آغا سراج درانی کے بعد اب کس کی گرفتاری چہ میگوئیاں شروع

کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سندھ کی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے۔


G M Jamali February 27, 2019
کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سندھ کی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ فوٹو: آن لائن

اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی قومی احتساب بیورو (نیب) کے ہاتھوں اسلام آباد میں ہونے والی گرفتاری کے بعد سندھ کی سیاست غیر یقینی کا شکار ہوگئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت ممکنہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی تیار کر رہی ہیں۔ اب تو سندھ میں ایک ہی سوال کیا جا رہا ہے کہ آغا سراج درانی کے بعد کس کی باری ہے اور سندھ حکومت کا مستقبل کیا ہے؟

گزشتہ بدھ یعنی 20 فروری 2019ء کو آغا سراج درانی کو اسلام آباد میں نیب کی ٹیم نے گرفتار کر لیا ۔ یہ گرفتاری نیب کراچی کی ٹیم نے کی اور اس کی معاونت نیب راولپنڈی نے کی ۔ اسی دن آغا سراج درانی کا راہداری ریمانڈ حاصل کیا گیا اور انہیں کراچی منتقل کردیا گیا تاکہ انہیں اگلے روز نیب کی عدالت میں پیش کیا جا سکے لیکن اسی دن ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، جس نے نہ صرف نیب کارروائیوں کے بارے میں سوالات پیدا کر دیئے بلکہ پیپلز پارٹی کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ اس گرفتاری پر معاملے کو سیاسی رنگ دے سکے اور نیب کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کرے ۔

نیب کی ایک ٹیم نے کراچی کے علاقے زمزمہ (ڈیفنس) میں آغا سراج درانی کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔ گھر پر صرف خواتین اور بچے تھے۔ نیب کی ٹیم نے تقریباً سات گھنٹے تک گھر میں تلاشی لی۔ اس دوران گھر کے باہر سندھ حکومت کے وزراء اور مشیروں کے ساتھ ساتھ ارکان سینیٹ، قومی اور صوبائی، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے احتجاجی دھرنا دیا۔ وہ نیب کی طرف سے خواتین اور بچوں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور حبس بے جا میں رکھنے پر احتجاج کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور سندھ کابینہ کے ارکان نے الزام عائد کیا کہ نیب کے مرد اہلکاروں نے خواتین کے ساتھ بدزبانی کی اور ناروا سلوک کیا ۔

دوسرے دن جب آغا سراج درانی کو نیب کی عدالت میں پیش کیا گیا تو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ ساتھ سندھ کابینہ کے ارکان نے عدالت پہنچ کر آغا سراج درانی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور نیب کے خلاف نعرے بازی کی ۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ سندھ اسمبلی بلڈنگ میں پریس کانفرنس کی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ سندھ کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی آغا سراج درانی کے اہل خانہ کو تحفظ نہیں دے سکے۔ انہوں نے نیب پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ نیب نے خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ آج بھی اس بات کے حامی ہیں کہ کرپشن کے تدارک کا معاملہ آئین کے مطابق صوبے کا اختیار ہے ۔ سندھ سے نیب کے اختیارات کے خاتمے اور سندھ احتساب کمیشن کے قیام کے بل آئین کے مطابق تھے، جن پر میڈیا میں بہت تنقید ہوئی ۔ عدالت نے بھی ان بلوں کو تسلیم نہیں کیا ۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر یہ بل واپس لے لیے گئے لیکن وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ نیب کی کارروائی کا نوٹس لے ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ نیب قوانین میں تبدیلی کریں۔

سندھ حکومت نے آغا سراج درانی کی گرفتاری کے بعد جمعہ 22 فروری کو سندھ اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا۔ یہ اجلاس 27 فروری تک ملتوی ہوا تھا ۔ ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی ریحانہ لغاری نے پروڈکشن آرڈر کے ذریعہ نیب کو حکم دیا کہ وہ آغا سراج درانی کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے لے آئے۔ آغا سراج درانی کو نہ صرف سندھ اسمبلی لایا گیا بلکہ انہوں نے سندھ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت بھی کی ۔

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا شاید یہ پہلا واقعہ ہے کہ نیب کے قیدی اسپیکر نے اسمبلی اجلاس کی صدارت کی ۔ آغا سراج درانی نے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں نہ صرف اپنے اہل خانہ کے ساتھ نیب ٹیم کے سلوک پر جذباتی ردعمل کا اظہار کیا بلکہ وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرائیں ۔ سندھ اسمبلی نے کثرت رائے سے آغا سراج درانی کے گھر پر نیب کے چھاپے کے خلاف قرارداد مذمت بھی منظور کی اور اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔ قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلز پارٹی کے ارکان نے نیب پر زبردست تنقید کی ۔

اجلاس کے بعد سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سندھ اسمبلی بلڈنگ آ کر آغا سراج درانی سے ملاقات کی ۔ وہ کافی دیر تک وہاں رہے اور آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں ہدایات دیں ۔ آصف علی زرداری کا اسمبلی میں آنا اور ان کی آغا سراج درانی سے ملاقات ایک غیر متوقع واقعہ تھا ۔ اس کا مطلب یہ کہ پیپلز پارٹی آغا سراج درانی کے ساتھ کھڑی ہے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ کے مختلف شہروں بشمول کراچی، حیدرآباد میں آغا سراج درانی اور ان کے گھر پر چھاپے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ۔ اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری پر پیپلز پارٹی کی قیادت کے اس شدید ردعمل سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ حالات بہت غیر معمولی ہیں۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سندھ کی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں