اہم اقدامات کی ضرورت ہے
پاکستانی فوج نے اس نئی حکومت کو ایک پر امن ملک دیا ہے
یہ بات باعث اطمینان ہے کہ ایک سروے میں جوگیارہ سو افراد سے کیا گیا، اس میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو اکیاون فیصد لوگوں نے ان کی کارکردگی پر اظہار اطمینان کیا جب کہ49 فی صد لوگوں کا تعلق اندرون شہر سے ہے، ان میں بے چینی نظر آئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد عمران خان میں ملک کو آگے لے جانے کا جذبہ موجود ہے، عمران خان دنیا کے مقبول ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور عوام کو یقین ہے کہ ان کی قیادت میں کرپشن کا خاتمہ بھی ہوگا۔
ان کی مقبولیت اور پاکستان میں پاک فوج کی امن و عامہ کی کوشش اور اقدامات نے بیرون ملک پاکستان کا اعتماد بحال کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنی وزارتی ذمے داری بہترین انداز میں چلا رہے ہیں، ان کی پالیسی میں ملک و قوم کا وقار بڑا اہم ہے، ان کی وجہ سے بیرون ملک سے پاکستان کی امداد بڑھ رہی ہے، یہ مثبت اقدامات کا نتیجہ ہے، چین، سعودی عرب ،عرب امارات ،قطر ، ترکی، ملائیشیا سب نے پاکستان کی امداد کا وعدہ بھی کیا اور امداد آنی بھی شروع ہوگئی۔ پاکستان کے وزیر مالیات اسد عمر بھی اپنی وزارت کو بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں مگر میں حیران ہوں کہ وزیر اعظم کی معاشی و اقتصادی ٹیم جو گیارہ ماہرین پر مشتمل تھی اس میں سے چار شخصیات اس ٹیم سے علیحدہ ہوگئی ہیں ، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ وہ وقت ہے جس میں پاکستان کو سب سے پہلے اپنے قدموں پرکھڑا کرنا ہے یہ فرض ہر شہری ، ہر ماہر تعلیم وصحت، مالی امورکو پورا کرنا ہے۔ پاکستانی فوج نے اس نئی حکومت کو ایک پر امن ملک دیا ہے،دہشت گردی جو اجتماعی ہوتی تھی وہ تقریباًً ختم ہوگئی ہے ۔
شہرکراچی جو پاکستان کا معاشی اور تجارتی حب ہے وہ امن و آشتی کا گہوارہ ہے۔ اس شہر کوگزشتہ30 سالوں میں بڑی بے دردی سے لوٹا گیا، یہاں کے امن کو تباہ کیا گیا ، یہاں کے اداروںکو مفلوج کیا، زمینوں پر ناجائز قبضہ کیا گیا ، بھتہ خوری اور منی لانڈرنگ کو مافیا کے ذریعے پھیلایا گیا مگر اب الحمدللہ یہ شہر کافی پر امن ہے ۔ اس کا کریڈٹ سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ کو جاتا ہے، اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نئی قانون سازی کا ہے جو پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے مگر اب تک اپوزیشن کا عدم تعاون کا سلسلہ جاری ہے، یہ عدم تعاون صرف اور صرف اس لیے ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بد عنوانی اور کرپشن کے الزامات لگے ہیں جس کی تفتیش جاری ہے۔
ماضی میں بھی ایسے الزامات لگے ہیں جن کی تفتیش جاری ہے۔ مگر ماضی اور حال میں فرق یہ ہے کہ ماضی میں مصلحتاً ان الزامات اور مقدمات پر مک مکا ہوتا رہا، لیکن اس دفعہ موجودہ وزیراعظم عمران خان کسی طور پر مک مکا کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی انتخابی تحریک میں کرپشن کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا وعدہ ہے، سب سے بڑا انتخابی نعرہ تھا، اس لیے اپوزیشن متحد بھی ہوئی ہے اور انھوں نے پارلیمنٹ کو نہیں چلنے دینا ہے حالانکہ ہر اجلاس پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں،حکومت نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپوزیشن کے لیڈر میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بنا دیا اس سربراہی سے انھیں حکومت کو دبانے کا موقع مل گیا۔
پی پی پی نے میثاق جمہوریت میں یہ تجویز رکھی تھی جس میں پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں تھیں ماسوائے پی ٹی آئی کے۔ اس لیے پی ٹی آئی چاہتی تو اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیتی سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تو اپوزیشن کے لیڈر کو اے پی سی کا چئیرمین بنا دیا مگر جمہوریت کی دعویدار پی پی پی نے سندھ اسمبلی میں اس پر عمل نہیں کیا۔ موجودہ وفاقی حکومت اب بھی چاہے تو اے پی سی کے چئیر مین کو ہٹا سکتی ہے اور اسے میر ا مشورہ ہے کہ اگر یہ اے پی سی کا منصب چیئرمین اگر اپوزیشن کو دینا ضروری ہے تو کچھ رد وبدل کے ساتھ اسے قومی اسمبلی میں بل کے طور پر لے کر آئے اور اسے قانونی شکل دے لیکن اس میں یہ شرط واضح ہو کہ جس پر کرپشن کی تفتیش شروع ہوجائے تو دوران تفتیش اسے نہ اے پی سی کا ممبر بنایا جائے نہ ہی پروڈکشن آرڈر دیا جائے۔
پروڈکشن اس کے لیے ہو جو جیل کا قیدی ہو اور دوسرا سب سے اہم قدم جو موجودہ حکومت کو ہر حال میں اٹھانا چاہیے وہ یہ ہے کہ اب جب بیرونی امداد خاصے حجم کے ساتھ آرہی ہے تو عوام الناس کو ریلیف دینے کے لیے کم سے کم یوٹیلٹی، اناج، گوشت، سبزیاں، خوردنی تیل، شکر، آٹا، چاول کی قیمتوں کو30سے 40 فی صد کم کردیا جائے تاکہ اس بھاری قرضے میں عوام کو ریلیف مل جائے، یہی وہ قدم ہے جو وزیر اعظم عمران خان کو 51 فیصد کے بجائے 81فیصد تک اعتماد کا ووٹ تک پہنچا دیگا اور عوام کو اطمینان ہوگا کہ واقعی یہ حکومت عوام دوست ہے اور ساتھ ہی ساتھ جمہوری اصولوں، انسانی حقوق کی پاسداری کو آگے بڑھایا جائے،پاکستان کی ترقی کے لیے اس کے بڑے شہروں میں پولیس کا نظام بہتر کیا جائے اور خاص طور پر کراچی پر توجہ دی جائے ،یہاں کا انفرا اسٹرکچر بہت کیا جائے،پانی،گیس اور بجلی کی رسد کا سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا جائے میں تو یہاں تک مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وفاق اس شہر کراچی کو 20سال کے لیے اپنے ماتحت کرلے تاکہ یہ تجارتی شہر پاکستان کو اور زیادہ ریونیو دے سکے یا کم سے کم اس شہر کو میٹروپولیٹن سٹی قرار دے جیسا کہ لندن،ٹوکیو ہے کیونکہ شہر کراچی ایک منی پاکستان بن چکا ہے یہاں بندرگاہ بھی ہے اور ساحلی پٹی بھی ہے ،اگر یہاں ہوٹل، موٹل ، ایموزمنٹ پارک،کھیل کے میدان،تفریح گاہیں بنانے کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کو دعوت دی جائے اور انھیں صرف جگہ دی جائے اور انفرا اسٹرکچر بنا کر دیا جائے تو وہ کمپنیاں اس شہر میں بہت سرمایہ کاری کریں گی۔