کلیاتِ مظہر
ارسلان احمد ارسل کا مرتبّ کردہ 1168 صفحات پر مشتمل ضخیم کلیاتِ مظہر، اس وقت میرے سامنے ہے چونکہ ۔۔۔
ارسلان احمد ارسل کا مرتبّ کردہ 1168 صفحات پر مشتمل ضخیم کلیاتِ مظہر، اس وقت میرے سامنے ہے چونکہ اس کلیات کا بیشتر حصہ حافظ مظہرالدین مظہر صاحب کے نعتیہ کلام سے متعلق ہے اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ رمضان المبارک کے اس آخری کالم میں اس کے بارے میں بات کی جائے کہ اگرچہ نعت ایک سدا بہار صنفِ سخن ہے مگر یہ موسم اس کے لیے سچ مچ کی بہار کا درجہ رکھتا ہے۔ بہت سے اہم نعت گو شعرا کی طرح حافظ مظہر بھی نعت کے کُوچے میں شاعری کی کچھ اور اصناف ( غزل، نظم، قصیدہ، رباعی) کی راہ سے داخل ہوئے لیکن حفیظ تائب مرحوم کی طرح جب ایک دفعہ یہ لگن ان کے رگ و پے میں اُتر گئی تو پھر مڑ کر انھوں نے کسی اور طرف نہیں دیکھا۔
کلیات کے آغاز میں اُن کی غزلوں کا مجموعہ ''نور و نار'' اور نظمیں ''حرب و ضرب'' اور '' ''شمشیر و سناں'' کے کتابی عنوانات کے تحت درج کر دی گئی ہیں جو اپنی جگہ پر اُن کی شخصیت، انداز فِکر اور رُوحِ عصر کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں لیکن جب ہم ان کی اقلیمِ نعت میں داخل ہوتے ہیں تو باقی سب کچھ (اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود) ایک بے نام سے غبار میں گُم ہو جاتا ہے اس کتاب کو کھولتے ہی سب سے پہلے جس نعتیہ شعر پر میر ی نظر پڑی وہ دل کو اپنی طرف کھینچنے کے ساتھ ساتھ شاعر کے عمومی مزاج کی نمائندگی بھی کرتا ہے کہ حافظ مظہر الدین مظہر کی نعت کا بنیادی وصف میرے نزدیک وہی ''کیفیت '' ہے جس میں ڈوب کر یہ شعر لکھا گیا ہے۔
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ
کون روتا ہے لپٹ کر درو دیوار کے ساتھ
ذرا رُک کر دیکھیے تو آپ کو اس کی فضا میں جناب عمرؓ کے اُس جملے کی گونج اور بازگشت صاف سنائی دے گی جو انھوں نے حجرِ اسود کے بارے میں کہا تھا۔ ایک اور بات جس کی طرف اس کلیات کے مرتب ارسلان احمد ارسل نے بھی اشارہ کیا ہے مدینۃ النبی کے لیے یثرب کی جگہ طیبہ یا بطحا کا استعمال ہے کہ یہ نادانستہ قسم کی بے احتیاطی بیشتر نعت گو شعراء کے ہاں پائی جاتی ہے البتہ چونکہ دونوں لفظ عروضی اعتبار سے ہم وزن ہیں اس لیے ان کو تبدیل کرنے میں کوئی دِقّت نہیں ہوتی اور اکثر شعرا نے یہ کام خود اپنے ہاتھوں سے کیا ہے جب کہ حافظ صاحب کے حوالے سے ان کے مرحوم صاحبزادے اویس مظہر کا یہ بیان بطور سند پیش کیا جا سکتا ہے جس کے گواہ خود ارسلان احمد ارسل ہیں کہ
''یہاں پر ایک بات کی وضاحت کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ اویس مظہر صاحب نے مجھے ایک تاکید کی تھی کہ حافظ صاحب نے اپنی نعتوں میں ''یثرب'' کا جہاں بھی استعمال کیا ہے وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں اس کو طیبہ یا بطحا سے تبدیل کرنا چاہتے تھے لہذا میں آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہوں کہ آپ کلیات میں یثرب کی جگہ بطحا یا طیبہ استعمال کر لیں۔''
حافظ مظہر الدین مظہر کی نعت گوئی کے کئی اہم گوشوں پر اہلِ فکر و نظر اور اس صنف کے ماہرین نے روشنی ڈالی ہے جن میں ماہر القادری، عبدالعزیز خالد، احمد ندیم قاسمی ، حفیظ تائب، محشر رسول نگری، نعیم صدیقی، حافظ لدھیانوی، سید نصیر الدین نصیر، امین راحت چغتائی، راجا رشید محمود، ریاض حسین چوہدری اور نعت خواں سید زبیب مسعود جیسے اہم نام شامل ہیں مگر وہ جو کہتے ہیں کہ مُشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطّار بگوید'' تو آیئے اس کی جھلک حافظ مظہر صاحب کے ان چند اشعار میں دیکھتے ہیں جو بغیر کسی خصوصی کاوش کے منتخب کیے گئے ہیں
بے وضو عشق کے مذہب میں عبادت ہے حرام
خوب رو لیتا ہوں خواجہؐ کی ثناء سے پہلے
میری آہوں کو مدینے سے ملی ہے تاثیر
میری فریاد میں طیبہ سے اثر آیا ہے
درِ رسولؐ سے گر دُور مرگیا مظہرؔ
تو دفن ساتھ مدینے کی آزرو ہوگی
کرم نما ہے تری ذات یا رسولؐ اﷲ
ملے فقیر کو خیرات یا رسولؐ اﷲ
مروں تو خاکِ مدینہ میں جذب ہو جائیں
مرے وجود کے ذرّات یا رسولؐ اﷲ
سمجھ سکتی ہے عقلِ نا رسا کیا
کہ ہے نعتِ پیمبرؐ میں مزا کیا
ثنا خوانِ شہِؐ کون و مکاں ہیں
خدا کیا، انبیا کیا، اولیاؒ کیا
وہ نہ تھے جب تو بات کچھ بھی نہ تھی
محفلِ کائنات کچھ بھی نہ تھی
حشر کے دن تھا انؐ کا نور و ظہور
حشر میں اور بات کچھ بھی نہ تھی
جُز درود و سلام و یادِ رسولؐ
جو بھی گزری حیات، کچھ بھی نہ تھی
مری بساط ہے کیا! میرے درد و غم کتنے؟
علاجِ دردِ دو عالم ہے اک نگاہ رسولؐ
مزا تو جب ہے کہ طیبہ میں اس طرح پہنچوں
زباں پہ نعت ہو، چہرے پہ خاکِ راہ رسولؐ
نعت لکھتا ہوں کہ دل نور سے بھرجاتا ہے
یوں مرے کام بہت میرا ہُنر آتا ہے
دُعا یہ مانگتا ہے نغمہ گر مدینے کا
نصیب ہو مجھے یارب سفر مدینے کا
میری نظروں میں وہ امیر نہیں
جو مرے شاہؐ کا فقیر نہیں
عمر بھر سیّدؐ کونین کی مِدحت کی ہے
میں نے عقبیٰ کے لیے جمع یہ دولت کی ہے
حافط مظہر الدین مظہر مرحوم تو اس دولت سے دامن بھر کر زندہ بھی رہے اور اب اسی خزانے کے ساتھ محشر میں اپنے محبوب کی چشمِ کرم کے روبرو بھی ہوں گے لیکن یہاں تمام متعلقہ احباب اور بالخصوص ارسلان احمد ارسل کا شکریہ بھی واجب ہے کہ انھوں نے اس قدر محنت ، لگن اور سلیقے سے تحقیق اور ترتیب کے مدارج طے کرکے آنے والی نسلوں کے لیے اس با برکت کلام کو محفوظ کردیا ہے بلاشبہ جدید نعت کا ذکر اس کتاب کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔