سیاسی ’’بوکاٹا‘‘ کی گونج

جمہوریت تب ہوتی ہے جب ملکیت رکھنے والے مفلس و قلاش حکومت کرنے والے ہوں۔



KARACHI: تقریباً دنیا کو فتح کرنے والے سکندر ِ اعظم کے ہم عصر اور ہم مطب فلسفی افلاطون جمہوریت سے متعلق فرماتے ہیں کہ ''جمہوریت تب ہوتی ہے جب ملکیت رکھنے والے مفلس و قلاش حکومت کرنے والے ہوں''۔

اس لحاظ سے ملک میں واقعی جمہوریت ہے کیونکہ ہمارے یہاں کبھی کوئی غریب رہنما حکومت بنا ہی نہیں سکا ہے اور نہ ہی بنا سکتا ہے۔ ہمارا سیاسی نظام ہی ایسے مضبوط ستونوں و مستحکم جمہوری اُصولوں پہ نہیں کھڑا جس سے ملک کو ایسے حکمراں میسر ہوں، جو حلف لینے اپنی 'ذاتی بائی سائیکل 'پر آئیں اور مدت پوری ہونے کے بعد پھر 'کسی ریستوران میں کام کرتے نظر آئیں'۔ یہ سب تب میسر ہوسکتا ہے جب ''سیاست کو خدمت کا ذریعہ '' سمجھا جائے ۔ یہاں تو سیاست کو کمائی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

ملک کے 90فیصد کسان و مزدور پیشہ عوام پر ہمیشہ 10فیصد جاگیردار و سرمایہ دار ہی حکمران رہے ہیں ۔حقیقی معنوں میں جمہوری حکومتیں تو خیر اس ملک میں رہی ہی نہیں، لیکن نیم جمہوری ہوں یا آمرانہ حکومتیں ، سب کی سب اسی 10فیصد طبقے کے مفادات کے لیے ہی کام کرتی رہی ہیں ۔ تو یہ بھی دیکھا ہے کہ اگر غلطی سے کوئی متوسط طبقے کا فرد ایک مرتبہ کسی طرح حکومتی سیٹ اپ میں آجائے تو اس فرد کا پورے کا پورا خاندان بلکہ نسلیں بھی نئے جاگیردار یا نئے سرمایہ دار بن کر اُبھرتے ہیں ۔پھر اُن کے ملکی و غیر ملکی اکاؤنٹس و اثاثے اور کمپنیاں بن جاتی ہیں ۔

حالانکہ ارسطو جیسے علم سیاسیات کے ماہر مفکر و فلسفی کے استاد افلاطون کا ہی کہنا ہے کہ ''دنیا میں آج تک کوئی اچھا آدمی بہت تیزی سے امیر ترین نہیں بن سکا ہے ''، لیکن ہمارے یہاں انتخابی عمل کے نتیجے میں حکومت میں آنیوالے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو تو چھوڑیں غیر جمہوری طریقوں سے ملک کے حکمراں بننے والے سرکاری ملازمین کے خاندان اور فلاحی اداروں کے نام پر بھی، کئی خاندان بہت تیزی سے امیر سے امیر ترین بن گئے ہیں ۔کسی کی اولاد ، کسی کی بیوی تو کسی کی بہن و بھائی کے کاروبار سیٹ ہوگئے ہیں ۔ جس کی واحد وجہ ملک میں عوامی و اداراتی سطح پر مستحکم ، مؤثر و غیرجانبدارانہ احتساب نہ ہونا ہے ۔ جب کہ اسی احتساب کے نام پر کئی حکومتوں کا دھڑن تختہ ہوچکا ہے اور کئی حکومتوں کا تو قیام بھی اسی احتساب کے نام پر ہوا ہے لیکن خود احتسابی ، عوام کی خدمت اور فلاح کو شجر ِ ممنوعہ سمجھ کر چُھونے سے کترایا گیا ۔

ویسے بھی جب کوئی اپنا احتساب نہیں کرسکتا تو وہ کسی اور کا احتساب کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے ۔ ایسا کوئی ایک ہو تو اُس کے لیے کہا بھی جائے ، یہاں تو ''آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ''۔ ایسے میں ہر کوئی کمہار بن کر من پسند نیا آوا بنانے کی جستجو میں لگا ہوا ہے اور اُس کے لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ملک کا 3بار وزیر اعظم رہنے والا آدمی ہر بدعنوانی اور اقربا پروری و اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام کی بنیاد پر ہٹایا جاتا ہے اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ نیک و پارسہ بن کر سامنے آتاہے ۔ یہاں جسے 'خادم ِ اعلیٰ' کا لقب ملتا ہے وہی بڑا بدعنوان بن کر حوالات میں پہنچ جاتا ہے ۔

یہاں 30سال سے پارلیمنٹ کا رُکن اورایک بار ملک کا صدر رہنے والے شخص پر 10 پرسنٹ کا ٹھپہ لگا ہوتا ہے ۔ یہاں قول و فعل میں تضاد رکھنے والے آدمی کو یوٹرن لینے پر قائدانہ خوبیوں کا مالک قرار دیکر مسند پر بٹھایا جاتا ہے ۔ایسی ہی وجوہات کے باعث ٹھوس جمہوری طریقوں سے قائم ہونیوالے اس ملک میںعوامی مفادات اورجمہوریت ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہی ہے ۔جمہوریت اور جمہوری نظام سازشی و مفاد پرست طبقہ کے ہاتھوں کھلونہ بن کر رہ گیا ہے ۔ جب کہ عوام ایسے تماش بین ہیں ،جو اپنے ہی لٹنے کا تماشہ دیکھنے کے لیے اپنا مستقبل داؤ پر لگاتے ہیں اور عملی سیاست سے کنارہ کش رہتے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے قابلیت ، ایمانداری و فرض شناسی سے عاری لوگ ہی اس ملک کی مسند پر جلوہ فروز ہوتے رہتے ہیں ۔

موجودہ حکومت اپنے قیام سے ہی عوامی خدمت و فلاح اور شفافیت سے فرائض کی سرانجامی کو شجر ِ ممنوعہ سمجھتے ہوئے شوشوں ، روایتی انتقامی کارروائیوں اور 'الجھاؤ اور حکومت کرو' کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ حکومت کا تمام کام میڈیائی بھڑکیوں پر چل رہا ہے ۔ملک کو 70سال سے چلنے والی ڈگر کو ناکام قرار دیکر اُسے عوامی فلاح اور ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے والی تبدیلی کی بنیاد پر قائم پی ٹی آئی کی حکومت کے چھ ماہ ملکی تنزلی اور عوام کی مشکلات کا نمونہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ ان 6ماہ میں بجلی، گیس اور پیٹرولیم سمیت تمام چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کو ووٹ دینے کی سزا کا آغاز کیا گیا ، جس میں تازہ اضافہ آٹے اوردیگر خورو نوش کی اشیا اور ادویات تک پر ٹیکس کی شرح میں اضافے کی صورت میں نظر آیا ۔ اس کے باوجود شاید حکومت کا پیٹ نہیں بھرا ، اسی لیے کچھ دنوں سے پھر بجلی کے نرخوں میں اضافے کی باتیں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں ۔ جو حکومت 2، 4ماہ کی معاشی پالیسی کا ادراک نہیں رکھتی وہ بھلا کس طرح معاشی طور پر دلدل میں دھنسے ملک کو خیرو عافیت سے نکال پائے گی ؟

موجودہ حکومت کی وجہ سے ملک میں انتہائی بدترین معاشی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ اسٹیٹ بینک کی جولائی تا دسمبر 2018تک کی ششماہی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2018-19میں بیرونی سرمایہ کاری میں 3ارب ڈالر تک کمی آئی ہے جوکہ تقریباً 77%ہے ، یعنی ان 6ماہ میں صرف 90کروڑ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے جوکہ گذشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران3ارب 95کروڑ ڈالر تھی ۔ حالانکہ وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے قیام کے ابتدائی دنوں میں بیرون ِ ملک پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کے ساتھ 'بزنس ڈیسک ' قائم کی تھی ، پھر بھی 77فیصد تک ہونے والی اس کمی سے حکومت کے معاشی منیجرز کی ناکامی ہے ۔ یعنی موجودہ حکومت کے پاس نہ تجربہ ہے اور نہ ہی کوئی جامع منصوبہ بندی ۔ اسی وجہ سے حکومت کی معاشی پالیسی کا ابھی تک تعین بھی نہیں ہوسکا ہے ۔

4ماہ میں اسٹیٹ بینک سے 1400ارب روپے کا قرضہ لینا ، کھربوں روپے کے نئے نوٹ چھاپنا اورصرف 6ماہ کی قلیل مدت میں دوسرے منی بجٹ سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت عالمی سرمایہ کاری و خارجہ اُمور میں اپنی ناکامی کا بوجھ عوام پر ڈالنا چاہتی ہے ۔ ملکی کرنسی کی مالیت میں کمی اور آئی ایم ایف سے معاملات طے نہ ہونے کی وجہ سے معاشی عدم استحکام میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ عالمی سطح پرتنہائی کا شکار پاکستان مزید تنہا ہوتا جارہا ہے۔ داخلی و خارجہ پالیسی ، معاشی پالیسی اور انتظامی اُمور و بین الصوبائی ہم آہنگی کے تمام معاملات میں ناکامی کی شکار حکومت صرف ایک ہی محاذ پر کامیاب نظر آتی ہے ، اور وہ ہے سیاسی تکرار میں اضافہ کرکے ملکی صورتحال کو خراب کرنا ۔ تمام وزراء کا زور سیاسی ماحول کو خراب کرنے ، این آر او مانگنے کی غلط بیانیاں اور کرپشن کے خلاف حسب ِ معمول شور شرابہ کرنے پرہے ۔

ایک طرف وفاقی وزراء کی جانب سے سندھ حکومت کو گیس کا غبارہ قرار دیکر کسی بھی وقت ہوا نکالنے کے بیانات متواتر دیے جارہے ہیں، تو دوسری جانب سندھ کے صوبائی وزراء بھی اُن کے صوبہ میں آنے پر پابندی لگانے اور وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کو'' گرتی ہوئی دیوار'' قرار دیکر ''ایک دھکا اور'' دینے کے محاورے استعمال کررہے ہیں ۔ جہاں تک بات ہے صوبائی حکومت گرانے کی تو اُس کے لیے صوبائی اسمبلی ہی واحد فلور ہے، جہاں سے آئینی طریقے سے تبدیلی ممکن ہے ۔ لیکن اُس کے لیے پی ٹی آئی کو سندھ اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے ، جوکہ سندھ اسمبلی کی موجودہ صورتحال میں نظر نہیں آتی ۔ سندھ اسمبلی میں حکومتی جماعت یعنی پی پی پی کے پاس 90اراکین اپنے موجود ہیں ، جس وجہ سے اُس کی حکومت مضبوط ہے اور حزب اختلاف کے تمام ارکان ملاکر بھی اُس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔

اس صورتحال میں صرف غیر آئینی و غیر اخلاقی طریقہ کار سے یہ ممکن ہوسکتا ہے ۔ جس سے پی پی پی کو نقصان پہنچنے کے بجائے فائدہ ہی ہوگا ۔ پی پی پی سندھ کے عوام کی نظروں میں ستم زدہ و حق سے محروم کی گئی جماعت کے طور پر اُبھر کر سامنے آجائے گی ۔جو کہ اس وقت اپنی ناقص کارکردگی ، روایتی سست روی اور صوبہ کے دیرینہ مسائل کے حل سے فراریت کے باعث سندھ میں اپنی سیاسی طبعی موت کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن پی ٹی آئی حکومت کی یہ غیر دانشمندانہ و زبانی جمع خرچ پر مبنی پالیسی پی پی پی کو خود کو Defendکرنے کے لیے آکسیجن فراہم کر رہی ہے ۔ کیونکہ اب تو نیب اور سپریم کورٹ نے بھی پی پی پی قیادت کے خلاف کارروائی پر حکومتی رویے کا نوٹس لے لیا ہے ۔ ایسے میں پی ٹی آئی کو اپنی غلطی کا احساس ہوجانا چاہیے لیکن اُن کی ''میں نہ مانوں '' والی Theoryاُن کے تدبر کا بھانڈا پھوڑتی نظر آرہی ہے ۔

سندھ ایک حساس صوبہ ہے ، جو گذشتہ 70سال سے سیاسی و جمہوری مزاحمت کی علامت بنا ہوا ہے ۔پی پی پی کی آڑ میں اُس کے خلاف حکومت کی بدکلامی کہیں ملکی سلامتی کے مسائل میں اضافہ نہ کردے ۔جب کہ سندھ میں 1990کے طرز عمل پر ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد پر حکومت قائم کرنے سے قبل جام صادق کی حکومت کے اس دور کے بھیانک نتائج کو ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ اس لیے صوبہ سندھ میں منتخب حکومت کے خلاف مرکزی حکومت کی یہ مہم جوئی کسی طور پر بھی ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ دوسری طرف اگر وفاقی حکومت کے سیٹ اپ پر نظر ڈالی جائے تونظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس 177 نشستیں ہیں جو کسی بھی قانون سازی کے لیے مطلوبہ تعداد بھی پوری نہیں کرتیں ۔ جب کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی 159 نشستیں ہیں ۔ یعنی حکومت کو ملکی مسائل کے سنجیدہ اور مؤثر حل کے لیے مطلوبہ قانون سازی کے لیے حزب ِ اختلاف کی حمایت درکار ہوگی، جوکہ حکومتی وزراء بشمول وزیر اعظم کے جارحانہ طرز عمل سے کبھی ممکن نہیں ہوسکتا ۔جب کہ مرکزی حکومت کا اقتدار اتحادی جماعتوں کے رحم و کرم پر کھڑا نظر آتا ہے ۔ کسی بھی اتحادی جماعت کے ارکان کی معاونت ختم ہوجانے سے اُس کا دھڑن تختہ باآسانی ہوسکتا ہے ۔ جس کا آغاز بی این پی کی جانب سے علیحدگی کی صورت میں نظر آنے لگا ہے ۔

وفاقی حکومت کا جارحانہ رویہ نہ صرف اُسے ملکی مسائل و درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے مطلوب قومی یکجہتی سے کوسوں دور لیے جا رہا ہے بلکہ 70سال سے صوبوں اور وفاق کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی میں پھر سے نئی روح پھونکنے کا بھی باعث بن رہا ہے ۔ اسی وجہ سے تجزیہ کار اس تشویش کااظہار کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی طرز حکمرانی سے ملک کو خطرات کا سامنا ہے ، وہ سیاسی جمہوری نظام کو اپنی خوش فہمی ، ناتجربہ کاری سے کسی ایسے غیرجمہوری طوفان یا بھنور کی لپیٹ میں نہ لے آئے جہاں سے نکلنے کے لیے پھر نہ جانے کتنا عرصہ درکار ہوگا ۔ اور یہ بھی نظر آرہا ہے کہ ویسے تو عوام حکومت کے خلاف حزب ِ اختلاف کی جماعتوں کا ساتھ شاید نہ دیں لیکن حکومت کی جانب سے مہنگائی کے اس برپا کیے جانے والے طوفان پرکہیں عوام مرکزی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نہ آجائیں۔!

جمہوری نظام کا پہلا نکتہ ہی یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے ۔پھر کیوں پی ٹی آئی کو پی پی پی کا مینڈیٹ تسلیم نہیں ؟ ویسے بھی اگر سانحہ بلدیہ اور12مئی ، منی لانڈرنگ سمیت کئی واقعات ومقدمات اور کرپشن میں ملوث ایم کیو ایم کے سیاسی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے لیے اُن کے جائز و ناجائز مطالبے پورے کیے جارہے ہیں ، تو پھر پی پی پی تو اس سے زیادہ مینڈیٹ رکھنے والی آئینی طور پر حکومتی جماعت ہے ۔ مرکزی حکومت کو کم از کم اختر مینگل کے حکومت سے علیحدہ و آزاد نشستوں پر بیٹھنے کے اعلان سے ہی اپنی حکومتی کمزوری کا احساس ہوجانا چاہیے اور اخلاقی و جمہوری سیاست کو بھی سمجھنا چاہیے کہ کس طرح مینگل صاحب نے حکومت سے علیحدگی کے باوجود اُسے گرانے کی تردید کی ہے ۔ پھرکیوں پی ٹی آئی کی تمام مشنری تمام ملکی اُمور چھوڑ کر صرف سندھ کی صوبائی حکومت کو گرانے میں مصروف نظر آتی ہے ؟

جہاں تک بات ہے تبدیلی کی ، تو اگر موجودہ وفاقی حکومتی کارکردگی اور ملکی مسائل کے ساتھ کیا جانے والا کھلوار ہی تبدیلی ہے ، تو ایسی تبدیلی سے بس بھلی ۔! اس سے سندھ کے عوام کے روایتی سیاسی تدبر کا بھی پتا چلتا ہے کہ انھوں نے پی ٹی آئی کی اس نام نہاد تبدیلی کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا ، اوراپنے ووٹ کا استعمال انھوں نے باقی ملک میں اُٹھنے والی پُر فریب لہر کے برخلاف کیا ۔

یہ ساری صورتحال ان خدشات کو جنم دے رہی ہے کہ کیا موسم سرما کے بعد آنیوالی بسنت کی رُت میں ثقافتی تہوار میں پتنگوں کی 'بوکاٹا ' کے شور کے بجائے ایوانی سیاستی کھیل میں 'یہ گیا ' اور 'وہ گیا' کے ہنگامہ کے بعد پی پی پی کی سندھ حکومت یا پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کا سیاسی حکومتی 'بوکاٹا ' ہونے والا ہے ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں