نواز شریف دسمبر تک

نواز شریف دسمبر 13 تک کیا کچھ حاصل کریں گے؟ نئے صدر مملکت، نئے آرمی چیف اور نئے چیف جسٹس۔ یہ تینوں عہدے...


[email protected]

نواز شریف دسمبر 13 تک کیا کچھ حاصل کریں گے؟ نئے صدر مملکت، نئے آرمی چیف اور نئے چیف جسٹس۔ یہ تینوں عہدے بڑی آسانی سے نواز شریف کی رضامندی اور منظوری سے مقرر کیے جائیں گے۔ پندرہ سال قبل ان تین عہدوں پر مرضی کی تقرری کے لیے نواز شریف کو کیا کچھ کرنا پڑا تھا؟ اس موضوع پر گفتگو کے تین فائدے ہوں گے۔ ہم تاریخ کے جھروکوں سے اپنے نوجوانوں کو ایک کشمکش کی منظر کشی کروائیں گے۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ دسمبر تک کون سا عہدہ کب خالی ہو گا؟ ہم اس سوال کا جواب پا لیں گے۔ تیسرا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم اپنے حکمرانوں کو بتا سکیں گے کہ اب یہ نئی صدی ہے تو اس میں اسی طرح حکمرانی کرنی چاہیے جو اس کا تقاضا ہے۔ آئیے! ماضی میں عہدوں پر تقرری کی کشمکش کا جائزہ لیتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو 96 کے آخر میں حکمران تھیں۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل نے ان کی حکومت کو ڈگمگا دیا تھا۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری سے محترمہ کا اختلاف گھن گرج سے جاری تھا۔ صدر لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کر دی۔ انتخابات فروری میں ہوئے اور نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر وزیر اعظم بن گئے۔ تین طاقتور عہدے وزیر اعظم کے اردگرد تھے۔ اسمبلی توڑ سکنے والے صدر لغاری، عدالتی فعالیت کا مظاہرہ کرنے والے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت۔ نواز حکومت کے آنے سے قبل ہی عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے ''ججز کیس'' کے حوالے سے فیصلہ دے کر انتظامیہ کی عدلیہ کے گرد زنجیروں کو توڑ دیا تھا۔ اب نواز شریف بھی ان فیصلوں کے پابند تھے۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے دو ججوں کو طلب کیا۔ نواز شریف نے ہچکچاہٹ اور چیف جسٹس نے رعایت نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس معاملے نے عدلیہ اور حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا۔ جسٹس شاہ نے نواز شریف کی فیکٹریوں کے معاملات اپنی عدالت میں لگانا شروع کر دیے۔ حکومت کے ضبط کا بندھن ٹوٹنے کے قریب آ گیا۔ سپریم کورٹ پر حملہ کس طرح ہوا؟ یہ ایک لمبی اور دلچسپ کہانی ہے۔ ہم صدر اور آرمی چیف سے حکومتی اختلاف پر گفتگو کر کے ایک بار پھر عدالت سے محاذ آرائی پر آئیں گے۔

فاروق لغاری آٹھویں ترمیم سے لیس تھے۔ صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار تھا۔ غلام اسحق پہلے بے نظیر اور پھر نواز شریف کی حکومتوں کو برطرف کر چکے تھے۔ صدر لغاری اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو گھر بھجوا چکے تھے۔ صدر ضیاء اس سے قبل جونیجو حکومت کا خاتمہ کر چکے تھے۔ سیاستدان اس صدارتی اختیار سے تنگ تھے۔ نواز شریف کے پاس دو تہائی اکثریت تھی۔ اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اور نواز شریف صدر لغاری کے پاس ڈیرہ غازی خان جا کر تیرھویں ترمیم کی منظوری لے چکے تھے۔ گویا صدارتی اختیار واپس لے کر انھوں نے ایک بڑا قلعہ فتح کر لیا تھا۔ فاروق لغاری اس اہم اختیار کی واپسی پر خوش نہ تھے۔ یوں نواز شریف صدر اور چیف جسٹس سے محاذ آرائی کے قریب آ گئے تھے۔

آرمی چیف جہانگیر کرامت نے ایک فوجی اجلاس میں نیشنل سیکیورٹی کونسل میں فوج کے چار بڑوں کی شرکت کی تجویز دی۔ نواز شریف نے اس ''بے باکی'' کو پسند نہ کیا۔ ایک طرف صدر لغاری کو بے اختیار کرنے، چیف جسٹس شاہ کی عدالتی فعالیت کو بریک لگانے کی کوشش تو تیسری طرف آرمی چیف کی تجویز کو ناپسند کرنے کی تلخی۔ اس تین طرفہ لڑائی میں سب سے سخت لڑائی عدلیہ سے تھی۔

جسٹس شاہ نے تیرھویں ترمیم کے خاتمے کی آئینی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی۔ پی ٹی وی نے نازیبا کارٹون دکھائے۔ جسٹس شاہ نے توہین عدالت کے الزام میں نوازشریف کو طلب کر لیا۔ آہستہ آہستہ حکومتی ضبط کا بندھن ٹوٹنے لگا۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہوا اور جج صاحبان کو بمشکل وہاں سے نکالا گیا۔ اس سے قبل جسٹس شاہ نے جنرل کرامت کو عدالت عظمیٰ کی حفاظت کا کہا جسے جنرل نے سیکریٹری دفاع کو بھیج کر ٹال دیا۔ اب وہ موقع آ گیا کہ نواز شریف نے تینوں بڑوں کو ایک ایک کر کے رخصت کر دیا۔

آرمی چیف سے بیان دینے پر استعفیٰ لے کر جنرل مشرف کو افواج پاکستان کا سربراہ بنا دیا گیا۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف ان کے اپنے برادر ججوں نے ''بغاوت'' کر دی اور ان کی چیف جسٹس کی تقرری کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ سجاد علی شاہ رخصت ہو گئے۔ صدر لغاری بھی جسٹس شاہ کی رخصتی کے کاغذ پر دستخط کے لیے تیار نہ ہوئے اور مستعفی ہو گئے۔ اپنی مرضی کے صدر تارڑ، چیف جسٹس سعیدالزماں صدیقی اور آرمی چیف جنرل مشرف کو لانے کے لیے نواز شریف کو ڈیڑھ سال کی سخت جدوجہد اور کشمکش کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اب ہم دیکھیں گے کہ سال رواں میں وزیر اعظم کو یہی کچھ کرنے کے لیے پر سکون ماحول میسر ہو گا۔ صدر زرداری، آرمی چیف جنرل کیانی اور چیف جسٹس افتخار چوہدری 2013 میں اپنی میعاد پوری کر کے جا رہے ہیں۔ پچھلی صدی کی مشکلات اور اس صدی کی آسانیاں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وقت بدل چکا ہے۔

صدر زرداری 8 ستمبر کو ایوان صدر سے رخصت ہو جائیں گے۔ آرمی چیف اپنی تین تین سالہ میعاد 29 نومبر کو مکمل کر کے نئے چیف کو کمان سونپیں گے۔ جسٹس افتخار چوہدری ساڑھے آٹھ سال تک پاکستانی عدلیہ کے موثر ترین و مقبول ترین چیف جسٹس کے عہدے سے 12 دسمبر کو ریٹائر ہوں گے۔ صدر اور آرمی چیف کی تقرری میں خالصتاً نواز شریف کی مرضی کو دخل حاصل ہو گا۔ چیف جسٹس کے لیے اٹھارہویں ترمیم کے بعد سینئر ترین جج کو ہی عدالتی سربراہ مقرر کرنا ہو گا۔ کچھ بھی ہو، تینوں تقریریاں نواز شریف کے ہاتھوں سر انجام پائیں گی۔ پندرہ سال قبل یہی کچھ حاصل کرنے کے لیے جس زوردار کشمکش سے وزیر اعظم کو گزرنا پڑا اب وہ نہایت آسانی سے سرانجام پا جائیں گی۔

نواز شریف کو قدرت ایک اچھا موقع دے رہی ہے۔ پاکستان کو بہتر، خوشحال، جمہوری، پر امن اور باہمی احترام پر مبنی پاکستان بنانے کے لیے۔ برداشت والا پاکستان۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور تند و تیز تنقید کو خندہ پیشانی سے جھیلنا۔ میڈیا کے ساتھ مشرف و زرداری کا نسبتاً بہتر ریکارڈ نواز حکومت کی آزمائش ہو گی۔ بلوچستان میں ملک و صوبے کی خاطر پارٹی حکومت کی قربانی اچھی ابتدا ہے۔ صدی بدل چکی ہے۔ کچھ آسانیاں ہیں تو کچھ مشکلات۔ اب دیکھنا ہے کہ نواز شریف کیا کچھ کرتے ہیں؟ اگست و ستمبر میں اور اکتوبر، نومبر اور دسمبر 2013 تک اور آنے والے برسوں میں۔ آج عوام اور کل مورخ جانچیں گے کہ وزیراعظم کا پہلے چھ ماہ میں حکومت سنبھالنے کے بعد کیا انداز رہا ہے اور پھر وہ مستقبل میں کیا کرتے ہیں۔ عوام کی نظریں ہیں اپنے وزیر اعظم پر لیکن پہلے وہ دیکھیں گے کہ کیا کرتے ہیں نواز شریف دسمبر تک۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں