تحریک انصاف کو زیادہ نقصان گروپنگ کی وجہ سے ہوا عمر سرفراز چیمہ

پارٹی کے بہت سے لوگ چیئرمین عمران خان کے پاس جا کر ایک دوسرے کی برائیاں کرتے ہیں۔


بانی رہنما و سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات پاکستان تحریک انصاف عمر سرفراز چیمہ سے گفتگو

بلاشبہ جمہوریت کو بہترین طرز حکمرانی قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ تعریف سے لے کر عمل درآمد تک اس میں مرکزی اہمیت عوام ہی کو حاصل رہتی ہے۔ اور سیاسی جماعتیں اس طرز حکمرانی کے لئے ماتھے کا جھومر تصور کی جاتی ہیں تاہم افسوسناک صورت حال اس وقت بنتی ہے جب سیاسی و جمہوری پارٹیوں کے اندر جمہوریت کا فقدان ہو

۔ وطن عزیز کی بات کی جائے تو تقریباً دو عشروں قبل تک یہاں سیاسی قوتیں جمہوریت کی ایک علامت، انتخابات یعنی اقتدار کی منتقلی کے ذریعے پر تو متفق ہوتی تھیں لیکن وہ اپنے رویّے سے جمہوریت کا ثبوت دینے سے قاصر رہیں۔ جمہوری پارٹیاں اپنے نظریات، منشور اور جمہوری روایات کے بجائے شخصیات کی محافظ بن بیٹھیں۔

موروثی سیاست کا استعارہ دو بڑی پارٹیاں حکمرانی کو اپنا حق قرار دیتے ہوئے باریاں لیتی رہیں، لیکن پھر سومنات کے بت توڑنے کا عزم لئے ایک شخص اٹھا، جس کا مطمع نظر دہائیوں سے غربت، ذہنی غلامی اور ناانصافی کا شکار قوم کے حقوق اور عزت نفس کی بحالی تھا۔ اس شخص کا نام عمران خان ہے، جنہوں نے 25 اپریل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔

پاکستان کو اسلامی نظریات کے مطابق ایک فلاحی ریاست بنانے کے لئے اس جماعت نے جب باقاعدہ سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا، تو اس لڑی میں ایسے ایسے موتی پرِتے چلے گئے کہ جن کے لئے یہ مشن ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا۔ ایسے ہی کہنہ مشق افراد میں سے ایک نام عمر سرفراز چیمہ کا ہے، جنہوں نے اس وقت تحریک انصاف کے دفاع کا محاذ سنبھالا جب لوگ شائد اس پارٹی کو بنانے کے مقاصد کو دیوانے کی بڑ سمجھتے تھے۔

عمر سرفراز چیمہ نے جولائی 1969ء میں ایک فوجی افسر میجر سرفراز احمد چیمہ کے گھر آنکھ کھولی۔ والد فوج ہونے کی وجہ سے ان کی ابتدائی سکولنگ مختلف مقامات یعنی منگلا، کوئٹہ، مری، گوجرانوالہ اور لاہور میں ہوئی، گریژن بوائز سکول سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج،لاہور سے گریجوایشن اور پنجاب لاء کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ دو بھائیوں میں بڑے عمر چیمہ میڈیکل گراؤنڈز پر چاہ کر بھی فوج میں شمولیت اختیار نہ کر سکے اور آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کاشت کاری کے شعبہ کو منتخب کر لیا، جس کے کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے اپنے شوق کے عین مطابق سیاست میں قدم رکھ دیا۔ تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور عمران خان کے ترجمان کی حیثیت سے انہوں نے ہر پلیٹ فارم پر اپنی پارٹی کا مقدمہ ایسے لڑا کہ جسے جھٹلایا نہ جا سکے۔ تحریک انصاف کے پودے کو اپنا خون پسینہ دے کر آج تناور درخت بنانے میں ان جیسے لوگوں کا ہی ہاتھ ہے۔

قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں تحریک انصاف کا علم تھام کر پھرنے والے عمر سرفراز چیمہ تین بار (1997،2002،2004) پنجاب اسمبلی کے لئے اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔ سینئر رہنما نے وقت ھذا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے نشیب و فراز کو نہ صرف بڑے قریب سے دیکھا بلکہ پارٹی کی وجہ سے متعدد بار انہیں شدید مشکلات سے بھی دوچار ہونا پڑا، لیکن انہوں نے اپنے غیر متزلزل عزم سے ہمیشہ ثابت قدمی کا ثبوت دیا۔ تاہم سیاسی و عوامی حلقوں میں اب یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ تحریک انصاف نے نام نہاد معروضی حالات کا بہانہ بناتے ہوئے انتخابات جیتنے اور اقتدار میں آنے کے لئے ''الیکٹیبیلز'' کے نام پر ابن الوقت سیاست دانوں کو اہمیت دے کر عمر سرفراز چیمہ جیسے مخلص اور دیرینہ ساتھیوں کو نظرانداز کر دیا۔ یہ اور اس جیسے بہت سارے سیاسی سوالات اور موجودہ سیاسی منظر نامہ پر اظہار خیال کے لئے ''ایکسپریس'' نے سینئر سیاست دان، بانی رہنما و سابق سیکرٹری اطلاعات پاکستان تحریک انصاف عمر سرفراز چیمہ سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جو نذرِ قارئین ہے۔

ایکسپریس: سیاسی زندگی کا آغاز کب اور کیسے کیا؟

عمر چیمہ:میرے والد فوج جبکہ چچا اور ماموں ائیر فورس میں تھے، پھر فوجی ماحول اور سکولنگ کی وجہ سے میں بھی فوج ہی جوائن کرنا چاہتا تھا، لیکن تیراک ہونے کے باعث میرے کان میں کچھ مسئلہ پیدا ہوگیا،جس کی وجہ سے میں فورسز کو جوائن نہیں کر سکا۔ جس کے بعد میں فارمنگ کے شعبے میں چلا گیا، جو تقریباً 20 سال تک میں نے کی۔ سیاست کا مجھے شوق تھا اور میرے خاندان میں بہت سارے لوگ پہلے ہی اس میدان میں برسرپیکار تھے۔ ہاں جہاں تک بات ہے کہ کسی اور جماعت کے بجائے پی ٹی آئی میں شمولیت کی تو اس کی وجہ وہ میرا وقت تھا، جو میں نے کاشت کاری کے سلسلہ میںدیہات میں گزارا، لاہور میں تو رات کو بھی دن کا سماں ہوتا ہے، لیکن دیہات میں بنیادی سہولیات سے محروم لوگوںکے لئے دن کی روشنی میں بھی اندھیرے ہی اندھیرے تھے۔

اس صورت حال پر میں بہت کڑتا تھا اور سوچتا تھا کہ کوئی ایسا ہونا چاہیے جو ذاتی مفادات کے بجائے حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کا جذبہ لے کر سیاست کے میدان میں اترے۔ اسی اثناء میں 1996ء میں عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھ دی، اور دنیا جانتی ہے کہ عمران خان وہ شخص ہے، جو حقیقی معنوں میں عوام کے لئے کچھ کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ وزیرآباد سے میں نے تنظیمی جدوجہد کا آغاز کیا، میں وہاں کی آرگنائزنگ کمیٹی کا ممبر بنا، اس دوران بے نظیر کی حکومت ختم ہو گئی اور میں نے ایم پی اے کے ٹکٹ کے لئے درخواست دے دی۔ اچھا! یہاں ایک مزے دار بات یہ ہے کہ اس وقت تک میری عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ان سے پہلی ملاقات 3 جنوری 1997ء میں اس وقت ہوئی، جب وہ وزیرآباد میں جلسے کے لئے آئے۔ میں نے تحصیل لیول سے کام شروع کیا اور پھر مرکز تک گیا۔ میں خان صاحب کا پولیٹیکل سیکرٹری رہا، پنجاب میں پارٹی کا جنرل سیکرٹری رہا اور پھر مرکز میں 5 سال تک سیکرٹری اطلاعات رہا۔

ایکسپریس:آپ جیسے کہنہ مشق لوگوں کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کا پودا آج تناور درخت بن کر دنیا کے سامنے موجود ہے، لیکن اس کے قیام کے دوران آپ کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا؟

عمر چیمہ:دیکھیں! تحریک انصاف ایک ایسی پارٹی تھی، جس میں یہ استطاعت شروع سے دکھائی دے رہی تھی کہ وہ اس نظام کو بدل دے گی، لیکن ہمیں اوپر نہیں آنے دیا گیا۔ ابتدائی دنوں میں جب ہم لوگوں سے رابطہ کرتے تھے تو وہ کہتے تھے یہ ٹانگہ پارٹی ہے اور وہ ہمارا مذاق اڑاتے تھے۔ ہمارے لئے ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ ہم نے ایسے سوئے ہوئے لوگوں کو جگانا ہے، جن کو سیاست سے دلچسپی ہی نہیں تھی۔ ہمیں محدود وسائل کا مسئلہ بھی درپیش تھا، جس کا ہم سب نے مل جل کر سامنا کیا۔ مجھے یاد ہے کہ 97ء کے الیکشن کی وجہ سے جو قرضہ ہم پر چڑھا وہ ہم نے پارٹی کی ایک دو گاڑیاں بیچ کر اتارا۔

ایکسپریس:آپ نے کہا کہ پارٹی کی گاڑیاں بیچ کر قرضے ادا کئے گئے تو بعدازاں تحریک انصاف کے حوالے سے جو اے ٹی ایم مشینوں کی بات کی گئی تو پھر کیا ان لوگوں کو پارٹی میں لینے کا فیصلہ انہی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کیا گیا؟

عمر چیمہ:نہیں! یہ سارا پراپیگنڈا ہے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ جب ہم تنظیم سازی اور الیکشن میں گئے تو ہمارے لئے محدود وسائل ایک بڑا چیلنج ضرور تھا، لیکن ہمیں لوگ اس وقت بھی سپورٹ کرتے تھے، جو زیادہ نہیں ہوتی تھی، لیکن جب پارٹی نے خود کو ملکی سطح پر منوایا تو پھر لوگ کے اعتماد میں اضافہ ہوا، یوں پھر لوگوں نے اپنا مال، جان اور وقت سب کچھ پارٹی کے لئے لگایا۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ پیسوں کے لئے سرمایہ داروں کو شامل کیا گیا تو یہ درست نہیں کیوں کہ ہمارے لئے جس شخص نے اپنے دو سو روپے میں سے ایک سو پارٹی کو دیا تو وہ اربوں روپے کمانے والے کی طرف سے دیئے گئے لاکھوں روپے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ رہی بات بندوں کی تو جب یہ لوگ اُن کے ساتھ تھے تو یہ وزیر بھی تھے، مشیر بھی تھے، انہیں بہت اچھا تصور کیا جاتا تھا، لیکن ہمارے ساتھ آنے پر یہ برے بن گئے۔

ایکسپریس:تحریک انصاف ایک جمہوری پارٹی ہے اور جمہوریت کو آمریت کی ضد کہا جاتا ہے، لیکن جب ہم تحریک انصاف کو جنرل مشرف (ریفرنڈم) کی حمایت کرتا دیکھتے ہیں یا آج اسٹیبلیشمنٹ کی پشت پناہی کا تاثر ملتا ہے تو اس کی آپ کیا دلیل دیں گے؟

عمر چیمہ:دیکھیں! پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی اسٹیبلیشمنٹ کی اہمیت سے آپ انکار نہیں کر سکتے، دوسرا تحریک انصاف یا عمران خان نے اگر کسی سہارے کے ذریعے ہی اقتدار میں آنا ہوتا تو ہمیں 22 سال جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم نے ایک مسلسل کوشش اور محنت کے ذریعے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ مشرف نے تو بہت پہلے عمران خان کو وزیراعظم بننے کی آفر کی لیکن انہوں نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

ایکسپریس:''الیکٹیبلز'' کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد کیا آپ مختلف معاملات میں پارٹی کے اندر ہونے والی مشاورت اور فیصلہ سازی میں ان کے اثر ورسوخ کی وجہ سے کوئی فرق محسوس کرتے ہیں؟

عمر چیمہ:عمران خان مشاورت پر یقین رکھتے ہیں اور پہلے دن سے ہی پارٹی میں مشاورت سے فیصلے سے کرتے چلے آئے ہیں۔ اب بھی یہی ہوتا ہے۔ ہاں اب نئے اور زیادہ تجربہ کار لوگوں کے آنے سے مشاورت کے نتیجے میں مزید بہتر رائے سامنے آتی ہے اور فیصلہ سازی میں آسانی ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کئی بار وقت وحالات کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہو کہ کوئی فیصلہ ٹھیک نہیں تھا تو اس کو بدل بھی لیتے ہیں۔

ایکسپریس:اس تاثر میں کہاں تک صداقت ہے کہ تحریک انصاف نے اقتدار کے حصول کے لئے اپنے بہت سارے دیرینہ کارکنوں کو نظرانداز کردیا، جن میں آپ بھی شامل ہیں؟

عمر چیمہ:جو ٹیم کا کپتان ہوتا ہے یہ فیصلہ اس نے کرنا ہوتا ہے کہ کس کھلاڑی کو کس پوزیشن پر کھلانا ہے۔ ہم آج بھی خان صاحب کی ٹیم کا حصہ ہیں، وہ جب اور جہاں ہماری ضرورت محسوس کریں گے ہمیں ذمہ داریاں سونپ دیں گے۔ میرا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ شروع میں تحصیل کی سطح سے لے کر بعد میں مرکزی سطح تک جو بھی ذمہ داری مجھے دی گئی میں نے صدق دل سے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔

ایکسپریس:تو پھر تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر جیسے لوگوں کو پارٹی سے کیوں نکال دیا جاتا ہے جنہیں یہ تحفظات ہیں کہ پارٹی اپنے اصل مقاصد سے ہٹ گئی ہے ؟

عمر چیمہ:اکبر ایس بابر ہمارے ایک اچھے ساتھی ہیں لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ آپ کو پارٹی سے جو بھی اختلاف ہو اس کا اظہار پارٹی کے اندر کرنا چاہئے ناکہ اسے باہر جا کر اور میڈیا میں اچھالا جائے۔ اس طرح پارٹی کو نقصان ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اس معاملے میں یہی ہوا جس کا مجھے ذاتی طور پر بہت افسوس ہے۔

ایکسپریس:جتنی مشقت اور جدوجہد آپ نے تحریک انصاف کے لئے کی، اس کے باوجود آپ کو کوئی بڑا عہدہ نہیں دیا گیا، کیا کسی اور جماعت نے آپ کو جوائن کرنے کی دعوت نہیں دی؟

عمر چیمہ:جی مجھے 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں کی طرف سے آفر ملی مگر بات یہ ہے کہ میرا تحریک انصاف میں آنے کا مقصد کوئی وزیر یا مشیر بننا نہیں تھا، میں نے تحریک انصاف کو ایک کاز کے لئے جوائن کیا تھا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے عزت بھی دی ہے اور خوشحالی بھی۔ میرا مسئلہ عہدہ نہیں بلکہ عوام کی خدمت ہے۔

ایکسپریس:عمران خان سے تعلقات کی بات کی جائے تو آپ کو آج ان کے رویے میں کوئی تبدیلی محسوس ہوتی ہے؟ آپ ان کے اتنے قریب رہے، ان کے ترجمان اور اتنے اہم پارٹی عہدے پر بھی تھے پھر بھی آپ کو ان سے وقت لینا پڑتا ہے؟

عمر چیمہ:عمران خان الحمدللہ آج ملک کے وزیراعظم ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی مصروفیات کی وجہ سے ان سے ملنے کے لئے وقت تو لینا ہی پڑتا ہے۔ ان سے ملنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ اگر مجھے ان سے ملنا ہو تو میں بھی اس طریقہ کار کو ہی اختیار کروں گا۔ ہاں جب وہ خود بلاتے ہیں تو اور بات ہے۔ جیسا کہ انہوں نے مجھے اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی تھی۔

ایکسپریس:آپ عمران خان کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ وہ کانوں کے کچے ہیں، جلد غصے میں آ جاتے ہیں اور انہیں لوگوں کی زیادہ پرکھ بھی نہیں۔ ان باتوں میں کتنی صداقت ہے؟

عمر چیمہ:میرا تجربہ کیونکہ زیادہ تر تنظیمی معاملات کے حوالے سے ہے تو میں آپ کے اس سوال کا جواب اسی کی روشنی میں دوں گا۔ کسی بھی ادارے یا تنظیم میں مختلف طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر اپنی کارکردگی بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور جو اصل میں دل سے کام کر رہا ہو، اس کے مخالفین زیادہ ہوتے ہیں۔ عمران خان کے پاس جا کر بھی بہت سے لوگ ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ میں نے پچھلے بیس بائیس سالوں میں یہ دیکھا ہے کہ خان صاحب ان باتوں پر دھیان دینے کی بجائے ایک سچے لیڈر کی طرح بس اس بات کے لئے کوشاں رہتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے نظریے کا ہم خیال بنانے کے لئے قائل کریں۔

ایکسپریس:جب آپ کو خیبرپختونخوا میں اقتدار ملا تھا تو آپ نے ایک احتساب کمیشن بنایا تھا لیکن بعدازاں آپ نے خود ہی اسے ختم کر دیا، اس کی کیا وجہ تھی؟عمر چیمہ:اس کا جواب عمران خان پہلے بھی کئی مرتبہ دے چکے ہیں۔ اس میں مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان پر باری باری مسلط ہونے والے کرپٹ ٹولے نے اپنے آپ کو پاک صاف اور یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ خود کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھتے، ایسے قوانین بنائے کہ جن میں خود کو بچانے کے لئے بہت سے چور راستے چھوڑ دیے۔ ان قوانین کے تحت تین لیولز پر احتساب کا ڈرامہ کیا جا رہا تھا۔ ایک احتساب کمیشن، ایک اینٹی کرپشن اور ایک نیب۔ ہم نے جب خیبرپختونخوا میں احتساب کمیشن کا تجربہ کیا تو ان مختلف اداروں کے قوانین اس میں آڑے آنے لگے۔ ہم نے اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس لئے اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ نیب کے قوانین میں اصلاحات کی جائیں کیونکہ یہ بہت ضروری ہے۔

ایکسپریس:پارٹی معاملات کو میڈیا میں ڈسکس کرنے کی بناء پر آپ کو وارننگ یا کوئی شوکاز نوٹس دیئے بغیر پارٹی ترجمان کے عہدے سے ہٹایا گیا؟ اس رخصت کی وجہ واقعی یہی تھی یا پردے کے پیچھے کچھ اور بھی چل رہا تھا؟

عمر چیمہ:نہیں، یہ میرے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ میں انٹرا پارٹی الیکشن میں مخدوم جاوید ہاشمی کے مقابلے پر پارٹی صدارت کا امیدوار تھا۔ جب اسی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگے اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا گیا تو میں نے اس کمیشن میں درخواست دائر کی۔ کمیشن نے میرے حق میں فیصلہ دیا۔ فیصلے کے بعد میں نے کمیشن کو ایک خط لکھا کہ جس الیکشن کمیشنر یعنی حامد خان صاحب نے یہ پارٹی الیکشن کروائے ہیں آپ انہیں بھی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے عہدے سے ہٹائیں۔ میرا وہ خط کراچی میں کمیشن کے دفتر سے کسی طرح میڈیا کے ہاتھ لگ گیا جس پر پارٹی میں میرے مخالف گروپ نے یہ جھوٹا پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ میں نے خود وہ خط میڈیا کو دیا ہے۔ میں خود پارٹی کا سیکرٹری اطلاعات رہا ہوں، مجھے ان نزاکتوں کا مکمل ادراک ہے کہ کون سی بات میڈیا میں کرنے کی ہے اور کون سی نہیں۔ جب مجھ پر میرے مخالف گروپ نے الزام لگایا تو پھر میں نے خود ہی پارٹی ترجمان کے عہدے پر مزید کام کرنے سے معذرت کر لی۔ اگر عمران خان کو مجھ پر اعتماد نہ ہوتا تو وہ مجھے اس واقعے کے بعد ڈپٹی آرگنائزر پنجاب نہ لگاتے۔

ایکسپریس:جس گروپ کی آپ نے بات کی، کیا اسی کی وجہ سے تحریک انصاف کو کافی نقصان ہوا؟

عمر چیمہ:میرے خیال میں پارٹی کے اندرونی معاملات کو میڈیا میں ڈسکس کرنا مناسب بات نہیں ہے۔ یہ ایک غیرذمہ دارانہ رویہ ہے۔ میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ ہر پارٹی میں تنظیمی ایشوز ہوتے ہیں۔ عمران خان پوری کوشش کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو ایک ادارے کے طور پر آرگنائز کریں جیسا کہ شوکت خانم ہسپتال بطور ایک آرگنائز ادارہ کام کر رہا ہے۔

ایکسپریس:تحریک انصاف میں موجود مختلف گروپس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

عمر چیمہ:میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہر ادارے اور تنظیم میں گروپس ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی گروپ حاوی ہوتا ہے کبھی کوئی دوسرا۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کا لیڈر پہلے دن سے عمران خان ہے اور جن کا کوئی گروپ نہیں ہے۔ میرا گروپ تحریک انصاف ہے۔ میرا کسی شخص سے ذاتی اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن لیڈر کی طرف سے جس کو ذمہ داری دی جائے اسے ماننا چاہئے۔ تحریک انصاف کو اس گروپنگ کی وجہ سے نقصان ہوا ہے۔

ایکسپریس:آج جب آپ پارٹی کے بڑے بڑے عہدوں پر ایسے لوگوں کو فائز دیکھتے ہیں جن کو شاید اچھی طرح سے پارٹی کے منشور کا بھی نہیں پتہ ہو گا تو آپ کے ذہن میں کیا خیالات ابھرتے ہیں؟

عمر چیمہ:میں پھر وہی کہوں گا کہ یہ لیڈر کا فیصلہ ہوتا ہے کہ اس نے کسی شخص کو کیا ذمہ داری یا عہدہ دینا ہے اور سیاسی کارکن کو چاہئے کہ وہ اس کو دل سے مانے۔ پارٹی اجلاسوں میں ہم ہر بات پر کھل کر بحث کرتے ہیں اور اختلاف کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ عمران خان بھی اس بات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک بار کوئی فیصلہ ہو جائے تو پھر سب کو اسے تسلیم کرنا چاہئے۔ 2016ء میں جب پارٹی نے فیصلہ کیا کہ دوسری جماعتوں کے لوگوں کے لئے اپنے دروازے کھولے جائیں تو اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر کسی نے ماضی میں کوئی غلطی کی ہے اور اب اس کا مداوا کرنا چاہتا ہے تو اس کو تحریک انصاف کا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔

ایکسپریس:موجودہ وزیراطلاعات فواد چودھری کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ وہ پہلے جنرل مشرف کے ترجمان تھے، پھر پیپلزپارٹی کے، پھر ن لیگ کے اور اب تحریک انصاف کی ترجمانی کے فرائض اسی جان فشانی سے سرانجام دے رہے ہیں؟

عمر چیمہ:(ہنستے ہوئے) میں بس یہی کہوں گا کہ ان میں ترجمانی کرنے کی بہترین صلاحیت ہے اور اپنی اسی خوبی کے باعث آج وہ اس مقام پر ہیں۔

ایکسپریس:ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پر ن لیگ کے ترقیاتی کاموں کی بڑی گہری چھاپ ہے۔ اس اثر کو زائل کرنے کے لئے یہاں ایک بہت تجربہ کار، سیاسی طور پر متحرک وفعال اور عوامی شخصیت کی ضرورت تھی مگر تحریک انصاف نے سردار عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنایا، جن کا کوئی خاص سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ وہ محض ایک کٹھ پتلی ہیں اور پنجاب کو مرکز سے چلایا جا رہا ہے؟

عمر چیمہ:ایسی بات نہیں ہے۔ آپ کو آگے چل کر یہ فرق محسوس ہو گا۔ پہلے یہاں ''ون مین شو'' تھا۔ اپنی من پسند بیورو کریسی کے سر پر نمائشی قسم کے پروجیکٹس بنائے اور پالیسیاںچلائی جا رہیں تھیں۔ اورنج ٹرین اور میٹرو بس وغیرہ میں کمیشن کھایا گیا حالانکہ اس پیسے کو تعلیم اور صحت جیسے مفید منصوبوں میں لگایا جانا چاہئے تھا۔ یہ جو نئے صوبے بنانے کے مطالبے سامنے آ رہے ہیں، یہ ضروری تو ہیں لیکن اس کے پیچھے بھی اصل میں ان علاقوں کی وہ محرومیاں ہیں جو ان کے ترقیاتی فنڈ ان میگا پروجیکٹس پر لگا کر ان کی حق تلفی کی گئی اور وہ علاقے آج بنیادی انسانی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ اسی لئے اس مسئلے کے حل کے طور پر تحریک انصاف معاشی لحاظ سے موثر وخودمختار بلدیاتی اداروں کے قیام کے منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے لئے کوشاں ہے۔

ایکسپریس:موجودہ حکومت کی بھاگ ڈور تو بہت نظر آتی ہے لیکن ابھی تک اس کا کوئی آؤٹ پٹ دکھائی نہیں دے رہا۔

عمر چیمہ:یوں سمجھیں کہ تحریک انصاف کی حکومت ابھی مریض کو فرسٹ ایڈ دینے میں مصروف ہے کیونکہ حالات اس قدر دگرگوں اور اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ ان کو سنبھالنے کے لئے لانگ ٹرم اقدامات کی ضرورت ہے لیکن ان کی باری تو بعد میں آئے گی، ابھی تو فوری طور پر معاملات کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصے میں جب حالات قابو میں آ جائیں گے تو پھر اصل پالیسیوںپر عمل کیا جا سکے گا۔

ایکسپریس:حکومت کی ابھی تک کی کارکردگی سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تحریک انصاف حکومت میں آنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی۔ ایک ناتجربہ کاری کا سا تاثر ابھرتا ہے جیسے تحریک انصاف کو اچانک اقتدار ملا اور اس کے ہاتھ پیر پھول گئے۔

عمر چیمہ:وزیراعظم اور ان کی کابینہ پوری سنجیدگی سے کوشش کر رہی ہے کہ معاملات کو سنبھالا جائے۔ گزشتہ حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان ہماری معیشت کو ہوا۔ عمران خان کی سربراہی میں ہماری معاشی ٹیم جس کے وزیر اسد عمر ہیں، مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے معیشت کی حالت بہتر ہو۔ عمران خان مختلف دوست ممالک کے دوروں پر گئے اور ان سے امداد حاصل کی۔ پچھلی حکومتوں میں اسحاق ڈار جیسے لوگ عوام کو جھوٹ بول کر بے وقوف بناتے رہے۔ موجودہ حکومت نے عوام کے سامنے معیشت کی اصل صورت حال رکھی تاکہ انہیں بھی حالات کی سنگینی کا احساس ہو اور وہ حکومت کا ساتھ دیں۔

ایکسپریس:لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بیوروکریسی کی وہی ٹیم جو اسحاق ڈار نے بنائی تھی اب وہی اسد عمر نے بھی برقرار رکھی ہوئی ہے تو پھر فرق کیا ہے؟

عمر چیمہ:آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن اس میں فرق یہ ہے کہ بیوروکریسی تو حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کروانے کا ایک ادارہ ہے۔ وہ حکومت نہیں ریاست کے ملازم ہوتے ہیں۔ اب جو بھی سیاسی حکومت انہیں اپنی پالیسیاں کے مطابق احکامات دے گی وہ اس پر عمل کریں گے۔ پچھلی حکومتوں نے اپنے ذاتی مفادات کے تحت احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے بیوروکریٹ پیدا کیے جبکہ عمران خان نے بیوروکریسی سے اپنے خطاب میں انہیں یہی تلقین کی کہ وہ ریاست کے مفاد کو اولیت دیتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیں۔ بیوروکریسی کی مثال ایک کار کی سی ہے اور حکومت اس کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتی ہے۔ اب یہ تو حکومت پر منحصر ہے کہ وہ بیوروکرسی سے کس طرح کے کام لیتی ہے۔

ایکسپریس:اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ صرف اسی کا احتساب ہو رہا ہے جبکہ حکومت میں موجود نیب زدہ وزراء اس سے مبرا ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

عمر چیمہ:پچھلی حکومتوں میں دونوں بڑی جماعتیں باری باری اقتدار کے مزے لوٹنے کے دوران ایک دوسرے کے احتساب کا ڈرامہ بھی کرتی رہیں۔ اب جب ان کا حقیقی احتساب ہو رہا ہے تو وہ شور مچا رہے ہیں۔ عمران خان حکومت میں آنے سے پہلے کسی حکومتی عہدے پر نہیں رہے مگر جب سپریم کورٹ نے انہیں بلایا تو انہوں نے اپنی ساری صفائی دی۔ اب بھی بابر اعوان صاحب کو نیب نے انکوائری کے لئے بلایا تو انہوں نے مشیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ تو ایسا نہیں ہے کہ احتساب صرف اپوزیشن کا ہو رہا ہے۔ قانون سب کے لئے برابر ہے اور یہی تحریک انصاف کا موٹو ہے۔

''جاوید ہاشمی جیسے بندے کا پارٹی صدر بننا نظریاتی لوگوں کے ساتھ زیادتی تھی''

2011ء کے کامیاب جلسہ کے بعد جب لوگ ہماری طرف کھنچے چلے آئے تو ہم نے یہ کہاں کہ پارٹی کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں، ماسوائے ان لوگوں کے جو چوروں کے آلہ کار رہے، لیکن بدقسمتی سے پی ٹی آئی میں کچھ لوگ ایسے آئے، جنہیں ایجنڈا دے کر بھیجا گیا تھا، وہ پیپلزپارٹی سے بھی آئے اور ن لیگ سے بھی۔ جاوید ہاشمی آئے تو انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کو پارٹی عہدہ دیا ہے تو میرے لئے بھی ہونا چاہیے، تو ان کے لئے صدر کا نیا عہدہ تخلیق گیا، ہم نے اس کی مخالفت کی لیکن خان صاحب نے کہا کہ جب تنظیمی الیکشن ہو گا تو پھر پارٹی فیصلہ کر لے گی۔

ابھی فی الحال آپ خاموش ہو جائیں۔ پھر جب پارٹی الیکشن ہوئے تو وہ جاوید ہاشمی اس میں صدارت کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے تو ہم نے پھر مزاحمت کی کہ جاوید ہاشمی جیسے بندے کو جو اصغر خان کیس میں ملوث تھا، اس کو پارٹی کا صدر بنانا ہمارے جیسے نظریاتی لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ یہ ہمارے نظریات سے زیادتی تھی کہ ایک ایسے شخص کو ہمارے اوپر ٹھونس دیا گیا، جو ایک مشن اور ایجنڈے کے تحت آیا تھا، تو پھر آپ نے دیکھا کہ اس نے یہاں باقاعدہ ایک مہم چلائی اور پھر وہ دوبارہ وہیں پر پہنچ گیا، جہاں کا اس کا خمیر تھا۔ اسی لئے میں پارٹی الیکشن میں جاوید ہاشمی کے مدمقابل کھڑا ہوا، لیکن جیت نہ سکا۔

پسند ناپسند

پسندیدہ کھیل کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر عمرچیمہ کا کہنا تھا کہ انہیں پولو، سکوائش اور سوئمنگ پسند ہیں جبکہ ان کے پسندیدہ کھلاڑی عمران خان ہیں۔ وہ موڈ اور ذہنی کیفیت کے لحاظ سے قوالی سمیت ہر قسم کی موسیقی سنتے ہیں اور نصرت فتح علی خان کو سننا انہیں ذہنی آسودگی فراہم کرتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی پسندیدہ فلم اور ڈرامے کے متعلق بتائیں تو انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ہمارے ملک میں جو ''سیاسی فلمیں اور ڈرامے'' ہوتے ہیں ان کو وہ بہت انجوائے کرتے ہیں۔ ویسے اداکاری میں وہ ندیم کے فین ہیں۔

انہیں مطالعے کا بھی شوق ہے۔ ذاتی طور پر ''لین پول'' کی قائد اعظم کی زندگی پر لکھی ہوئی کتاب نے انہیں بہت متاثر کیا۔ سیاست میں ان کے ہیرو بھی قائداعظم ہی ہیں۔ میجر عزیز بھٹی شہید اور راشد منہاس شہید جیسے جنگجو، جنہوں نے اپنی جان ملک وقوم پر نچھاور کر دی ان کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے وہ خوشگوار اور ناخوشگوار واقعات جنہیں بھلانا مشکل ہے، بتاتے ہوئے کہا کہ 2000ء میں ان کے والد کا انتقال اچانک ہوا تھا۔ ان کے انتقال سے آدھا پونا گھنٹہ پہلے اِن کی اُن سے فون پر بات ہو رہی تھی اور وہ بالکل ٹھیک تھے پھر اچانک اُن کا انتقال ہو گیا جو اِن کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس کے علاوہ عمرے کی سعادت ملنااُن کے لئے بہت خوشگوار تجربہ تھا۔ عمر چیمہ کی ارینجڈ میرج ہے، ان کی اہلیہ زمیندار گھرانے سے ہیں اور کنیئرڈ کالج کی گریجویٹ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں