این ایف سی ایوارڈ ایک نیا محاذ

دنیا میں وفاقی طرز کے ممالک میں وفاق کی غیر جانبداری کو ہر حال میں قائم رکھا جاتا ہے۔



دنیا بھر کے ممالک میں اس وقت بہتر انسانی سہولیات ِ زندگی کے کام کے ساتھ ساتھ دیگر مخلوقات کے جدید تحفظاتی اقدامات کے لیے بھی کام ہورہا ہے لیکن ہمارے یہاں آج بھی انسانی بنیادی سہولیات ، قومی مساوات اور وسائل و حقوق کی فراہمی کا نظام حتیٰ کہ ایسی سوچ بھی نہیں ہے ۔ ملک میں ایک مخصوص طبقے و ٹولے کے مفادات کو ہی فوقیت دی جاتی رہی ہے ، یہ یاد رکھا جانا نہایت ضروری ہے کہ یہ ملک 4قوموں نے مساویانہ اور رضاکارانہ حق خودارادی کو استعمال کرتے ہوئے قائم کیا تھا ۔

یہ بات اس وقت اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ملک میں اس وقت 9ویں قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC) کے اجراء کی تیاری کا زور و شور ہے، جس کے لیے کمیشن کا پہلا اجلاس بھی ہوچکا ہے ۔ اس اجلاس میں مالیاتی ایوارڈکا حسب سابق بڑا جُز آبادی کی بنیاد ہی رکھنے ،وفاق اور صوبوں کے درمیان تقسیم کے حصے اور فاٹا کی مد میں کے پی کے کو مشترکہ پول سے حصہ دینے پر زور نظر آیاتو حکومت کے لیے کیا ضروری ہے ؟

اخراجات کے تخمینے اور وفاقی حکومت پر 30ارب کے قرضوں کی بھی بات ہوئی جب کہ صوبوں کی جانب سے FBRکی کارکردگی پر سخت تحفظات بھی سامنے آئے اور سندھ کی جانب سے ہر سال حصے سے کم رقم ملنے کی شکایت پُرزور نمونے سے رکھنے کے ساتھ ساتھ 18ویں ترمیم پر عملدرآمد کے لیے بھی آواز اٹھائی گئی۔ پھر سندھ و بلوچستان کی جانب سے نئے این ایف سی اجلاس میں آبادی کا تناسب کم کرنے اور آمدن و ٹیکس وصولی اور پس ماندگی کا تناسب بڑھانے کی آراء بھی سامنے آئی۔

اجلاس میں 6ورکنگ گروپس قائم کیے گئے ہیں جو مختلف اُمور پر کام کریں گے اور6ہفتے بعد ہونیوالے کمیشن کے دوسرے اجلاس میں یہ ورکنگ گروپ اپنی تجاویز ، پالیسی ، قانونسازی اور فارمولے پیش کریں گے ۔ یہ این ایف سی ایوارڈگذشتہ برس ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پر دیا جائے گا ۔ جس کے لیے لازمی ہے کہ مردم شماری کے حتمی نتائج جلد سے جلد فائنل ہونے چاہئیں ۔ ورنہ کہیں حسب سابق پرانے اعداد و شمار پر این ایف سی کا اعلان نہ کیا جائے۔ جس سے ایک مخصوص گروہ اور بڑے صوبے کو فائدہ پہنچے گا جب کہ این ایف سی ایوارڈ کے طریقہ کار پر بھی ہمیشہ سے وفاق اور صوبوں کے درمیان اور صوبوں کے مابین بھی کشیدگی و تنازعہ رہا ہے۔

این ایف سی ایوارڈ عام طور پر پانچ قسم کے ٹیکسز جیسے انکم ٹیکس ، سیلز ٹیکس، ویلتھ ٹیکس ، کیپیٹل گین ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ان پانچ میں سے چار اہم ٹیکسز انکم ٹیکس ، اشیاء پر سیلز ٹیکس ، کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائیز ڈیوٹی اب بھی مرکز کے پاس ہے ۔ جس کے لیے نئے این ایف سی ایوارڈ کے لیے ہونیوالے پہلے اجلاس میں سندھ کی جانب سے ان ٹیکسز کو صوبوں کو دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے ، جوکہ قیام پاکستان کے وقت بھی صوبائی جُز تھے۔

عرصہ دراز سے مقتدر قوتوں کی جانب سے ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کا شور برپا رکھا گیا ہے ،اُسے معاشی و سیاسی بحران اور ترقی میں رکاوٹ کا باعث بتایا جارہا ہے ۔ جب کہ قیام ِ پاکستان سے یہی طبقہ آئین پر عمل کرنے اور کروانے سے متعلق چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے بلکہ آئین کی خلاف ورزیاں اس کا معمول بنا ہوا ہے ۔دیکھا جائے تو ملک کے معاشی بحران کا ذمے دار وفاق ہے ۔ جس کے شواہد کچھ یوں ہیں کہ وفاق کا مجموعی بجٹ 52کھرب روپے ہے جب کہ وفاقی سرکار کی آمدن 30کھرب ہے ۔ 22کھرب روپے کا خسارہ ہے ۔ اس 30 کھرب میں سے 14کھرب دفاع اور دفاعی پینشن پر خرچ کرنے پڑتے ہیں اور 16کھرب قرضے اتارنے کے لیے دیے جاتے ہیں ۔ یعنی موجود 30 کھرب تو قرضے اتارنے اور دفاع پر خرچ ہوجاتے ہیں باقی تمام محکمے قرضے پر چلتے ہیں ۔

موٹی عقل کی بات ہے کہ اگر یہ اضافی محکمے ختم کیے جائیں تو دفاع کے بعد تو وفاق کے باقی تمام کام صرف 2ارب روپے سے بھی چلائے جاسکتے ہیں ۔ اور یوں نئے قرضوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور آہستہ آہستہ یہ قرضے بھی ختم ہوجائیں گے اور وفاق سرپلس بجٹ پیش کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا لیکن اس کے لیے مرکزیت پسندی کا جھوٹا چشمہ اتارنا ہوگا۔ پاکستان پر اگر مسابقانہ نظر ڈالی جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے کس وفاقی جمہوری ملک میں ہے کہ وفاقی حکومت آئین میں دیے گئے محکموں کے علاوہ خالص صوبائی محکمے بھی قائم کرے ؟ لیکن یہ مملکت ِ خداداد میں ہے کہ وفاق نے 4آئینی محکموں کے ساتھ ساتھ 34وزارتیں اور 43ڈویژنیں بھی قائم کی ہوئی ہیں ۔ جو آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔

ملکی و بین الاقوامی معاشی و قانونی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں نہ خسارہ ہے اور نہ ہی معاشی بحران۔ یہ تو محض وفاقی سرکار اور ان کی کارندہ مرکزیت پسند قوتوں کی جانب سے آئین سے بالاتر ہو کر غیر آئینی محکمے و ادارے قائم کرکے ملک کے عوام کو معاشی بحرانی جال میں جکڑا گیا ہے ۔ آئین میں محکماتی فہرست میں ترتیب یوں ہے کہ وفاقی محکمے، مشترکہ مفادات کونسل کے محکمے اور صوبوں کے محکمے ۔ لیکن وفاق نے اپنے پاس

(1) پانی و بجلی۔

(2) تیل، گیس و قدرتی وسائل ۔

(3) انرجی۔

(4) جہاز رانی ، پورٹس و شپنگ۔

( 5) بین الصوبائی اُمور۔

( 6) شماریات۔

(7) ریلویز۔

( 8) سمندری اُمورجیسے مشترکہ مفادات کونسل کے محکموں سمیت خالص صوبائی محکمے بھی اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جو کہ آئین سے ماورا اقدام اور ملکی معیشت کی تباہی کا باعث ہے ۔ دیکھا جائے تو ملک میں موجود اکثریتی مسائل وفاق کے انھی غیر آئینی اقدامات کی وجہ سے ہیں ۔ آئینی طور پر وفاق کے پاس

(1) دفاع۔

(2) اُمور ِ خارجہ۔

(3) کمیونی کیشن یا مواصلات اور۔

(4) کرنسی یعنی مالیات یا زیادہ سے زیادہ وزارت ِ قانون جیسے محکمے ہی ہونے چاہئیں اور لاہور کی قراردادمیں بھی وفاق کے پاس انھی چار محکمے رہنے کی بات کی گئی تھی ۔ مگر مرکزیت پسند قوتوں نے اپنے مخصوص مفادات کے باعث دیگر خالص صوبائی اُمور کو زبردستی وفاق کی تحویل میں رکھا ہوا ہے اور جہاں بس نہ چلے اُن اُمور کے لیے آئین کی تشریح اس انداز سے کی ہے کہ وہ اُمور وفاقی محکمے بن سکیں ۔ جس کے لیے وفاق اپنے ماتحت ادارے جیالاجیکل سروے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے توسط سے پہلے ہی وسائل و دیگر انتظامی و مالی اُمورسے متعلق معلومات کی بناء پر وہ آئین کی تشریح اپنے مفاد میں کرکے انتظامی اقدامات کرتا ہے ۔ جس کی مثالیں ایک تو گیس ہے جوکہ 1956 سے قبل موجود ملکی آئین میں صوبائی جُز تھی لیکن جیسے ہی سوئی بلوچستان سے گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تو گیس کو وفاقی جُز قرار دیا گیا ۔دوسری مثال قدرتی وسائل سے متعلق سندھ کی حدود میں گہرے سمندر میں تیل و گیس کے بڑے پیمانے پر موجود گیکی بنیاد پر نظر آتی ہے جس کے لیے 18ویں ترمیم کے وقت بھی دفاعی و تجارتی اُمور کے بہانے 200ناٹیکل میل کے بعد سمندری اختیارات صوبوں کے بجائے وفاق کے پاس ہی رہنے دیے گئے ۔ جس کے لیے اب وفاق کی جانب سے عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں Exxon Mobilاور ENI سے ان قدرتی ذخائر کی تلاش کا معاہدہ کیاگیا ہے ۔ اس لیے صوبوں بالخصوص سندھ کو اب 18ویں ترمیم سے بھی آگے جاکر وسائل پر مکمل اختیارات کے ساتھ ساتھ مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کرتے ہوئے نفاذ ِ آئین کے وقت کیے گئے کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کے وعدے پر عمل کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے ۔ ویسے بھی صوبہ سندھ ایک مشکل ترین صوبہ ہے ، جس میں دیگر صوبوں اور بیرون ِ ملک کی آبادی ہے بلکہ ساحلی صوبہ ہونے کی وجہ سے اس میں مرکز اور بیرونی قوتوں کے بڑے مفادات چھپے ہیں ۔ اس لیے اُسے ان تمام معاملات میں صوبہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے نہایت چوکنا رہنا ہوگا ۔

جہاں تک بات ہے فاٹا کی مد میں کے پی کے کو اضافی حصہ دینے کی تو فاٹا ماضی میں وفاق کا حصہ رہا ہے اور اب جب وفاق یہ خطہ جس صوبے کو دے رہا ہے تو اُسے اپنے (وفاق کے) پول میں سے اضافی حصہ دینا چاہیے ۔ لیکن وفاق یہ بوجھ بھی صوبوں پر ڈالنا چاہتا ہے ، جس کا اثر دوسروں پر کم لیکن سندھ پر زیادہ پڑے گا کیونکہ سندھ پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے ۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ میں اس وقت مختلف محکموں میں 40ہزار اسامیاں خالی پڑی ہیں جو کہ صرف اس لیے پُر نہیں کی جارہیں کہ اُس سے خزانے پر بوجھ بڑھے گا جو کہ پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے ۔

دوسری جانب کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی کے کے فور منصوبے سمیت 394ترقیاتی اسکیموں پر کام نہیں ہوسکا ہے ۔ سندھ جو ہر سال 30کھرب سے زیادہ کماتا ہے اُس کا سالانہ بجٹ صرف 11کھرب کا ہوتا ہے جوکہ سندھ کے عوام میں بے چینی اور پس ماندگی کا باعث ہے ۔جب کہ پنجاب کا بجٹ 25کھرب ہے اور وفاقی بجٹ 55کھرب روپے ہے ۔ اورماضی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وفاق اپنی ترقیاتی بجٹ کا 80سے 90فیصد پنجاب پر خرچ کرتا ہے ۔ اس لیے پنجاب میں ترقی کا تناسب زیادہ ہے ۔ اس لیے پنجاب و سندھ کا ترقی میں موازنہ کرنا فضول و بے بنیاد بحث اور صوبوں میں نفاق کا ذریعہ بنا ہوا ہے ۔

پھر دیکھا جائے تو کے پی کے کوتواپنی آمدن اور وسائل سے کہیں زیادہ مل رہا ہے لیکن بلوچستان اور خاص طور پر سندھ کو اپنی آمدن اور وسائل کی نسبت ملنے والا حصہ نا مناسب ہے ۔ اس لیے آنیوالے نئے این ایف سی ایوارڈ کو لانے سے پہلے اس حقیقت پر کھل کر بحث ہونی چاہیے کہ وفاق ماورائے آئین محکمے ختم کرکے صوبوں اور مشترکہ مفادات کونسل کے حوالے کردے ، ہر صوبے کی حقیقی آمدن اور بجٹ کتنی اور کیوں ہے ؟ جیسے نکات پر فراخ دلی اور مساوانہ طریقے و اختیار کے ساتھ زمینی حقائق کی روشنی میں بات چیت کرکے ہر صوبے کو اُ س کا جائز حق گفت و شنید کے بعد آئینی ترامیم و متفقہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت دیا جائے ۔

جب کہ ملک میں رائے عامہ یہ بنتی دکھائی دیتی ہے کہ جس حکومت کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی کا حل نکالنے کے بجائے وزیر اعظم ''مہنگائی تو ہونی ہی تھی ، شور کیوں مچایا جارہا ہے؟ '' جیسا بیان دے تو معاشی ماہرین تو چھوڑیں عوام بھی سمجھ جاتے ہیں کہ اس حکومت کے پاس کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے ۔ اس لیے لگ نہیں رہا کہ یہ حکومت این ایف سی جیسے گمبھیر مسئلے کا کوئی آئین کی روح کے مطابق حل نکال پائے گی ۔لیکن اس مسئلے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر صوبے برادرانہ جذبے کے تحت درست و مؤثر حکمت عملی اپنائیں توصوبائی اُمور کو بہتر بنانے کا یہ بہترین موقع ثابت ہوسکتا ہے ۔

دنیا میں وفاقی طرز کے ممالک میں وفاق کی غیر جانبداری کو ہر حال میں قائم رکھا جاتا ہے۔مگر وطن ِ عزیز میں مرکزیت پسند قوتوں کی کوشش ہے کہ صوبوں کو جو تھوڑی بہت خودمختاری حاصل ہے اُسے بھی ختم کرکے ون یونٹ کی طرز کا نظام لاگو کیا جائے ۔ لیکن وہ بھول رہی ہیں کہ موجودہ فیڈریشن نازک آئینی توازن پر قائم ہے اور اُس توازن کو قائم رکھنے میں ہی ملکی استحکام کا راز چھپا ہے ۔ اس لیے اس توازن کو قائم رکھنے کے لیے آئین کی مکمل فعالیت اور استحکام و سالمیت کو یقینی بنانے اور اُس میں ہونے والی ترامیم بالخصوص محدود صوبائی اختیارات کی حامل 18ویں ترمیم کی پاسداری ہی ملکی استحکام کو جلا بخشے گی ۔

ورنہ تو ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ ہی وفاق کی ناکامی کا کچا چٹھا بن کر سامنے آئی ہے ، جس میں ملکی معیشت کی ابتری ، انڈس ڈیلٹا کی تباہی ، ڈیموں سے ملک کو کوئی فائدہ نہ پہنچنے ، نکاسی ِ آب و صنعتی فضلہ کے ٹریٹمنٹ اور گندے پانی سے ہونے والی بیماریوں کے باعث سالانہ 40ہزار افراد کی موت کا ذکر کیا گیا ہے ، جوکہ تمام اُمور وفاقی ذمے داریاں ہیں اور وفاق کی عدم توجہی اور چھوٹے صوبوں کی جانب روا رکھے گئے جانبدار رویے کے باعث پیدا شدہ ہیں ۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ مرکزیت پسندی کی اسی Theoryو کوششوں کے نتیجے میں دنیا کے نقشے میں بنگلادیش کے نام سے نئی جغرافیائی لکیروں کا اضافہ ہوا تھا ۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو کسی بھی ملک بالخصوص ہمارے جیسے کثیر القومی ملک میں وسائل اور انتظامی و حکومتی اُمور میں قوموں کے درمیان مساوات ہی ملکی استحکام کا باعث ہوتی ہے اور ملک کا آئین اس مساوات اور اختیارات کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے ۔ اس لیے 1973کے آئین اور اس میں ہونے والی 18ویں ترمیم سے انحراف اور اُس کے تحت قوموں (صوبوں ) کو حاصل حقوق و اختیارات سے چھیڑ چھاڑ کسی دوسرے ملکی المیے کو نہ جنم دے دے ۔!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں