کاغذ قلم اور دوات
انسانی ترقی پر اگر غور سے نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ انسان حالیہ درجہ شائستگی تک بتدریج پہنچا ہے ...
انسانی ترقی پر اگر غور سے نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ انسان حالیہ درجہ شائستگی تک بتدریج پہنچا ہے اور یہ کلیہ کسی شے سے مخصوص نہیں بلکہ اس قدر عام ہے کہ کوئی چیز نہیں جس پر یہ منطبق نہ ہو سکتا ہو۔ سب سے پہلی چیز جو انسانی ترقی کی بنیاد ثابت ہوئی وہ ''زبان'' ہے جس کی مدد سے اسے تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ لیکن زبان بھی بلحاظ اثر بہت مستقل اور پائیدار ثابت نہیں ہوئی۔ کیونکہ جو اثر زبان سے پیدا ہوتا ہے اس کی زیادہ سے زیادہ ترقی یہ تھی کہ صرف چند آدمیوں کے گروہ میں محدود رہتا یا علم سینہ کی کمک سے چند پشتوں تک قائم رہ سکتا تھا۔
لیکن جب علم بڑھنے لگا اور اس کے محفوظ رکھنے میں قوت حافظہ عاجز نظر آئی تو ضرورت نے کتاب کی ایجاد کی طرف متوجہ کیا۔ جس کی بدولت علم کی بنیاد اس قدر مضبوط ہو گئی کہ علماء کو زندگی جاوید نصیب ہوئی اور ہر شخص متقدمین اور نیز اپنے معاصر علمی تحقیقات کا وارث بن گیا۔ بہر حال زمانے نے خود ہی کتابت کی ضرورت محسوس کی لیکن کتابت کی ایجاد کے ساتھ ہی ایک اور چیز کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی، جس کے بغیر کتابت کا ہونا یا نہ ہونا یکساں تھا۔ اور وہ چیز تھی ''سامان کتابت'' جس طرح پانی اپنے لیے کسی نہ کسی طرح راستہ پیدا کر لیتا ہے اسی طرح جب ضرورت پیدا ہوتی ہے تو اس کے پورے ہونے کا بھی کوئی نہ کوئی ذریعہ ہاتھ آ ہی جاتا ہے۔
انسانی تاریخ کے جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے مختلف ادوار آگہی میں مختلف چیزوں پر لکھتا رہا ہے۔ مثلاً دیواروں پر، پتھروں پر، درختوں کی ٹہنیوں پر، لیکن اس طریقہ تحریر کا انتقال اس قدر آسان نہ تھا لہٰذا اس نے مٹی سے برتن نما چیزیں بنانی شروع کیں اور انھیں لکھنے کا ذریعہ بھی قرار دیا۔ لہٰذا سر زمین مصر سے آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران ایسے برتن بھی برآمد ہوئے ہیں جن پر غالباً کوئی حساب درج ہے اور کچھ پر مختلف دستاویز وغیرہ کنندہ ہیں اور ہزار ہا ایسی کتابیں اب بھی زیر زمین اور زیر خاک دبی ہوں گی جن کو قدامت پسند نگاہیں ہر وقت تلاش کرتی رہتی ہیں۔ اسی طرح قدیم اسیریا (سریانیا) کے باشندے کچی اور پکی اینٹوں پر تحریر لکھتے تھے۔ جو آج بھی مقدس تبرکات کی طرح وہاں سے نکل کر یورپ کے عجائب خانوں کی زینت بنتی ہیں اور جن کو بعد از وقت پڑھ کر مورخین یورپ نے اسیریا کی تاریخ مکمل کی ہے۔
کم و بیش چار ہزار سال قبل مصر کے قدیم شائستہ اور مہذب طبقات نے دوسری اشیاء کی طرف نظر دوڑائی اور ان کی طباعی نے ایک درخت کا انتخاب کیا جسے مصری زبان میں ''ہیبار'' اور یونانی زبان میں ''پپائرسس'' کہا جاتاہے۔ یہ درخت اگرچہ اب سر زمین مصر میں معدوم ہو گیا ہے لیکن ممالک نوبہ اور جشس میں آج بھی پایا جاتا ہے۔ اس کی جڑ ایک آدمی کی کلائی کے برابر موٹی اور سطح زمین سے تقریباً دس ہاتھ اوپر نکلی ہوئی ہوتی ہے۔ جس سے چھوٹی جڑیں پھوٹ کر زمین میں پیوست ہو جاتی ہیں، اس درخت کا تنا چار ہاتھ لمبا، مثلت نما اور مخروطی شکل کا ہوتا ہے۔ جب کہ بلندی پر باریک باریک پتے مورچھل کے طور پر لٹکتے نظر آتے ہیں۔ مصری باشندے اس کے پتوں کو ہار بنا کر دیوتائوں پر چڑھایا کرتے تھے۔ جب کہ باقی حصے کو وہ ''دوا'' یا ''غذا'' کے طور پر استعمال کرتے تھے اور اسی درخت کے تنے سے انھوں نے کلفے کا سامان بھی اپنے لیے فراہم کیا۔
یہ عہد عتیق کا مصری کاغذ اس طرح بنایا جاتا تھا کہ درخت کے تنے سے تیز چھریاں لے کر باریک سی چھال بشکل ورق اتارا کرتے تھے۔ اور ایک بڑا ورق بنا کر باقی اوراق تہہ در تہہ اس پر جماتے تھے اور بہت سی تہیں جما کر ایک بنڈل یا مٹھا بنا لیتے۔ پھر اسے دریائے نیل کے پانی میں غوطے دیتے اور خوب غوطے دینے کے بعد ایک شکنجے میں کس کر انھیں دھوپ میں سکھا ڈالتے۔ پھر خوب سوکھ چکنے کے بعد اسے موگریوں سے کوٹتے اور کھول کر ورق ورق علیحدہ کر لیتے اور ان پر ہاتھی دانت کی تختیوں یا بڑی کوڑیوں سے مہرہ کرتے اور کیونکہ یہ اوراق طوالت میں ہاتھ بھر سے زیادہ نہیں ہوتے تھے لہٰذا جس طرح بچے مختلف خطوں کو جوڑ جوڑ کر مکتوب بنا لیتے ہیں اس طرح وہ لوگ اس قسم کے بیس بیس اوراق کو ملا کر لکڑیوں پر لپیٹ دیتے اور مکتوب کی شکل دے ڈالتے تھے۔ ''یہی وہ کاغذ ہے جس کو عربی میں ''قرطاس'' کہا جاتا ہے جب کہ قرطاس کا لفظ یونانی زبان سے لے کر معرب کیا گیا ہے۔
مصر میں ایک بہت قدیم قبر سے ایک کتاب برآمد ہوئی ہے جو قرطاس پر تحریر کنندہ ہے اور یہ کتاب حضرت مسیحؑ سے دو ہزار سال قبل تحریر کی گئی تھی۔ گویا اس سے صفحہ ''قرطاس'' کی قدامت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر ہم یونانی زمانہ قدیم کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے تحریر کے لیے ''چمڑے'' کا انتخاب کیا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ کسی نے ''سقراط سے پوچھا کہ آپ کتاب کیوں نہیں لکھتے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں نہیں چاہتا اپنے خیالات کے لیے انسانوں کے زندہ دلوں کو چھوڑ کر بھیڑیوں کی مردہ کھال کا انتخاب کروں''
لیکن مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ پانچ سو سال قبل مسیحؑ یونان میں بھی ''قرطاس'' کا رواج عام طور پر ہو گیا تھا۔ اور جب یرمئی ثانی بادشاہ پرگیمس''Pergams'' تخت نشین ہوا اور اس کی علم پسندی نے مقام پرگیمس میں ایک عظیم الشان کتب خانے کی بنیاد ڈالی تو اس پر مصر کے بطلیموس کو جو سر پرستی علم میں شہرہ آفاق تھے رشک آیا اور انھوں نے قرطاس کی روانگی موقوف کرتے ہوئے اس کی تجارت یونان میں یک لخت بند کروا دی۔ یرمی نیز نے یہ دیکھ کر پھر قدیم طریقہ تحریر کو رائج کر دیا اور پھر سے چمڑے کی تیاری کا حکم جاری کر دیا اور اس بار اس کی تیاری میں ایسی تدبیر اختیار کی گئی کہ چمڑے کی دونوں اطراف میں لکھا جا سکے۔ جس کے بعد یونان اور روم دونوں ملکوں میں چمڑا اور قرطاس کا استعمال ہونے لگا لہٰذا چند ہی یوم کے بعد مصر سے قرطاس کے آنے کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا اور جب دولت روما کو عروج حاصل ہوا تو وہاں چمڑے کو لکھنے کے کام میں لانے کے لیے اس قدر خوبصورتی سے رنگا گیا کہ آج تک دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔
ہندوستان میں دور قدیم سے تاڑ کے پتوں پر لکھنے کا رواج تھا۔ ہندو قوم کے لوگ جب تاڑ کے پتوں پر لکھ چکتے تو تمام پتوں کے درمیان میں سوراخ کر کے سب کو ایک ڈوری میں پرو لیتے تھے۔ تا کہ وہ ایک کتاب کی شکل میں مرتب ہو جائیں۔ ان میں سے ہر پتہ 4 انگل چوڑا اور گز بھر لمبا ہوا کرتا تھا۔ لیکن جب یہ پتے خط و کتابت کی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا نہیں کر سکے تو توڑ کے درخت کی چھال کو جسے ''چتر بھوج'' کہتے ہیں کام میں لانے لگے۔ جب کہ اڑیسہ اور بنگال کی طرح بعض دیگر مقامات پر آج بھی لوگ لکھنے کے لیے تاڑ کے پتوں کو ہی استعمال کرتے ہیں۔
اگرچہ کاغذ، قلم اور دوات کے اس موضوع پر ایک طویل موضوعاتی مواد ہنوز میرے اس کالم میں لکھے جانے سے محروم رہا۔ لیکن اس موضوع کا انتخاب اور اس سے جڑی معلومات جو میں نے کئی ایک کتب سے حاصل کیں کا مقصد قارئین سے علم، آگہی اور شعور کی ابتداء کو شیئر کرنا تھا۔ علاوہ ازیں یہ مقصد بھی شامل حال رہا کہ موجودہ دور میں ہم تاریخ کو جاننے کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رکھتے ہیں لہٰذا اس امکان کے پیش نظر کہ شاید ہم جاننے کے بنیادی فرض کی اہمیت سے آگاہ ہو جائیں، میں نے ایک ادنیٰ سی کوشش کا اہتمام کرنا مناسب سمجھا۔