خطے میں بڑھتا ہوا جنگی جنون

اس خطے میں جنگی جنون کی جھلک صرف پاک بھارت بارڈر پر ہی نظر نہیں آتی بلکہ تقریباً ایشیا اس لپیٹ میں ہے۔



یہ خطہ جو ماضی میں قدیم سندھ سے ہند و سندھ اور پھر اب انڈو پاک کی جدید شناخت کا حامل ہوچکا ہے ۔ اس میں آج بھی ایک چیز مشترکہ ہے کہ دونوں ہی ہمالیہ کی چھاتی سے نکلنے والی ندیوں کا پانی پیتے ہیں اور اُسی سے پیدا ہونیوالے اناج پر جیتے ہیں ۔ تو پھر آخر یہ نفرت کا زہر کہاں سے اور کیوں پھیل رہا ہے ۔ یہ سب مودی اور اس جیسے چند موقع پرستوں کا رچایا ہوا کھیل ہے جو بظاہر تو امن کی باتیں کرتے ہیں لیکن درپردہ جنگ کا گراؤنڈ سجانے میں لگے ہوتے ہیں ۔

ایک طرف خطے میںنئی معاشی و سیاسی صف بندیاں عروج پر ہیں ۔ایک طرف ایران ،روس ، ترکی اور چین میں ہم آہنگی اور کاروباری تعاون میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف چین پاکستان کے مابین اور افغانستان ، امریکا ، انڈیا اور برطانیہ کے مابین بھی ہم آہنگی بڑھ رہی ہے ۔ لیکن ساتھ ہی کشیدگیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ عالمی قوتیں اس خطے میں پاکستان کی جغرافیائی و ڈیموگرافیکل اورجیو پولیٹیکل پوزیشن کو نظر انداز نہیں کرسکتیں ۔افغانستان میں طالبان کے ساتھ پاورشیئر کے لیے رضامند امریکا سے ایشیا میں استحکام کی صورت میں چین کی پاکستان میں 60ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہضم نہیں ہورہی ۔ اس لیے پاکستان پر کثیر الجہتی دباؤ بڑھایا جارہا ہے ۔ اسی تناظر میں 41لاکھ اسکوائر کلومیٹر کی اراضی اور ڈیڑھ ارب کی آبادی کا حامل انڈو پاک خطہ عالمی سرمایہ دار اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کو کھٹکتا ہے۔

غور سے دیکھا جائے تو وسط ایشیا میں سپر پاورز کے مابین طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لیے عالمی طاقتوں باالخصوص امریکا نے اس خطے کے امن کو ہمیشہ داؤ پر لگایا ہے ۔ ماضی میں پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے امریکی جنگ میں اپنی دھرتی کو استعمال کرنے کی اجازت کے نتیجے میں ملکی سرحدوں کے تقدس کو ڈرون حملوں سے پامال کیا گیا ۔ جس کی بنیاد پر دنیا میں پاکستان کا امیج خراب ہوا ۔ مغرب بالخصوص امریکا ایشیا کے استحکام سے خائف ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ کوئی نہ کوئی جنگی محاذ کھلا رکھنے کے لیے کام کرتا رہا ہے ۔ روس افغان جنگ سے شروع ہونے والا یہ سفرایران عراق جنگ ، عراق کویت جنگ ، شمالی و جنوبی کوریا کشیدگی ، سعودی یمن جنگ ، 9/11کے ڈرامے کی بناء پر افغانستان پر قبضہ ، کیمیائی ہتھیاروں کے ڈرامے کی بناء پر عراق پر قبضہ ، شام کی صورتحال اور 70سال سے انڈو پاک کے درمیان وقتاً فوقتاً جنگوں اور جھڑپوں کے پیچھے بالواسطہ یا بلاواسطہ یہی عالمی اسٹیبلشمنٹ کارفرما رہی ہے۔

پھر یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ جب افغانستان میں امن کا قیام اگر دنیا کے لیے ضروری ہے تو پھر پاکستان جیسے بڑے ایٹمی ملک کے امن کو داؤ پر لگانا دنیا کے لیے کیسے سود مند ثابت ہوسکتا ہے ۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ سامراجی قوتوں کی تو روش ہی دوسروں کی تباہی ہے لیکن نہ جانے کیوں ایشیا کے ممالک ان سازشوں کا جانتے بوجھتے حصہ بن کر اپنی اور خطے کی تباہی کے لیے ہر وقت تیار نظر آتے ہیں شاید اس کی وجہ ایشیا کا ہر ملک خطے میں طاقت بننا چاہتا ہے ، کوئی ایٹمی طاقت تو کوئی کثیر ملکی فوجی طاقت، لیکن کسی کو بھی ایشیا کی تاریخی ملنساری ، رواداری اور امن پسندی کی حامل اخلاقی و تہذیبی اقدار کی فکر نہیں جسے دنیا مشرقی روایات کے نام سے جانتی ہے ۔

حالیہ پاک بھارت کشیدگی بھی اکھنڈ بھارت کی خوش فہمیوں کی حامل ایسی ہی سوچ والی قوتوں کا نتیجہ ہے جو زمینی حقائق سے نظریں چراتے ہوئے اپنی رانگ نمبر والی عینک سے معاملات کو Dealکررہی ہیں ۔ دہشت گردی کے ایک واقعے کو بنیاد بناکر ہمسایہ ملک کی سرحدوں کے تقدس کو سبوتاژ کرنے کی ایسی بھونڈی اور بے سود حرکت مودی جیسی اخلاقی اقدار سے عاری ، جھوٹ پر قائم انسانی خون کی پیاسی سرکار ہی کرسکتی ہے ، جو کبھی کشمیر کی سڑکوں پر معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلتی ہے، تو کبھی گجرات میں زندہ انسانوں کو آگ میں لکڑیوں کی طرح جلا کر ہولو کاسٹ سے بھی بھیانک مظالم کے ابواب تحریر کرتی ہے ۔

انڈو پاک کی اس حالیہ کشیدگی کی جڑ پلوامہ واقعہ ہے ، جس کی ذمے داری جیش محمد تنظیم نے قبول کی ۔ حالانکہ واقعہ میں ملوث نوجوان بھارتی شہریت رکھتا ہے لیکن جیش محمد کا قائد مولانا مسعود اظہر چونکہ پاکستان میں ہے ، اس لیے بھارت پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرنے لگا اور بات در اندازی تک پہنچ گئی ۔ پاکستان کی جانب سے پلوامہ واقعے پر ثبوتوں کی بنیاد پر کارروائی کا عندیہ اور یقین دہانی کے بعد دراندازی کا یہ منطقی عذر ختم ہوجاتا ہے لیکن بھارت کی جانب سے دہشت گردکیمپ پر حملے کا جھوٹ بول کر پاکستان کی حدود میں کارروائی عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور پاکستانی سالمیت پر حملہ ہے، جوکہ بھارت کے غیر سنجیدہ رویے اور جنگی جنون کو واضح کرتا ہے ۔بھارت کو خوش فہمی تھی کہ دنیا اس کے موقف کی تائید کرتی ہے اور پاکستان دنیا میں تنہا رہ گیا ہے ۔

ملکی سالمیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن اُس کے باوجود پاکستان کی جانب سے موجودہ حالات میں ادا کیے گئے کردار نے یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا پاکستان کی اہمیت کو نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ اس کے ساتھ بھی ہے ۔ بھارتی در اندازی کے بعد پاکستان نے کمال تحمل مزاجی اور مثبت روی کا مظاہرہ کرکے نہ صرف دنیامیں اپنی سنجیدہ و ذمے دار ایٹمی ریاست کی شناخت کو تسلیم کروالیا ہے، بلکہ بھارتی جنگی قیدی پائلٹ ابھے نندن کی آزادی سے بھارتی جنگی جنون کو ایک تازہ شکست بھی دی ہے ۔ لیکن بھارت جنگی جنون میں اس قدر مبتلا ہوچکا ہے کہ وہ اس آگ کو بھڑکانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے ۔ بھارت ایک طرف 70سال سے کشمیر میں ظلم و بربریت کے باب تحریر کررہا ہے تو دوسری طرف نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کا ڈھونگ رچا رہا ہے ۔ خطے میں جنگی جنون اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بغیرتحقیق و تصدیق جنگی پروپیگنڈہ کرنے والا میڈیا بھی جنگی جنون میں ڈوبا نظر آتا ہے ۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ پاک بھارت صورتحال مودی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے ، جس کا پس منظر کچھ یوں ہے ۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت عالمی سرمایہ داروں کے لیے گلوبل مارکیٹ کا اہم حصہ بن چکا ہے ۔ چونکہ مودی ان سرمایہ داروں کے فائدے میں ہے اس لیے وہ آئندہ انتخابات میں مودی کی کامیابی چاہتے ہیں لیکن مودی کی کثیر طرفی مخالفت کے باعث یہ ممکن نہیں لگ رہا ، اس لیے بھارت میں پاکستان دشمنی کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ، جسے پاکستان نے امن کے پیغام کے ساتھ ناکام بنادیا ہے ۔ ویسے بھی دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مودی سرکار جنگ کو بالی وڈ کی فلموں کی لڑائی سمجھتی ہے، جس میں بڑے ڈائیلاگ ، چھوٹی کارروائیاں اور مصنوعی تباہی دکھائی جاتی ہے ۔

اس خطے میں جنگی جنون کی جھلک صرف پاک بھارت بارڈر پر ہی نظر نہیں آتی بلکہ تقریباً ایشیا اس لپیٹ میں ہے۔ پاکستان ایران بارڈر پر بھی یہ جنگی جنون پھیلا ہوا ہے ۔ ایران کی سرزمین پر کچھ انتہا پسندوں و دہشت گردوں کی جانب سے دہشت گرد کارروائی کی بناء پر ایران کے ساتھ تمام گہرے دوستانہ تعلقات میں مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔پھر افغانستان کی تو کیا بات کریں وہ تو 40سال سے حالت ِ جنگ میں ہے ۔ دوسری طرف مصر اور ترکی کے درمیان بھی کشیدگی بڑھتی جارہی ہے ۔ سعودی عرب اور بھارتی جنگی جنون کے پیچھے اگر امریکی بلاک ہے توایران اور ترکی کے جنگی جنون کے پیچھے روس کھڑا نظر آتا ہے۔

پاکستان، بھارت ، ایران و مصر اور ترکی سمیت تمام ایشیائی ممالک کوسوچنا چاہیے کہ اُن کی آپسی چپقلشوں ، لڑائیوں اور جنگوں کی بناء پر کہیں عالمی اسٹبلشمنٹ ایشیا بالخصوص سینٹرل ایشیا میں اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوجائے اور 1990میںہونیوالی عراق کویت جنگ کی آڑ میں جس طرح عراق پر امریکا کو قبضے کا موقع ملا ، اسی طرح یہاں کسی فریق کی غلطی سے سام راجی قوتوں کا قبضہ نہ ہوجائے ۔پھر ایشیا کے تمام ممالک کو اس پر بھی سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ داعش ، بوکو حرام ، القاعدہ، طالبان اور جیش محمد وغیرہ جیسی تنظیمیں صرف ایشیا میں ہی کیوں پائی جاتی ہیں اور ایشیا میں ہی ان کا نیٹ ورک و کارروائیاں کیوں نظر آتی ہیں ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی قانون سازی یا معاہدہ ہونا چاہیے کہ دہشت گرد تنظیموں کو کسی بھی ملک میں کوئی مالی مدد یا پناہ نہ مل سکے گی اور نہ ہی کوئی ملک ان سے سفارتی و مذاکراتی روابط رکھے۔

جنگی جنون میں مبتلا افراد و ممالک شاید جنگی تباہ کاریوں کے نتائج بھول گئے ہیں ۔ وہ بھول گئے ہیں ہیرو شما اور ناگا ساکی کی وہ تباہی جس کے تحت وہاں آج بھی نہ زمینیں فصل پیدا کرپارہی ہیں اور نہ مائیں نارمل بچے پیدا کرپارہی ہیں ۔

اس لیے آئیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ساری دنیا کی خوشحالی والے پیغام 'عالم سبھ آباد کریں ''کے ساتھ ساتھ امن سے محبت اور جنگ سے نفرت کرنے والے ساحر لدھیانوی کی اس نظم کو دہرائیں:

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسل آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امن ِ عالم کا خون ہے آخر

اس لیے اے شریف انسانو !

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آ پ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں