ٹیلی گرام کو آخری سلام

الوداع اے تار برقی الوداع۔ ہم تو پاکستان میں کتنے سال پہلے تارکویا جسےانگریزی میں ٹیلی گرام کہتےہیں الوداع کہہ چکے...


Intezar Hussain July 21, 2013
[email protected]

الوداع اے تار برقی الوداع۔ ہم تو پاکستان میں کتنے سال پہلے تار کو یا جسے انگریزی میں ٹیلی گرام کہتے ہیں الوداع کہہ چکے تھے مگر پاکستان میں یہ کام بہت خاموشی سے ہوا۔ سولوگوں کو پتہ چلتے چلتے پتہ چلا۔ ہم اپنی سناتے ہیں۔ جنرل پوسٹ آفس ہی کے سامنے تو ٹیلی گراف آفس تھا۔ بس اتفاقاً' اس دفتر کی طرف نظر پڑ گئی۔ گیٹ سے اندر تک سناٹا گیٹ پر تالا پڑا ہوا۔ ہم حیران کہ اس دفتر کو کیا ہوا۔ اگر کوئی ہڑتال ہے تو اتنی مکمل ہڑتال جیسے پوری سرکار اس ہڑتال سے تعاون کر رہی ہے۔ کسی بھلے مانس نے ہماری حیرت کو تاڑا اور کہا' اے زمانے سے بے خبر آدمی خبر رسانی کا یہ سلسلہ جسے ہم ٹیلی گرام کہتے تھے اور پھر اپنی دیسی زبان میں تار کہنے لگے اپنی عمر پوری کر کے ہماری دنیا سے رخصت ہو گیا۔

مگر ہندوستان میں اس محکمے کے ارباب بست و کشاد نے سوچا کہ ہماری رخصتی برحق۔ اگر ٹیلی گرام کا آخری وقت آ گیا ہے تو کیا ہو سکتا ہے۔ موت سب کو آنی ہے جاندار کو بھی اور بے جان کو بھی۔ مگر آخر ہم نے انسانوں کی بھری دنیا میں سانس لیا ہے۔ کتنے سالوں خلق خدا کی خدمت کی ہے۔ سو یوں ہے کہ ع

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

سو ڈونڈی پٹ گئی کہ تار گھر بند ہو رہا ہے۔ جسے تار بھیجنا ہے وہ 15 جولائی تک تار بھیج دے۔ اے لو پھر تو تار بھیجنے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ ٹیلی گراف آفس کا دم واپسیں ہے۔ تار کا آخری تار آ گیا ہے۔ کیوں نہ اس سے پہلے ہم یاروں کو رشتہ داروں کو ایک ایک تار بھیج لیں۔

یہ لوگ بھی اپنی جگہ سچے ہیں۔ ارے پہلے پیغام رسانی کے ذرایع اتنے تیز رفتار کہاں تھے۔ بیچاری برہنوں کو جب پردیس جانے والے پیا کی خیر خبر نہیں ملتی تھی تو برہاکے گیت پر گزارہ کرتی تھی اور پپیہے کو پکارتی تھی کہ پیا کو میرا پیغام پہنچا دے مگر جب انگریزی راج کی آمد کے بعد اس برصغیر میں ڈاکخانے قائم ہوئے اور ڈاکیہ نے گھر گھر خط پہنچانے شروع کیے تو پیغام رسانی کی دنیا میں ایک انقلاب آ گیا۔ پرانے پیغام رساں معہ پپیہے کے سب ہٹ گئے۔ ان کی جگہ ڈاکیہ آ گیا۔ ڈاکیہ لوگوں کی امیدوں کا محور بن گیا۔

پھر جلد ہی ایک اور انقلاب آیا۔ ڈاک کے ذریعہ خط تین تین چار چار دن میں پہنچتا تھا۔ جب پوسٹ کارڈ اور لفافہ سے بڑھ کر ایک شے ٹیلی گرام نام کی آئی تو پیغام رسانی کی رفتار اتنی تیز ہو گئی کہ دن کے دن پیغام دور دور پہنچ جاتا تھا۔

مگر تار مہنگا کاروبار تھا۔ اس میں لفظ لفظ کی قیمت مقرر تھی۔ سو تار میں لفظ گن کر لکھے جاتے تھے اور تار اس صورت میں بھیجا جاتا تھا کہ کوئی زبردست خوشی کی خبر ہو یا غمی کی۔ مگر خوشی کی خبر تو کم کم ہی ہوتی تھی۔ غمی کی خبر جلدی جلدی آتی تھی۔ خاص طور پر موت کی خبر۔ آج دادی اماں کا انتقال ہو گیا۔ ملازمتوں پر گئے ہوئوں کو جلدی خبر پہنچنی چاہیے۔ جنازے میں شریک نہ ہو سکیں تو قل میں تو شریک ہو جائیں۔ یا کوئی عزیز پردیس میں جا کر ملازم ہو گیا ہے یا اس کا تبادلہ دور کے شہر میں ہو گیا ہے۔ مگر اجل کا پیغام تو کہیں بھی کسی وقت آ جائے تو لیجیے پردیس میں غریب کا انتقال ہو گیا۔ عزیزوں کو تار برقی بھیجا گیا ہے کہ تائے ابا یا ابو جان چل بسے۔ دوڑ کے آئو۔ تار والے نے دروازہ کھٹکھٹایا ہاتھ میں تار پکڑایا۔ اور یہ جا وہ جا۔ خوشی کا تار ہوتا تو روپیہ لے کے جاتا۔ اب ایسی امید فضول ہے۔

پھر رفتہ رفتہ تار کا مطلب ہی یہ ہو گیا کہ ادھر کوئی موت ہو گئی ہے۔ یہ سنتے ہی کہ تار آیا ہے تار وصول کرنے والوں کے ہوش اڑ جاتے تھے۔ تار بعد میں پڑھتے تھے۔ دل پہلے ہی دھکڑ پکڑ کرنا شروع کر دیتے تھے۔ تار کا مضمون مختصر۔ کچھ سمجھ میں آیا' کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ جتنا سمجھ میں آیا اس کے حساب سے دل دھڑ دھڑ کرنے لگے' چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ دعائیں شروع ہو گئیں۔ یا الہی پردیس میں جانے والے کی خیر ہو۔

مگر کمبخت زمانے کی رفتار تیز ہوتی ہی چلی گئی۔ پہلے سفر اونٹوں پر ہوتا تھا۔ پیغام پہنچانے کا فریضہ ناقہ سوار ادا کرتے تھے۔ یا پھر بیل گاڑی تھی۔ اس برصغیر کی صدیوں پرانی پیٹنٹ سواری۔ بیل گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ہفتے میں نہیں عشرے میں تو منزل پر پہنچا ہی دے گی۔ ذرا غالب کے سفر کلکتہ کا حال پڑھو۔ دلی سے کب نکلے۔ کلکتہ کب پہنچے ابھی الہ آباد میں ہیں۔ آگے بنارس میں پڑائو کرنا ہے۔ وہاں دم لے لیں۔ پھر عازم کلکتہ ہوں گے۔

مگر پھر بیل گاڑی کی جگہ ریل گاڑی آ گئی۔ گھوڑے کی سواری' رتھ' ٹکرم سب پیچھے رہ گئے۔ ریل گاڑی پھک پھک کرتی' سیٹی بجاتی دوڑی چلی جا رہی ہے۔ مگر اس سواری میں بیٹھنے کے لیے بروقت اسٹیشن پر پہنچنا ہے۔ دیر سے پہنچو گے تو پھر یہی ہو گا کہ ع

گاڑی نکل گئی تھی پٹری چمک رہی تھی

پھر ہوائی جہاز آ گئے۔ اب دھواں چھوڑتی سیٹی بجاتی برق رفتار ریل گاڑی بھی بیل گاڑی نظر آنے لگی۔ کالے کوسوں کا سفر گھنٹوں میں بلکہ گھڑیوں میں۔ یہ ہوائی جہاز ہے یا پرانی کہانیوں والا کل کا گھوڑا۔

مگر زمانہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ کل کا گھوڑا اڑن کھٹولا' ہوائی جہاز سب پیچھے رہ گئے۔ برق رفتار زمانے نے نئے گل کھلائے' نئی مشینیں ایجاد کیں۔ کیسی ریل والی ڈاک اور کیسی ہوائی ڈاک۔ ٹیلی فون آیا' پھر موبائل' پھر ای میل۔ لو چشم زدن میں پیغام پورب سے پچھم تک اور اتر سے دکھن تک پہنچ گیا۔ بس بٹن دبانے کی دیر ہے۔ پیغام سات سمندر پار غیروں کی راجدھانی میں پہنچ جائے گا۔

دور پار والوں کے ہمیں فون آتے ہیں۔ اپنا ای میل کا پتہ بتائیے۔ ضروری ڈاک بھیجنی ہے۔ ہم معذرت کرتے ہیں کہ کہاں کا ای میل۔ ہم تو پوسٹ آفس پر بھروسہ کرتے چلے آئے ہیں۔ ابھی تک اسی پر بھروسہ ہے۔ ایئر میل کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس ذریعہ سے پیغام بھیجتے ہیں اور وصول کرتے ہیں۔ یار حیران ہوتے ہیں کہ کس زمانے میں رہتے ہو۔ کیسا ایئر میل۔ یہ ای میل کا زمانہ ہے۔ زمانے کی اس برق رفتاری کو ہم دیکھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں ع

محو حیرت ہوںکہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں