’بھاری جہیز‘ سسرال میں لڑکی کی خوشیوں کا ضامن ہو سکتا ہے

جہیز کے پسِ پردہ عام تصور یہی ہے کہ جتنا بھاری جہیز دیا جائے گا بیٹی کی سسرال میں اتنی ہی عزت ہو گی۔


سائرہ فاروق February 26, 2019
جہیز کے پسِ پردہ عام تصور یہی ہے کہ جتنا بھاری جہیز دیا جائے گا بیٹی کی سسرال میں اتنی ہی عزت ہو گی۔فوٹو: فائل

ہمارے سماج میں جہیز کا معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے۔

جہیز کے پسِ پردہ عام تصور یہی ہے کہ جتنا بھاری جہیز دیا جائے گا بیٹی کی سسرال میں اتنی ہی عزت ہو گی اور اسے اہمیت دی جائے گی۔ اسے کسی قسم کا طعنہ یا باتیں نہیں سننا پڑیں گی۔ اس ملک میں جہاں اکثریت مڈل کلاس اور غریب ہے، یہ تصور کئی گھرانوں کو بہت منہگا پڑتا ہے۔ باپ تفکرات اور ماں خدشات کا شکار ہو جاتی ہے۔ گھر میں خوشی کے شادیانے تو بجتے ہیں، مگر اس کے پیچھے والدین کو اپنی بے بسی، مجبوری، تفکر، واہموں، اندیشوں کے علاوہ اکثر قرض خواہ کی آمد کا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے۔

برصغیر پاک و ہند کے بسنے والے شادی بیاہ کے موقع پر منہدی، مایوں اور اس جیسی دیگر رسموں میں بھی گرفتار رہے ہیں جو زیادہ تر لڑکی کے والدین کو مالی طور پر زیر بار کر دیتی ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے۔

اسلام میں لڑکیوں کے لیے وراثت میں حصہ طے ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ شریعت نے جس کا حکم دیا ہم اس سے روگردانی کرتے ہیں اور جس بات کا حکم ہمیں اسلام نے نہیں دیا ہم سماج سے متاثر ہو کر یا دوسروں کی دیکھا دیکھی اس پر عمل کررہے ہیں اور اس پر بحث کرنے اور اس کی خرابیوں پر غور کرنے کو تیار نہیں۔ بھاری جہیز دینے کی روایت نہ صرف ہماری مستقل ذہنی پریشانی بن گئی ہے بلکہ یہ ایک ایسی ریس ہے جس میں اکثریت پورا زور لگانے کے باوجود پیچھے ہی رہ جاتی ہے اور ذہنی و جسمانی تھکن اس کا مقدر بنتی ہے۔

اسلام میں نکاح کی حیثیت ایک معاہدے کی ہے جس میں دو فریق مساوی حقوق کے مالک ہوتے ہیں، نکاح کا مطلب یہ نہیں کہ بیوی مرد کی غلام بن گئی یا مرد آقا بن کر جو چاہے کرتا پھرے بلکہ یہ خوب صورت رشتہ ایک دوسرے کی ذمہ داری اٹھانے، مشکل وقت میں ساتھ نبھانے اور نامساعد حالات میں بھی اپنی خاندانی بقا کے لیے جڑے رہنے کا نام ہے۔ لہذا جہیز کے مطالبہ کی کوئی بھی صورت ہو دراصل ایک قسم کی لالچ اور رشوت ہی کہلائے گی۔

لالچ اور مفاد کے تحت اگر کوئی بھی تعلق استوار کیا جائے تو سوچیے کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ اس میں خیر و برکت اور مضبوطی کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ لالچ کی بنیاد پر قائم ایسے کسی بھی تعلق کو ہوس، خود غرضی اور نفاق جیسے وائرس جلد لاغر اور بوڑھا کر دیتے ہیں اور وہ جلد تمام ہو جاتے ہیں۔

شادی پر بھاری اخراجات، بے جا رسومات اور تحائف کے سلسلے نے جہاں اس پاکیزہ معاہدے اور خوب صورت تعلق کے آغاز کو مشکل تر بنا دیا ہے وہاں بیٹی جسے رحمت کہا گیا ہے، اسے جہیز کے نام سونے کے سیٹ، استعمال کی مختلف قیمتی اشیاء اور گاڑی کے تقاضے نے بابل کے لیے بوجھ بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیدائش کے وقت ہی سے بیٹی کے بوجھ تصور کیا جاتا ہے اور اس بوجھ کو اتارنے کے لیے طے شدہ سماجی ضابطوں کے تحت کوششیں شروع کردی جاتی ہیں۔

ہر وقت یہی خیال ستاتا ہے کہ کس طرح بیٹی کا فرض ادا ہو گا، کسی طرح خاندان اور برادری میں عزت رہ جائے۔ دن رات اس فکر میں گھلتا باپ اپنی زندگی اسی تناؤ میں گزار دیتا ہے۔ گویا بیٹی اور اس کو دیا جانے والا جہیز والدین کو سولی پر ٹانگے رکھتا ہے۔ غیر شرعی اور مالی طور پر زیر بار کرنے والی رسموں کے سامنے بے بس غریب باپ اپنی بیٹی کو بوجھ نہ سمجھے تو کیا کرے؟ بہ مشکل زندگی کی گاڑی کھینچنے والے باپ کے سامنے جہیز کے نام پر جائز، ناجائز مطالبات کسی فتنے سے کم نہیں اور اس کا راستہ روکنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔

حکومت کی جانب سے جہیز پر پابندی اور ون ڈش پارٹی کے لیے کی گئی کوششوں کا کیا بنا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے کہ جب شادی ہال کی انتظامیہ کی مدد سے پولیس کو رشوت دے کر قسم قسم کے کھانوں سے میزیں بھر دی جاتی ہیں اور جہیز کے نام پر بہت سی آسائشی اور آرائشی اشیاء بیٹی کے گھر پہنچا ہی دی جاتی ہیں۔ یقینا آپ اور ہم ہی ہیں جو خود کو بدلنا نہیں چاہتے۔ ہم لالچ اور خود غرضی کا شکار ہیں اور ہوسِ زر نے ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کر لیا ہے۔

عجیب سماج ہے ہمارا جہاں غیرت کے نام پر بہن بیٹیوں کی جان لے لی جاتی ہے، مگر بساط اور مالی حیثیت سے بڑھ کر جہیز دینے پر غیرت نہیں جاگتی، ہم اس موقع پر رسموں کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں اور انکار کی طاقت نہیں رہتی۔ ہم اتنے کم زور ہیں کہ ذرا سی بات پر، غیرت کے نام پر عورت کو، پورے خاندان کو قتل کر دینے والا کوئی مرد شادی سے پہلے لڑکی کے والدین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنی بیٹی کو صرف بنیادی ضروریات کی چیزیں دے کر میرے ساتھ رخصت کیجیے، ضروریات کا دوسرا سامان میں اپنی حیثیت کے مطابق وقت کے ساتھ خود خریدتا رہوں گا۔ افسوس یہاں تو رشتے طے ہوتے ہی ان مطالبات پر ہیں، جن کو پورا کرنے میں ایک باپ بال بال مقروض ہو جاتا ہے۔

سوچیے، جن تعلقات کی بنیاد لالچ پر استوار کی جائے ان سے کیا بعید ہے کہ وہ بار بار یہ مطالبہ نہیں کریں گے؟ جہیز کے لالچی بھاری جہیز لے کر بھی جب مطمئن نہیں ہوں گے تو کیا آپ ان کے مزید مطالبات بھی پورے کریں گے؟ کیوں کہ شادی کے بعد یہ 'ڈیمانڈ' بھی پکی نوعیت اختیار کر لیتی ہے اور سسرال سے جب کوئی 'ڈیمانڈ' لے کر بیٹی گھر آتی ہے تو اسے پورا کیے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں رہتا۔

ایسے مطالبات نظام فطرت کے خلاف اور تمدّن میں فساد برپا کرتے ہیں۔ نکاح کا مقصد دراصل دو خاندانوں کو ایک دوسرے کا حلیف و مددگار بنانا ہے اور ان کے وسیع تر مفاد کا حصول ہے۔ عائلی طور پر پریشان افراد معاشرے کا مفید رکن نہیں بن سکتے۔ رشتوں کی اسی پامالی اور خانہ جنگی نے پورے معاشرے کو بے چینی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیا ہے۔ جہیز جبر کی علامت کے طور پر پورے سماج کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔

ایسے گھرانوں میں جلدی طے پا جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ جہیز دے سکیں چاہے لڑکی کم رو ہی کیوں نہ ہو۔ جب زیورات،گاڑی اور جہیز کے نام پر دیگر آسائشوں کا نشہ اترتا ہے تو لڑکی میں کئی خامیاں، اس کی عام شکل و صورت پر باتیں بننے لگتی ہیں۔ تو یہ سمجھ لینا کہ جہیز بیٹی کی ڈھال ہے، ایک غلط سوچ ثابت ہوتی ہے۔ آپ کی اور آپ کی بیٹی کی ڈھال جہیز نہیں بلکہ سب سے پہلے تو تعلیم ہے جو آپ اسے خاندان کی روایات کے خلاف جاکر بھی اسے دلوائیں گے۔

سلیقہ شعاری، اخلاق و کردار، بردباری جیسے اوصاف اس کا حقیقی ہتھیار ہوں گے۔ وہ نہ صرف اپنے حسنِ عمل، سلیقے اور تعلیم سے شوہر اور سسرالیوں کا دل جیت سکتی ہے بلکہ ان کی کسی کم زوری اور خامی کو بھی دور کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس کا شعور اور فکر ایک خاندان کی زندگی بدل سکتا ہے۔

اپنی بیٹیوں کی شادی کی فکر ضرور کریں، مگر انہیں رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل مہارت کے شعبوں میں بھی آگے بڑھنے کا موقع دیں جو ان کے کام آسکتا ہے۔ اس طرح کسی وجہ سے شادی ٹوٹنے پر یا گھر سے نکالے جانے پر وہ آپ پر بوجھ نہیں بنیں گی۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم و تربیت کے ساتھ سَر اٹھا کر جینے کی ترغیب دیں اور نامساعد حالات سے لڑنے کے لیے بھی تیار کریں۔

یاد رکھیے کہ بھاری جہیز دینے کے لیے مقروض ہو جانے کے بعد اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ آپ کی بیٹی کا گھر مکمل طور پر محفوظ ہے اور اسے سسرالیوں سے کوئی خطرہ نہیں تو یہ غلط ہے۔ جہیز حقیقی معنوں میں آپ کی بیٹیوں کی خوشیوں کا ضامن نہیں! آپ یہ نہیں جانتے کہ جس گھر وہ جا رہی ہے وہ کیسا ہے، وہاں لوگوں کی ذہنی سطح کیا ہے۔ شادی کے معاملات طے کرنے کے موقع پر تو میٹھی میٹھی باتیں، اور اچھے خیالات کا اظہار ہی کیا جاتا ہے، مگر حقیقت بعد میں کھلتی ہے۔ یوں بھی جہیز کسی خزانے کی کنجی نہیں کہ جس کے بعد آپ کی بیٹی کو صرف راحت ہی ملے گی۔

سمجھ داری، فہم و فراست، رشتوں کو نبھانے کا شعور ایک لڑکی کا اصل خزانہ ہے جس کی سسرال میں قدم رکھتے ہی ضرورت پڑتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے بغیر ایک دن بھی سسرال میں گزارنا آسان نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنا ہو گی اور ہر اس بری رسم اور رواج کو مسترد کرنا ہو گا جو دو افراد ہی نہیں بلکہ خاندانوں کے بیچ دوریاں پیدا کرسکتے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں