے این پی، اور شیخ رشید احمد نے بھی پیپلز پارٹی کو حق بجانب قرار دے دیا۔ چوہدری اعتزاز احسن نے عمران خان سے رابطہ قائم کیا۔ ان کی رائے بھی یہی تھی، لیکن وجیہہ الدین احمد نے مان کر نہ دیا۔ لیکن یہ صرف وجیہہ الدین احمد کا معاملہ نہیں تھا، شاہ محمود قریشی کا خیال بھی یہی تھا۔ ایک رائے یہ تھی کہ اس مرحلہ پر الیکشن کا بائیکاٹ کرنے سے تحریک انصاف کو کم اور پیپلز پارٹی کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ ظاہراً یہ بات درست تھی۔ عمران خان نے صاد کیا اور یہ کہہ کے پیچھے ہٹ گئے کہ ''صدارتی الیکشن پر چوہدری اعتزاز احسن کا موقف بالکل درست ہے، ہم احتجاجاً صدارتی الیکشن لڑ رہے ہیں۔'' تاہم یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پیپلز پارٹی کی بائیکاٹ کی حکمت ِعملی سے اپوزیشن پارٹیوں میں پہلی بار ایک گونا ہم آہنگی نظر آئی ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن کو بجا طور پر اس کا کریڈٹ دیا جا سکتا ہے۔
چوہدری اعتزاز احسن گجرات کے چوہدری ہیں، لیکن چوہدری برادران کے برعکس، ان کی سیاست پیپلز پارٹی میں پلی، بڑھی اور جوان ہوئی ہے۔ ان کا شمار، پیپلز پارٹی کے ان چند چنیدہ رہ نماوں میں ہوتا ہے، جنھیں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد، اب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا بھی پھرپور اعتماد میسر ہے۔ 1975ء میں جب وہ پہلی بار رکن ِ اسمبلی منتخب ہوئے تو ان کو وزیر ِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر حلف لینے کے فوراً بعد پنجاب کا وزیر اطلاعات و نشریات مقررکر دیا گیا تھا۔ وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں وزیر ِداخلہ، اور دوسرے دور ِ حکومت میں وزیرِ قانون و انصاف مقرر کیے گئے۔ ''عدلیہ بحالی تحریک'' کے آخری مرحلہ پر آصف علی زرداری سے ان کا شدید اختلاف رہا، لیکن اس کے باوجود آصف علی زرداری نے ہمیشہ ان کو احترام دیا ہے۔
ایک بار تو بے نظیر بھٹو کی برسی پر صدارتی پروٹوکول کے برعکس، اپنے بعد خطاب کا موقع دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہء قتل ہو، یا بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف نوع بہ نوع مقدمات ہوں، چوہدری اعتزاز احسن نے پیپلز پارٹی کی قیادت کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ بدقسمتی سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی روایتی قیادت نے ان کو ہمیشہ رقیب سمجھا ہے۔چوہدری اعتزاز احسن کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ تحقیق کریں کہ 11 مئی کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بدترین شکست کی وجوہات کیا ہیں، اور یہ وجوہات کس طرح دور کی جا سکتی ہیں۔ چوہدری اعتزاز احسن معمر ہو چکے ہیں، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ نیا 9 دن، پرانا 100 دن، چوہدری اعتزاز احسن اب بھی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے تن ِ مردہ میں جان ڈال سکتے ہیں، ان کے اندر کا جنگجو یہ جنگ لڑنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔
لیکن 100 سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا آصف علی زرداری کو پیپلز پارٹی میں پنجاب کی مقبول قیادت کی ضرورت ہے بھی ہے یا نہیں۔