رُت آنسوؤں کی
وہ قاتل بھی کبھی معصوم بچوں کی صورت اپنی ماؤں کی کوکھ سے نکلے ہوں گے
دو ہفتے سے زیادہ ہوگئے ہیں ،گرو نانک کے منٹگمری میں قیامت گزرے ، لکھنے والوں نے صفحوں کے صفحے کالے کر ڈالے، سبھی ماتمی تحریریں میرے بھی دل کی آواز تھیں ، مجھے یوں لگا جیسے میں بھی اپنے لکھنے کا حصہ ڈال چکا ۔گزرے دنوں میں خاموشی کے صحرا میں رہا اور سوچتا رہا، بڑے سوالات اس خاموشی میں سر اٹھاتے رہے اور جوابات آتے رہے۔
وہ قاتل بھی کبھی معصوم بچوں کی صورت اپنی ماؤں کی کوکھ سے نکلے ہوں گے ، شرارتوں بھرا بچپن گزارا ہوگا ، لاڈ دلار میں پل بڑھ کر بڑے ہوئے ہوں گے، پھر یہ ''معصوم''، ''درندے'' کیسے بن جاتے ہیں ۔ نہتے لوگوں ، معصوم بچوں پرگولیاں برساتے ہوئے ان کے ہاتھ نہیں کانپتے ! نشانے نہیں چوکتے !
یہ کیسی دلدل ہے جس میں ہم دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ 70 سال ہوگئے دلدل پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے ۔ اب تو پورا پاکستان دلدل بن گیا ہے۔ کرپشن ، جعلی بینک اکاؤنٹ ، پولیس کے جعلی مقابلے، زمینوں پر قبضے ، دولت مندوں کے لاڈلے بیٹوں کے '' انسانی شکار'' کارنامے۔ کیا لکھوں !
ساہیوال ،گرونانک کے سپوت کنور مہندر سنگھ بیدی کا ساہیوال ، مجید امجد ، منیر نیازی ، مجید اختر کا ساہیوال ، ان محبت بھرے لوگوں کے شہر پر سیاہ ترین دھبہ لگ گیا ۔ چار بے گناہ قتل کردیے گئے۔ مرنے والے کہتے رہے '' ہمارے پاس جوکچھ ہے ہم سے لے لو اور ہمیں معاف کردو ، ہماری جان بخشی کردو ۔'' مگر درندوں کو لاشیں درکار تھیں، سو انھوں نے وہ حاصل کر لیں ۔
دیکھ رہے ہو پاکستان! ''سوچا تھا کیا ! کیا ہوگیا۔''
معاملات اس درجہ بگڑ کے تگڑ چکے ہیں کہ بقول شاعر صابر ظفر ''عوام سوچ رہے ہیں کہ ہم کدھر جائیں'' ساہیوال کے سانحے نے پورے ملک میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔ لوگ گھروں میں خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ۔ ذرا سا سکھ کا سانس نصیب ہوا تھا ، لوگ خوش تھے، ایک ٹھیلے والا کہہ رہا تھا '' ہمیں پتا ہے ، مہنگائی اور ہوگی ، مشکل دن مزید آئیں گے، مگر عمران خان ملک کو بچا کر آگے لے جائے گا '' دیکھیں غریبوں کی یہ سوچ ہے ، کہیں حکومت مخالف مظاہرے نہیں ہو رہے ہیں ۔کراچی میں ینگ ڈاکٹروں کے احتجاج میں عمران کے خلاف نعرے بلند نہیں ہو رہے۔ کاشتکار بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں۔
غریب اسی پر خوش ہیں کہ ملک لوٹنے والوں کے گرد شکنجہ مضبوط کیا جا رہا ہے۔ غریب 70 سال سے مسائل کی چکی میں پس رہا ہے۔ 5 سال اور سہی ! غریب بڑے پر امید ہیں کہ عمران بھنور میں پھنسی کشتی کو نکال لے گا۔ مگر ملک دشمن باز نہیں آرہے، انھوں نے لورالائی کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں خودکش حملہ کردیا۔ پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ۔ ادھر بنوں کے ایک گھر میں دھماکہ ہوا جس میں میاں بیوی سمیت تین بچے بھی مارے گئے ۔ یہ دہشت گرد ملک کو گرداب سے نکلتا دیکھنا نہیں چاہتے ۔ زرداری خاندان اور شریف خاندان حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور دہشت گردوں کے خلاف حکومت کا ساتھ دیں ۔ دونوں خاندانوں کے کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں ۔ بقول شریف خاندان کے ''دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہوجائے گا '' اور زرداری صاحب 9 سال جیل کاٹ چکے ہیں، اس بار بھی انھیں عدالتی معاملات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہیے۔ اب تو ملک بچانے کے لالے پڑ گئے ہیں ۔ یہ سانحہ ساہیوال، یہ لورالائی اور بنوں کے خود کش دھماکے اور ابھی یہ '' نادیدہ '' دہشت گرد اور بھی بہت کچھ کریں گے ۔ یہ ''نادیدہ '' پتا نہیں کس کے تابع ہیں ۔ جو بھی ہو رہا ہے عوام چوکنے رہیں ۔
ان تمام نادیدہ قوتوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ '' یہ ٹوٹا ہوا تارہ ، مہ کامل نہ بن جائے'' ہمارا ملک بہت ہی برے دنوں سے گزر رہا ہے ۔ سبھی حکمرانوں نے اسے لوٹا ، نچوڑا اور اسے ''ادھ موا'' کر دیا ۔ آخری دو سیاسی جماعتیں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی بھی لوٹ مار ہی کرتی رہیں ۔ غریب بلکتے رہے، آنسو بہاتے اور حکمران اپنے ساتھیوں کے ساتھ مست ، مدہوش رہے۔ حکمران ملک کا پیسہ بیرون ملک لے جاتے رہے، پاکستان کے ہر بڑے شہر میں اپنے محلوں سے جی بھرگیا تو دنیا کے بڑے ممالک کے بڑے شہروں میں جائیدادیں لیں ۔ باہر کے بینک بھر لیے اور آج بھی لوٹ مار سے انکارکر رہے ہیں ۔
ارے بھائی ! چھوڑو ساری باتیں اور جن خاندانوں کے پاس اربوں کھربوں ہیں وہ سب اپنا آدھا پیسہ پاکستان کو لوٹا دیں ۔ پاکستان کو ضرورت ہے اس کا پیسہ اسے واپس کردو ۔ یہ آدھا پیسہ دینے کے بعد بھی یہ خاندان اربوں کھربوں پتی ہی رہیں گے ۔ ملک اپنا پیسہ مانگ رہا ہے اور غریب تو آنسوؤں کی رُت کے عادی ہیں ۔کوئی بات نہیں، کچھ وقت اور سہی ۔ آنسوؤں کی رُت کے ساتھ اور گزار لیں گے۔ مگر وہ وقت بہت قریب ہے کہ جب غریب ہنسیں گے اور لٹیرے روئیں گے۔ سچ ہی ہے کہ ہم غریب آزادی حاصل کرکے بھی آزاد نہیں ہیں ۔ پاکستان بنانے کے ساتھ ساتھ '' لٹیروں '' نے آزاد پاکستان پر قبضے کا پروگرام بنالیا تھا اور نتیجہ یہ کہ آج بھی انگریزوں کے دربان ہم پر مسلط ہیں۔ وقت کڑا ہے، ظالموں کا جم غفیر ہے، مقابلہ بہت سخت ہے پاکستان کو لٹیروں سے نجات دلانے کے لیے دوبدو لڑائی ہوگی۔ گلی گلی، شہر شہر جنگ ہوگی۔ غریبوں کا 70 سال سے جو حال ہے حبیب جالب نے یوں بیان کیا ہے:
رُت آنسوؤں کی آنکھ سے ہوتی نہیں جدا
موسم نظر میں پھول کھلاتا نہیں کوئی
اور غزل کا مقطع ہے:
جالب یہ بات طے ہے، بہت آزما چکے
کام اہلِ زر غریب کے آتا نہیں کوئی