بلاتاخیر
بہاروں کا ماتم ہورہا ہے۔ خزاں میں بگولے اڑنے لگے ہیں۔ دل مسوس کر رہ گیا لیکن اپنی بے بسی کا احساس۔۔۔
بہاروں کا ماتم ہورہا ہے۔ خزاں میں بگولے اڑنے لگے ہیں۔ دل مسوس کر رہ گیا لیکن اپنی بے بسی کا احساس اپنی مجبوریوں پر نوحہ کناں ہے اور
بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ میری زنجیر کا
سپاہی کے پاس لڑنے کے لیے تلوار ہوتی ہے۔ ادیب کے پاس قلم اور قاری کے پاس دل۔ لیکن دل کے آئینے پر جو نقشہ کھینچا ہے وہ کہاں تک آپ کے ذہن پر اتر سکے گا۔ اس سے قطع نظر اگر جذبات کی رو میں بہہ جاؤں تو مجذوب کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کردیجیے گا۔ پاکستان کا نصب العین کون نہیں سمجھتا۔ لیکن افسوس ہے تو اس بات پر کہ سمجھنے کے باوجود عمل قطعی طور پر نہیں ہوتا اور عجیب و غریب صورت حال یہ ہے کہ ایک شخص صحیح طور پر اپنی ڈیوٹی نہیں دیتا۔ لیکن یہی اعتراض وہ دوسروں پرکر رہا ہے۔ خود رشوت لیتا ہے لیکن دوسروں پر تنقید کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
زیر دیوار بنیاد ہوتی ہے اور جس کی بنیاد کھوکھلی ہو وہ دھڑام سے آگرتی ہے۔ یہ ایک عام بات ہے اور اسے ہر باشعور سمجھتا ہے۔لیکن دانا وہ ہے جو عملی قدم اٹھاکر اس کا تریاق سوچ لے۔ زندگی کا نقیب کوئی ہی ہوتا ہے۔ جس ملک کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا اور قائد اعظم ؒ نے اسے تعمیر کرکے دکھایا۔ ہمارے سیاست دانوں نے اور حکمرانوں نے اس کی بنیادیں تک ہلا ڈالیں۔ خوابوں کی اس قوس قزح کو سیاہی سے بھردیا۔
عوام کے مرجھائے ہوئے چہروں پر پژمردگی چھائی ہوئی ہے۔ اور سب کے سب مایوسیوں کی عمیق گہرائیوں میں ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔
دور دور تک اندھیرا ہے۔ گھپ اندھیرا
عام طور پر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک روشن اور دوسرا تاریک۔ لیکن ہم تصویر کا دوسرا تاریک رخ دیکھنے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ ہم بڑے سے بڑے المیے کو سرسری نظر سے دیکھ کر یا سن کر اس کا شمہ برابر اثر لیے بغیر اپنے مشاغل میں ڈوب جاتے ہیں۔
حکمت وفکر کی عظیم المرتبت شخصیت ''ارسطو'' کا نقطہ نظر اس معاملے میں یہ ہے کہ ''جس ملک میں بے حسی عام ہوجائے وہاں انسانی قدروں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اور اگر کسی ریاست میں معاشرے کی تشکیل کا کام متوازی سطور پر نہ ہوسکے تو اس معاشرے کے غلط اخلاق و کردار کے شہری خود اس سماج کے وجود کے لیے زبردست خطرہ بن جاتے ہیں۔''
بعینیہ یہی صورت حال پاکستان میں ہے۔کراچی ہو کہ کوئٹہ، پشاور ہو کہ نانگا پربت، ہر جگہ دھماکے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ ہے۔ معصوم بچوں سے لے کر ضعیف بوڑھوں تک، میڈیکل کالج کی طالبات سے لے کر بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمان سیاحوں تک۔ خون ہی خون ہے۔ لاشیں ہی لاشیں ہیں۔ چیخ و پکار ہے۔ آہ و بکا ہے۔ دھواں اور بارود ہے۔ اور مقتولین کے ورثاء کی دردناک، غم کے انبوہ میں ڈوبی ہوئی سسکیاں ہیں۔
''کب تک آخر ۔۔۔۔آخر کب تک''۔
یہ ظالم، مجرم اور خونی درندے آزاد پھرتے رہیں گے ؟ کب تک یہ معصوم لوگوں کا قتل عام کرکے فخریہ اس کی ذمے داری قبول کرتے رہیں گے۔ اور کب تک ہماری حکومتیں اپنی مجبوری اور معذوری کا اظہار کرکے اس آزادانہ قتل عام کو پس پشت ڈالتی رہیں گی۔
ایک طویل مدت گزری اخبارات میں یہ حکومتی بیانات پڑھتے۔ اور میڈیا پر یہ حکومتی نقطہ نظر سنتے جو درج ذیل ہیں۔
1۔سول اور عسکری قیادت میں دہشت گردوں کے خلاف کیے جانے والے آپریشن میں اتفاق ہونا چاہیے۔
2۔اب آہنی ہاتھوں کا استعمال ہوگا۔
3۔تمام گروپوں کے خلاف بلاتخصیص آپریشن کیا جائے گا۔
4۔عوام چند ماہ مزید صبر کریں۔
5۔ یہ حالات ہمیں پچھلی حکومت سے تحفے میں ملے ہیں۔
یہ تمام بیانات اور ان سے مشابہ بیانات اس قدر تواتر سے ہر آنے اور جانے والی حکومت نے جاری کیے ہیں کہ اب کسی بھی حادثے کے بعد باقاعدہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ حکومت کا ممکنہ بیان کیا ہوگا۔ لیکن اگر مندرجہ بالا بیانات میں سے کسی ایک بیان پر بھی عمل درآمد ہوچکا ہوتا تو آج ملک کے حالات یکسر مختلف ہوتے۔مجھے یاد ہے کہ 2004 میں جب سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہور میں کھلے عام فائرنگ کی گئی۔ تب سے اب تک، دنیا کی کسی اچھی ٹیم تو درکنار کسی عام سی ٹیم نے بھی پاکستان کے دورے سے اجتناب برتا ہے اور ہمارے کھیلوں کے میدان آج دھول سے اٹے صحرا کا نمونہ بن کر رہ گئے ہیں۔ جہاں کھیلوں کی جگہ خاک اڑ رہی ہے۔
اور اب سیاحوں پر حملہ ! جن میں سے متعدد بدنصیب سیاح حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔ اب کون آئے گا نانگا پربت کی یہ حسین چوٹی دیکھنے کے لیے ۔ مری، گلگت اور کالام کی ان خوبصورت وادیوں کی سیر کے لیے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے حکومت کے لیے۔ اسے اب کچھ کرنا ہوگا۔ اور شاید بہت زیادہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ اب حادثات کی نہج سوچنے کے دائرہ کار سے کہیں زیادہ باہر ہے۔کیونکہ ملک کی معیشت، تجارت اور کاروبار زندگی اسی معاملے سے منسلک ہے اور امن و امان پر انحصار کرتی ہے۔ ورنہ تاخیر اور باعث تاخیر کے بعد صورتحال یہ ہوگی۔
نوید سرخوشی جب آئے گی اس وقت تک شاید
ہمیں زہر غم ہستی گوارا ہو چکا ہوگا