چائے بڑھیا ہے

ہم سب سمیت دنیا بھرنے منہ کھولے دیکھا اور سنا کہ دنیا میں ایسے ملک بھی ہوتے ہیں جہاں نفرت کو مذہب کا درجہ دے دیا جائے۔


Arif Anis Malik March 04, 2019
[email protected]

'ہم یہاں بیکٹریا سے بھرے جرثوموں والے بم گرانے آئے تھے۔ ان بموں کے علاوہ انتھراکس اور طاعون کے بم بھی شامل تھے۔ ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ بم سویلین آبادیوں پر گرانے ہیں تا کہ ان کی ہلاکت خیزی کو آزمایا جا سکے۔ یہ الفاظ امریکی کرنل فرینک شویبل کے تھے، جس کے جہاز کو 1952ء کی کورین وار کے دوران تباہ کر دیا گیا تھا اور اسے اس کے معاون سمیت زندہ پکڑ لیا گیا تھا۔

1953ء میں کرنل فرینک کورین میڈیا پر نمودار ہوا اور اس نے امریکی کیمیکل وارفئیر کی کہانیاں بیان کرنی شروع کیں تو امریکی شہ دماغ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ یہی نہیں، 7200 امریکی جنگی قیدیوں میں سے 5000 امریکی فوجیوں نے امریکی حکومت کو درخواست بھیجی کہ وہ انسانیت کے خلاف جاری اس جنگ کو ختم کرے۔ اس بات پر تو امریکا بھر میں تہلکہ مچ گیا جب 21 امریکی فوجیوں نے آزاد ہونے کے بعد امریکا واپس جانے سے انکار کردیا کیونکہ وہ مردم خور امریکی حکومت کے لیے مزید کام نہیں کرنا چاہتے تھے۔

انھی دنوں امریکی صحافی ایڈورڈ ہنٹر نے پہلی مرتبہ ماؤزے تنگ کی سرخ فوج کے بارے میں بات کرتے ہوئے برین واشنگ کی اصطلاح استعمال کی جو کہ چینی لفظ 'زی ناؤ' کا انگریزی میں لفظ بہ لفظ ترجمہ تھا جسے کا مطلب بنتا تھا 'دماغ کے بغیر'، یعنی کسی کے اشاروں پر ناچنے والا معمول بن جانا، جس کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھ میں ہوں۔

کمیونسٹ چینیوں، روسیوں اور شمالی کورین حکومتوں کی جانب سے برین واشنگ کے کامیاب استعمال کے بعد امریکی سی آئی اے نے 'ایم کے الٹرا' نامی بدنام پراجیکٹ کا آغاز کیا جس میں قانونی حدود سے ماورا ہو کر انسانی نفسیات کی توڑ پھوڑ کے نت نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ آج کی زبان میں جسے ففتھ جنریشن وارفئیر کہا جاتا ہے، اس کی بنیاد 1950ء کی دہائی میں پڑی جب سرد جنگ کے بیج بوئے جا رہے تھے اور اگلے پچاس برس میں مائنڈ کنٹرول اور ماس ہپناٹزم کے ان طریقوں کو بہت مہارت کے ساتھ استعمال کیا گیا اور رفتہ رفتہ ہالی ووڈ بھی سی آئی اے کے ان پراجیکٹس میں شامل ہو گیا جن کا مقصد پوری دنیا کے دلوں ہر امریکی ذہانت اور طرز زندگی کی دھاک بٹھانی تھی۔

1947ء میں پاکستان بھارت کے قیام کے فورا بعد ایسی ہی ذہنی جنگ کا آغاز ہوگیا تھا. تاہم جب پاکستانی شہ دماغ حکومتیں جوڑنے، توڑنے اور دیگر غیر آئینی اقدامات میں مصروف تھیں، بھارتی انٹیلیجنشیا پاکستان کی بنیادوں پر ضرب کاری لگانے میں مصروف تھی۔

ہم نے تو بچپن سے ایک ہی رونا سنا تھا۔ قائداعظم اپنے کھوٹے سکوں کے ہاتھ میں باگیں پکڑا کر جلد رخصت ہوگئے اور پنڈت نہرو نے بھارتی سیکولر جمہوریت کی بنیادیں سیمنٹ سے پکی کر دیں۔ پھر معلوم ہوا وہاں ادارے بہت مضبوط ہیں، تعلیم بہت ڈوہنگی ہے، مکھی پر مکھی نہیں ماری جاتی، پھر پتہ چلا، ہندوستانی ماروتی چلاتے ہیں، اور پھر اس سے اتر کر شاہراہ ترقی پر فراری میں فراٹے بھر رہے ہیں، دنیا بھر کی انفرمیشن ٹیکنالوجی کی جڑوں میں بیٹھ چکے ہیں اور جہاں بھر میں شائیننگ انڈیا کے نعرے گونج رہے ہیں، جہاں بھی گئے، جب پاکستان سے نکلے تو پاکستانیوں کو معذرت خواہ پایا، کچی پکی جمہوریت پر، پے درپے مارشل لاء حکومتوں پر، بھٹو کی پھانسی پر، کچی مٹی سے بنے اداروں پر، آرٹ اور آزادی کے فقدان پر، معاشرے میں شدت پسندی کے کینسر پر، بس لگتا تھا ہندوستان بازی لے گیا ہے۔ اور ہمیں جانے کتنی صدیاں لگیں گی۔ کوئی مقابلہ نہیں دور تک!!!

1990ء کی دہائی میں من موہن سنگھ نے جب فری اکانومی کی پالیسیوں کے زور پر بھارتی اکانومی کو ترقی کے موٹر وے پر ڈالا تو ہم لوگ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی ککڑ بھیڑی میں مصروف تھے۔ اکیسویں صدی طلوع ہوئی تو ہم اپنی نرسریوں میں پلے طالبان کا صفایا کر رہے تھے جس نے مزید دس سال لے لیے۔ ان دس برسوں میں پاکستان، دہشتستان کا روپ دھار گیا، کارگل وار، پارلیمنٹ اٹیک، بمبئی حملے سب ہمارے نصیب میں لکھے گئے۔ ہم مجاہدین کرائے پر پالنے والی مفلوک الحال ریاست کے طور پر مشہور ہوئے اور پتہ ہی نہ چلا کب ہندوستان دنیا بھر کے سامنے ایک دیو بن کر کھڑا ہوگیا۔

پھر اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ پلوامہ میں حملہ ہوا اور ہماری اور دنیا بھر کی اصل ہندوستان سے ملاقات ہوگئی۔ ایک ایسا ہندوستان جس میں ہندوؤں کے سب سے بڑے شدت پسند وزارت عظمیٰ پر براجمان ہیں۔ پورا ملک 400 کے قریب ٹی وی چینلز کے ہاتھوں یرغمال ہے جہاں پر منہ سے کف ٹپکاتے اینکر ماتمی میک اپ کیے بیٹھے، سر میں خاک ڈالے، کروڑوں لوگوں کو ایٹمی جنگ کا ایندھن بننے کے لیے ابھار رہے ہیں، جمہوری سوچ کی فاشسٹ سوچ کا غلبہ ہے۔

چیف جسٹس کاتجو کو ایک ٹاپ کی یونیورسٹی میں بولتے سنا کہ ہندوستان کی کوئی جگہ ایسی نہیں، جہاں چھوت چھات کا نظام رائج نہیں ہے۔ پلوامہ کے حملے کے بعد پتہ چلا کہ پورے ملک میں کشمیری طلباء کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے، آلہ آباد کا نام بدلا جا رہا ہے، صدا کار کیا، اداکار کیا، سنگیت کار کیا، سب نے ماتھے پر خون سے تلک لگا لیا ہے اور خون، خون کی ہزیانی پکار ہے۔

ہم سب سمیت دنیا بھر نے منہ کھولے دیکھا اور سنا کہ دنیا میں ایسے ملک بھی ہوتے ہیں جہاں نفرت کو مذہب کا درجہ دے دیا جائے۔ اتنے پڑھے لکھے، پنڈت، آرٹسٹ، فنکار، گیانی اور دھانسو ہندوستانیوں کے سامنے ہمیں ناکارہ، نکمے اور جگتیں، لطیفے بھیجنے والے پاکستانی بہت ہی پیارے لگے۔ بالی ووڈ کے مور کے پیر بہت ہی بدبو والے ہیں اور اس کے بھبکے دور تک گئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ہندوستان پر ایک صدی پہلے شروع کیا گیا جن سنگھی حملہ کامیاب ہو چکا ہے اور اب اگلے دو چار عشرے ہمیں اسی سوچ سے برسر پیکار رہنا ہو گا اور گھوڑوں پر زین کس کے رکھنی پڑے گی۔ ہم تو 1980ء کی دہائی میں شدت پسندی کو ریاستی پالیسی بنا کر اب اس اژدھے کے منہ سے نکلنے کے قریب ہیں مگر ہندوستان میں یہ پارٹی ابھی شروع ہوئی ہے۔

پلوامہ حملے کے بعد پاکستان نے پہلی مرتبہ بھارت کو اسی کی پچ پر کھیلنا شروع کیا ہے۔ اب امن کی آشا ہمارے پڑکوٹھے سے اڑ رہی ہے۔ اب ہم بھارتی پائلٹ کو پکڑ کر کند چھری سے ذبح نہیں کر رہے، بلکہ اس کی مرہم پٹی کر کے اسے واپس اپنے خاندان کے پاس بھیج رہے ہیں اور جب ونگ کمانڈر ابھی نندن پاکستانی قید میں مسکراتے ہوئے کہتا ہے کہ چائے بہت بڑھیا ہے اور پاکستانی فوج، بہترین پروفشنل آرمی ہے تو کروڑوں پاکستانیوں کو شاید معلوم ہی نہیں کہ انھوں نے کتنی بڑی جنگ، لڑے بغیر جیت لی ہے۔ ان لاکھوں ہندوستانی فوجیوں کا تصور کریں جو مورچوں میں بیٹھے ابھی نندن کو چائے پیتے اور پاکستانی فوج کی تعریفیں کرتے دیکھ رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ جنگ آدھی دماغ اور آدھی دل سے لڑی جاتی ہے اور فوجی اسلحے سے نہیں، مورال سے لڑتا ہے، یقین نہ ہو تو سوچ لیجیے کہ 1971ء میں کیا ہوا تھا۔

ہائے، یہ کم بخت دو قومی نظریہ بھی کیا ظالم شے ہے، جتنی بار بھی بحیرہ عرب میں ڈبکیاں دیں، ہر پانچ دس سال بعد کہیں گنگا، کہیں جمنا، کہیں راوی اور کہیں چناب سے نمودار ہو جاتا ہے۔ ادھر ڈوبے، ادھر نکلے۔ ایک دفعہ پھر تھینک یو جناح !!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔