میرا اندازہ غلط تھا
تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ بھی اس محکمے میں کرپشن کو نہیں روک پائے گا
ISLAMABAD:
میں اعتراف کرتا ہوں کہ 18 اگست1988ء کو عمران خان کے بارے میں میرا اندازہ غلط تھا۔ ہوا یوں کہ اُس دن میں سڈنی میں تھا۔ میں پاکستان کے ٹریڈ کمشنر سے ملاقات کے لیے گیا جو میرے دوست تھے۔ میں یہ جانے بغیر انھیں سر پرائز دینا چاہتا تھا کہ خود میرے لیے یہاں ایک بڑا سرپرائز منتظر ہے۔ پاکستان ٹریڈ کمشنر کے دفتر میں پہنچنے کے بعد میں نے ریسیپشنسٹ سے اپنا مطلب بیان کیا ۔ اس خاتون نے پوچھا کہ کیا ملاقات کے لیے پیشگی وقت لے رکھا ہے؟میں نے انھیں بتایا کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ میرے دوست ہیںاور میں انھیں سرپرائز دینا چاہتا ہوں ۔ ریسیپشنسٹ نے کہا کہ مجھے انتظار کرنا ہو گا کیونکہ ابھی وہ ان کی مصروفیت میں مخل نہیں ہونا چاہتیں۔
میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا کہ ''وہ اے بی سی نیوز کو انٹرویو دے رہے ہیں'' اسی دوران انھوں نے مجھے تعزیتی کتاب میںاپنے تاثرات درج کرنے کے لیے کہا جو انتظار گاہ میں ایک میز پر رکھی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا یہ کتاب کس کی تعزیت کے لیے ہے؟ انھوں نے حیرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ '' یہ جنرل ضیا الحق اور اُن کی پوری ٹیم کی تعزیت کے لیے ہے جو بہاولپور میں طیارے کے ایک حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔''
میں نے سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ کیا وہ اپنی فوجی ٹیم کے ساتھ تھے یا دوسرے وزیر بھی ان کے ساتھ مارے گئے؟خاتون نے بتایا کہ وہ اپنی فوجی ٹیم کے ساتھ تھے جب کہ حادثے میں ان کے ساتھ امریکی سفیر اور ایک بریگیڈیئر جنرل بھی مارے گئے۔انھوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ جنرل اختر عبدالرحمان بھی جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں۔
میں نے تعزیتی کتاب میں کچھ لکھنے سے انکارکر دیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ ضیا الحق نے پاکستان کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔
چند منٹ بعد میرے دوست چوہدری ظہیر اے بی سی نیوز عملے کے ساتھ اپنے دفتر سے باہر آئے۔ علیک سلیک کے بعد ظہیر نے اے بی سی نیوز کے نمایندے کو کہاکہ ضیا الحق کی ہلاکت پر انھیں مجھے انٹرویو کرنا چاہیے کیونکہ میں پاکستانی صحافی ہوں۔
میں نے اے بی سی کے نمایندے سے کہا کہ سب سے پہلے تو مجھے اس واقعے کی تفصیلات چاہئیںکیونکہ طیارے کے حادثے کی خبر مجھے ابھی ملی ہے، اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے۔
میں نے کہا کہ اس کے علاوہ میں سفارت خانے میں انٹرویو دینا پسند نہیں کروں گاکیونکہ جو کچھ میں کہنے والا ہوں وہ اس مرحوم آمر کے بارے میں کچھ مثبت رائے نہیں ہے۔ اس رپورٹر نے مجھے اپنے دفتر آنے کی پیشکش کی اور کہا کہ وہ مجھے جنرل ضیا الحق کی موت کے بارے میں آنے والی خبریں دکھائے گا۔عمارت سے باہر نکلتے ہوئے لفٹ میں ہمارا سامنا ایک آسٹریلوی سے ہوا جس نے کہاکہ ''مجھے آپ کے صدرکے بارے میں سن کر افسوس ہوا ۔''
میں نے جواباً کہا '' مجھے افسوس نہیں ہوا، ان کا اس دنیا سے چلے جانا بہتر ہے۔''
یہ آسٹریلوی شخص لفٹ سے باہر نکلتے ہوئے ایک لمحے کو پلٹا اور کہا ''کیا عمران خان کے صدر پاکستان بننے کا کوئی امکان ہے۔''
خان کرکٹرکی حیثیت سے آسٹریلیا میں بہت مقبول تھے۔
میں نے جواب دیا کہ ''کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے'' کیونکہ اُس وقت تک عمران خان نے سیاست میں آنے کی طرف کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی۔ میرا یہ دو ٹوک جواب31 سال بعد غلط ثابت ہوا اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔
ضیاالحق کی موت کے بعد معاملات صحیح ہونا شروع ہوگئے اور کسی قسم کا خلفشار پیدا نہ ہوا۔ غلام اسحاق خان اس وقت سینیٹ کے چیئرمین تھے اور صدر کا عہدے خالی ہونے کے بعد آئین کی رو سے انھیں ہی یہ ذمے داری سنبھالنا تھی۔
آج مجھے حیرت ہوتی ہے کہ31 سال قبل اس آسٹریلوی شخص نے کیسی درست پیش گوئی کی تھی۔
عمران خان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ان پر اپنے وعدے پورے نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کی جا رہی ہے۔عمران خان کے لیے اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنا اور اُس وقت کی حکومت پر تنقید کرنا آسان تھا مگر یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ انھوں نے اور ان کی ٹیم نے ملک کو درپیش مسائل پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔
وہ اپنے ہی اس پروپیگنڈا کا ہدف بن گئے ہیں کہ ملک کی معاشی مشکلات کا علاج پاکستان کے سیاستدانوں اور کاروباری لوگوں کے غیر ملکی اثاثوں کو واپس لا کر کیا جائے گا۔ ابھی تک وہ پاکستان کے سفید کیے گئے دھن کو واپس لانے کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
پچھلے سال نومبر میں بیوروکریٹس نے انھیں یہ غلط معلومات دیں کہ انھوں نے26 ملکوں کے ساتھ ایک سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثوں کے بارے میں معلومات حکومت سے حکومت کی بنیاد پر شیئر کی جائیں گی۔
اصل میں عمران خان نے، جنھیں پاکستان کی معاشی مشکلات کا بہت کم ادراک ہے، جس بات کو نہیں سمجھا، وہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کے اکائونٹس کی نشاندہی کے بعد بھی بیرون ملک سے ان کی رقم کو واپس پاکستان لانے میں طویل وقت لگے گا۔رقم کو واپس لانے اور اس بات کا تعین کرنے میں کہ غیر ممالک میں یہ دھن سفید کیا گیا تھا،کئی سال لگ سکتے ہیں۔
عمران خان سسٹم کی اصلاح کی کوشش کر رہے ہیں اور انھوں نے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے ریونیو کو دگنا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
میں مشرف دور کے دو واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ایک آئل اینڈ گیس کانفرنس کے تقریباً 200 شرکا کے سامنے ،جہاں مشرف مہمان خصوصی تھے، میں نے یہ کہا تھا کہ اگرچہ وہ تیز رفتاری سے اصلاحات لانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ بریکوں پر بیوروکریسی کا بھاری پائوں ہے۔ اس لیے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ کر لیں گے تو ایسا نہیں ہے۔
مشرف نے یہ بات دلچسپی سے سنی اور کہا کہ وہ یہ کام کر کے رہیں گے کیونکہ ہم اہداف مقررکرتے ہیں اور پھر انھیں حاصل کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔
حد سے زیادہ فعال نیب کی وجہ سے جو بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، عمران خان بیوروکریسی کو فیصلے کرنے کی ترغیب دینے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں اور میڈیا کسی اسکینڈل میں ملوث افسروں کو سزا ملنے سے قبل ہی ہرکیس کو ایک بڑے اسکینڈل کے طور پر اچھالنے لگتا ہے۔
جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے ٹیکسیشن کے نظام کی اصلاح کے لیے عالمی بینک کے سابق نائب صدر شاہد حسین کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ اس کمیٹی کے دو ارکان نے مجھ سے پوچھا کہ اگر ٹیکس کلیکٹرز کی تنخواہوں میں کسی بہتر سطح تک اضافہ کردیا جائے تو کیا اس سے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں بدعنوانی پر قابو پایا جا سکے گا؟میں نے انھیں بتایا کہ اب تنخواہیں بڑھا کران کی اصلاح کرنا ممکن نہیں رہاکیونکہ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے بیوروکریٹس کی طرف سے جو رقم ہڑپ کی جاتی ہے وہ اتنی زیادہ ہے کہ تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ بھی اس محکمے میں کرپشن کو نہیں روک پائے گا۔
عمران خان نے پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے لیے ہر منطق سے انحراف کیا، ان کا طرز عمل اب بھی اپوزیشن لیڈر جیسا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے انھیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ آج کے پاکستان کو درپیش چیلنجوں پر کس طرح قابو پایا جائے۔ ان کے واضح بیانات ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے، اس لیے اپوزیشن انھیں یو ٹرن کا ماسٹر کہتی ہے۔