برطانوی مسلمانوں کو انتہا پسندی سے روکنے کیلئے تعلیم کے دروازے کھولے طحہٰ قریشی

ہمیں اپنے نوجوانوں کی حفاظت کرنی چاہیے؟چیئرمین فورم فار انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیولپمنٹ برطانیہ کی ایکسپریس فورم میں گفتگو


Express Forum Report August 24, 2012
ہمیں اپنے نوجوانوں کی حفاظت کرنی چاہیے؟چیئرمین فورم فار انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیولپمنٹ برطانیہ کی ایکسپریس فورم میں گفتگو. فوٹو ای پی اے

فورم فار انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیولپمنٹ برطانیہ کے چیئرمین طحہ قریشی نے کہاہے کہ21جولائی(7/7) کے لندن دھماکوں کے بارے میں برطانوی اداروں کو پیشگی مطلع کردیا تھا تاہم کوآرڈی نیشن کے فقدان کے باعث وہ دہشت گردی کو روک نہ پائے۔ مسلم نوجوانوںکوانتہاپسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے ہم نے ان پر تعلیم کے دروازے کھولے۔

گزشتہ روز''ایکسپریس فورم '' میں میزبان اجمل ستار ملک اورشاہد جاوید ڈسکوی سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں امن وامان کی صورتحال خراب ضرور ہے لیکن دنیاکاکون ساملک ایسا ہے جہاں مکمل طور پرامن قائم ہے؟۔ بدقسمتی سے ہمارے اپنے ہی لوگ باہر جا کر ملک اور قومی اداروںکے بارے میں برابھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں۔دہشت گردی مدرسے اور مولوی کامسئلہ نہیں،اس کاسلسلہ افغان جہاد سے شروع ہوتا ہے اور امریکی، پاکستانی، یورپی ادارے اور بعض حکومتیں اس میں ملوث ہیں۔

ہمیں اپنے نوجوانوںکی حفاظت کرنی چاہیے۔ طحہ قریشی نے کہاکہ 1998-99میںبرطانیہ میں مقیم پاکستانی نوجوان بالخصوص اورمسلم نوجوان بالعموم برطانیہ سے پاکستان اور یہاں سے افغانستان جاتے تھے ان بچوں کے والدین اس صورتحال پرشدید پریشان تھے، ہمیں بھی اندیشہ تھاکہ اگر یہ سلسلہ نہ رکاتو اس کے بہت بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلیے ہم نے برطانیہ کے علما اورپڑھے لکھے افرادکواپنے ساتھ ملایا اورنوجوانوںکومفت تعلیم دیناشروع کی تاکہ ہمارے نوجوان انتہاپسندوںکے بجائے ہمارے ساتھ انگیج ہو جائیں۔

ہم نے نوجوانوںکو نہ صرف غلط راستے کی طرف جانے سے روکابلکہ انھیں ایک صحیح راستے کی طرف لیکر گئے۔ ہم جیلوں میں قیدمسلم نوجوانوں کو پیرول پر رہا کرانے کے بعدان کی بحالی پر توجہ دیتے ہیں، انھیں تعلیم ، ہنرسکھاکر بہتر روزگارکے قابل بنایاجاتا ہے۔ انھوںنے کہا کہ جون میںفیوچرپاکستان کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں امریکا،برطانیہ سمیت دنیا بھر کے مصنفین کومدعو کیا گیا تھا، اس کانفرنس میں پروفیسراسٹیفن کوہن جیسی عالمی شخصیات نے شرکت کی، پاکستان کے بارے میںیہ پہلی کانفرنس تھی جس میںپاکستان پر تنقیدکرنے کے بجائے مسائل کے حل پر خصوصی توجہ دی گئی، اس کانفرنس میںہم نے بڑی کامیابی کے ساتھ دنیا بھر کے دانشوروںکے ساتھ یہ چیز باورکرادی ہے کہ مسائل صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دینا کے ہر ملک میں ہیں لیکن تنقیدکرنے کے بجائے مسائل کا بہتر حل تلاش کرنا چاہیے۔

پاکستان کووسائل کی کمی نہیں بہتر ویژن اوراہلیت کی ضرورت ہے،دنیا بدل چکی ہے اب ہمیں بھی اپنی پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لے کر حالات کے مطابق بدلنا ہوگا، ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کرناہوگا، ہمسایہ ملکوںکے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنا ہو ںگے۔ پاکستان اور بھارت 50سال جنگ نہ کرنے کامعاہدہ کریں اوردفاع پر ہونے والے اخراجات کوعوام کی فلاح و بہبود پرخرچ کریں۔ سیاستدان اور فوج مل کر ٹیکنوکریٹس کا ایک گروپ تشکیل دیں جو پاکستان کی ڈیولپمنٹ کیلیے آزادانہ طور پر کام کرے۔ اگر اب بھی صورتحال نہ بدلی تو پھر ملک خونی انقلاب کی جانب بڑھتا ہوا نظر آہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔