پولیس یا غنڈہ بریگیڈ

سانحہ ساہیوال نے جہاں کئی سوالات کو جنم دیا ہے، وہیں پولیس اور عوام کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھا دیا ہے


موسیٰ غنی January 22, 2019
سانحہ ساہیوال نے جہاں کئی سوالات کو جنم دیا ہے، وہیں پولیس اور عوام کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کہتے ہیں جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، مگر شاید بے حس اور بے غیرت لوگ اس کو جھٹلانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ سانحہ ساہیوال میں ملوث قاتلوں کی پشت پر حکومتی سرپرستی اس بات کا ثبوت ہے کہ مدینہ کی ریاست کا خواب ابھی تعبیر ہونے میں مزید وقت درکار ہے۔ سانحات جب رونما ہوتے ہیں تو حکومتی ادارے، قوم اور عدلیہ پر سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ مگر جب اِن سانحات پر سیاست ہونے لگے، معاملات کو بالاِطاق رکھا جانے لگے تو پھر یاد رکھیں! الزامات، منفی ذہنیت اور المناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔

ہم گزشتہ کئی برسوں سے سانحات کا شکار ہیں۔ کبھی میر مرتضیٰ بھٹو کی صورت، کبھی اکبر بگٹی، کبھی نقیب اللہ محسود، کبھی انتظار حسین تو اب سانحہ ساہیوال... اس حادثے نے کسی کی روح کو جنجھوڑا ہو یا نہ ہو، مگر ملک خداداد کے عام عوام ضرور جاگ گئے ہیں۔ لیکن ہم سانحات ہونے کے بعد ہی کیوں جاگتے ہیں، یہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔

پولیس کی بے حسی اور عوامی ردعمل سے ایک بات بلکل واضح ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ بھانپ لیا ہے کہ وہ آزاد اور بے لگام ہیں، کسی کو کہیں بھی کسی بھی اور کیسے بھی قتل کرنے کا لائسنس رکھتے ہیں۔ متاثرہ فریق تھوڑا طاقتور ہو تو ایف آئی آر درج کردیتے ہیں، ورنہ غریب عام آدمی کے لیے تو اتنی بھی سہولت نہیں۔ شہریوں کو گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے اور قتل کر کے دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے جس کا نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ نوٹس لینے والا۔

سانحہ ساہیوا ل میں بیانات تو کئی بار تبدیل ہوئے، مگر ایک بات غور کرنے کی تھی کہ ہم انتہائی مطلوب اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو تو گرفتار کرلیتے ہیں، مگر ایک عام سا نام نہاد دہشتگرد جس پر ابھی صرف الزام کی حد تک کا معاملہ ہے، اس کو گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں۔ وہ بھی ایسے حالت میں کہ جب وہ اپنی پوری فیملی یا گھرانے کے ساتھ تھا، جس میں بچے بھی تھے اور خواتین بھی۔ بد سے بدتر معاشرہ بھی خواتین اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے کہ وہ محفوظ رہیں، مگر ہماری پولیس اور اس کے ذیلی ادارے جنگل میں رہنے والے جانوروں سے بھی بدتر ہیں جو زخمی جانور پر حملہ نہیں کرتے۔ یہ ہمارے نظام کی سفاکی ہے یا حکومتی نااہلی، اس کا فوری پتہ لگانا اور معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانا ناگزیر ہے۔ کیونکہ معاشرے کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں، مگر ظلم کے ساتھ نہیں۔

سندھ پولیس ہو یا پنجاب پولیس، دونوں نے گزشتہ سال ہزاروں آپریشنز کیے، کچھ کامیاب ہوئے اور کچھ ناکام بھی ہوئے ہونگے۔ مگر اب سانحہ ساہیوال نے ان آپریشنز پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ وہ تمام لوگ جو آپریشن میں قتل کیے گئے دہشت گرد تھے یا پولیس افسران و اہلکاروں کی ذاتی چپقلش کا نتیجہ؟ سانحے نے جہاں سوالات کو جنم دیا ہے وہیں پولیس اور عوام کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ مہذب دنیا میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے عدالتی کارروائیاں کی جاتی ہیں، مگر ہماری عدالتی کہانی ہو یا حکومتی، ایک ہی سا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ نقیب اللہ محسود کا قتل آج تک عدالت کے چکر کاٹ رہا ہے، انتظار قتل کیس بھی انصاف کے انتظار میں ہے جہاں والدین اپنے بچوں کے انصاف لیے آج بھی تڑپ رہے ہیں، مگر عدالتیں اور حکومتیں صرف دلاسے دے رہی ہیں۔ نہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی کوئی سزا ملی۔

واپس کیس کی طرف آتے ہیں جہاں سوالات کی ایک گتھی الجھی پڑی ہے، جبکہ جواب نامعلوم ہے۔ سانحہ کی ایف آئی آر دو طرفہ ہیں، سی ٹی ڈی نے مقتولین کے خلاف درج کرائی ہے جبکہ لواحقین نے سی ٹی ڈی کے خلاف۔ مگر ستم بلائے ستم یہ ہے کہ ملزمان کو اس ایف آئی آر میں بھی نامعلوم رکھا گیا ہے جو اس سے قبل گزشتہ تمام مقدمات میں رہے ہیں۔ اب بھلا کوئی پنجاب پولیس سے پوچھے کہ کیا مقابلوں میں نامعلوم افراد حصہ لیتے ہیں، یا جن کے نام پتہ سب معلوم ہوں، بلکہ سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہوں، وہ؟

وزیراعظم اور ان کے وزیروں، مشیروں نے جے آئی ٹی تو تشکیل دے دی ہے، مگر یہ کیوں دھیان نہیں گیا کہ اب تک کتنے کیسوں کی جے آئی ٹی عوام کے سامنے لائی گئی اور کتنوں کو سزا دی گئی؟

اب وہ احوال بیان کرتے ہیں جو پولیس نے سانحہ ساہیوال میں انجام دیا۔ سی ٹی ڈی پولیس کی جانب سے ایک گاڑی پر فائرنگ کردی گئی جس میں معجزاتی طور پر تین بچے محفوظ رہے، البتہ چار افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ جبکہ پولیس کے اعلیٰ اہلکار بچوں کو ایک پیٹرول پمپ پر چھوڑ کرفرار بھی ہوگئے جس میں ایک بچہ زخمی تھا۔ میڈیا پر خبر چلی تو سی ٹی ڈی کی دوڑیں لگ گئیں، بچوں کو اسپتال پہنچایا گیا اور پھر جب پولیس کے کارنامے کا پول کھلنا شروع ہوا تو متضاد بیانات کی بارش ہوگئی، کبھی موقف اختیار کیا گیا کہ دہشت گرد تھے، کبھی ان کو اغواء کار بنایا گیا۔ حتیٰ کہ بے قصور مقتولین کا تعلق عالمی دہشت گرد تنظیم داعش تک سے جوڑ دیا گیا۔ مگر زخمی بچے کا بیان کچھ یوں تھا کہ ''میرے پاپا معافی مانگ رہے تھے، اور پیسے دینے کا بھی کہا؛ مگر انھوں ہم پر گولیاں چلادیں۔'' اب اس بات کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں کہ پولیس کی کارکردگی کیا ہے۔

ان بیانات کو مدنظر ر کھا جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اکبر بگٹی، نقیب اللہ، انتظار حسین اور اب یہ سانحہ ساہیوال ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں، بس کراداروں کا فرق ہے۔ اب کوئی بھلا بتائے ان اہلکاروں کو محض معطل کر کے کیا فائدہ؟ سوال یہ ہے کہ کس کی جانب سے حکم دیا گیا اور کس کے کہنے پر سی ٹی ڈی نے کارروائی کی؟ جب تک اس کا پتہ نہیں لگایا جاتا اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی، تب تک انصاف اور مدینے جیسی ریاست کی باتیں سیاسی بیان بازی سے سوا کچھ بھی نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں