بندے کو خدا کیا لکھنا
5 جولائی گزرگئی، یہی وہ سیاہ ترین دن تھا جب 1977 میں ہمارے ملک پر آمر نے قبضہ کیا تھا۔ پہلا آمرانہ قبضہ...
5 جولائی گزرگئی، یہی وہ سیاہ ترین دن تھا جب 1977 میں ہمارے ملک پر آمر نے قبضہ کیا تھا۔ پہلا آمرانہ قبضہ 1958 میں ہوا۔ یہ محمد ایوب خان تھے۔ 1969 میں فیلڈ مارشل ایوب خان رخصت ہوتے ہوئے اقتدار اپنے ساتھی یحییٰ خان کو دے گئے اور تیسرا قبضہ 1977 میں ضیا الحق نے فرمایا اور گیارہ سال آمرانہ دور میں اللہ اللہ کرتے ہوئے۔ ہیروئن جیسا زہر نوجوانوں کی رگوں میں اتار گئے۔ کلاشنکوف اور دیگر خطرناک بارود کے ڈھیر شہر شہر گاؤں گاؤں لگا گئے، سرعام لوگوں کو خصوصاً صحافیوں کو ''اسلامی سزا'' کے نام پر کوڑے لگائے گئے اور اسلام کے پیغام کو بھی زمانے بھر میں رسوا کیا۔ یہ تینوں مارشل لاء شاعر عوام حبیب جالب نے بھگتائے اور جیلوں میں بند رہے۔ آج میں تیسرے آمر کا ہی ذکر کروں گا۔
ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی، حیدر آباد ٹریبونل توڑ دیا اور نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے 55 اراکین کو رہا کردیا۔ اب ذوالفقار علی بھٹو جیل میں بند تھے۔ اور ٹیلی ویژن پر ضیاء کی خوشنودی کی خاطر ایک پروگرام قسط وار دکھایا جارہا تھا، اس پروگرام کا نام تھا ''ظلم کی داستانیں''۔ پروگرام کا مقصد تھا کہ جن لوگوں کے ساتھ بھٹو دور حکومت میں ظلم و زیادتی ہوئی۔ ان لوگوں کی زبانی ان پر گزرنے والی ظلم کی داستانیں بیان کرنا۔ بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین جن میں چند صف اول کے سیاستدان بھی شامل تھے۔ اس رسوائے زمانہ پروگرام ''ظلم کی داستانیں'' میں بہہ گئے۔ جن میں خواجہ خیرالدین بھی شامل تھے۔
حیدرآباد ٹریبونل ٹوٹا تو ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، خیربخش مری، قسور گردیزی ودیگر کے ساتھ حبیب جالب بھی رہا ہوکر جیل سے باہر آگئے اور ضیا کے حواریوں نے اس شاعر کو گھیرنے کے لیے اپنے ''بندے'' پیچھے لگا دیے۔ ابتداء یوں ہوئی کہ جالب صاحب کو ٹیلی ویژن مشاعرے میں مدعو کیا گیا۔ جالب صاحب گئے اور شعر پڑھے۔
ذرے ہی سہی' کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم
دل لے کے سر عرصہ غم آ تو گئے ہم
اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا
روداد وفادار پہ دھرا تو گئے ہم
مجھے یاد ہے، میں پہلی بار ٹیلی ویژن پر بھائی کو شعر سناتے دیکھ رہا تھا۔ بھائی غزل پڑھ چکے تو ساتھ بیٹھے منیر نیازی صاحب نے جالب صاحب کو بصد اصرار اور کلام سنانے کو کہا اور پھر جالب صاحب نے دو غزلیں اور سنائیں۔
اب ضیائی حکومت کا سرکاری ٹیلی ویژن اپنے عملے کے ساتھ جالب صاحب کے پیچھے لگ گیا۔ ٹی وی پروڈیوسر، کیمرہ مین کے ساتھ کبھی پاک ٹی ہاؤس تو کبھی کہیں کسی دوست کے گھر۔ ضیا کی شدید خواہش تھی کہ کسی طرح ''ظلم کی داستانیں'' پروگرام میں حبیب جالب، بھٹو دور میں خود پر گزرنے والے ظلم و ستم ریکارڈ کروا دے، مگر جالب صاحب ہر بار ٹیلی ویژن والوں کو ڈانٹ کر بھگا دیتے تھے، اس کے باوجود ٹی وی والے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے اور ایک دن ٹیلی ویژن کی گاڑی جالب صاحب کے گھر کے باہر آکر کھڑی ہوگئی۔ صبح کے دس بجے تھے اور جالب صاحب گھر پر موجود تھے۔ ٹیلی ویژن کا (اس زمانے میں ایک ہی چینل ہوا کرتا تھا، یعنی سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ) پروڈیوسر سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر آیا، گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جالب صاحب سے ملاقات ہوئی، پروڈیوسر نے جالب صاحب سے کہا ''آپ کے ساتھ بھی بھٹو صاحب نے بہت زیادتیاں کی ہیں، قیدوبند کی صعوبتیں آپ نے جھیلی ہیں۔۔۔۔جالب صاحب نے پروڈیوسر کی بات کاٹتے ہوئے اس سے کہا ''اپنے کیمرے لے آؤ اور میری باتیں ریکارڈ کرلو'' ۔پروڈیوسر جالب صاحب کا اقرار سن کر خوش ہوگیا اور جلدی جلدی اپنے کیمرے، لائٹس وغیرہ لگائیں اور ''ظلم کی داستانیں'' پروگرام کی ریکارڈنگ شروع ہوگئی۔ جالب صاحب کہہ رہے تھے ''جو ظلم پچھلے چند دنوں سے مجھ پر ہورہا ہے کہ میں بھٹو صاحب کے خلاف بات کروں، اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہوگا'' کٹ، کٹ، پروڈیوسر کی آواز آئی اور پی ٹی وی والے اپنے کیمرے، لائٹس اٹھاکر بھاگ گئے۔
بھٹو صاحب کی پارٹی کے بہت سے لوگ ''ظلم کی داستانیں'' کا حکومتی دباؤ برداشت نہ کرسکے اور بھٹو صاحب کے خلاف جھوٹ سچ اگلتے رہے۔ مگر حبیب جالب نے جیل میں بند بھٹو کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔
حسب روایت تمام شاعر ادیب ضیا کے بھی ساتھ تھے جنھوں نے ملک بدری اختیار کرنا تھی، وہ باہر چلے گئے۔ بے چارے حبیب جالب کا تو پاسپورٹ ہی ایوب خان نے ضبط کرلیا تھا۔ وہ کہاں جاتا؟
اور پھر 25 دسمبر 1980 کا دن آگیا۔ یہ وہ دن تھا کہ جب ضیا نے اپنے دربار میں تمام ادیبوں شاعروں کو طلب کیا تھا اور سب حکم حاکم بجا لاتے ہوئے پہنچے عین اسی 25 دسمبر 1980 کی شام، کراچی پریس کلب میں حبیب جالب کو پریس کلب کراچی کی تاحیات اعزازی رکنیت دی جارہی تھی۔ صدارت سبط حسن کر رہے تھے۔ مضامین پڑھنے والوں میں انعام درانی، سعیدہ گزدر موجود تھے۔ تقریر کرنے والوں میں عبدالحمید چھاپرا اور ظفر قریشی تھے۔ جو پریس کلب کے صدر اور جنرل سیکریٹری تھے۔ سامعین میں بے باک صحافی و شاعر درویش صفت خالد علیگ بیٹھے تھے، اس یادگار پروگرام کی ولولہ انگیز نظامت مجاہد بریلوی نے کی تھی۔ بس یہ چند ادیب شاعر، صحافی وقت کے سب سے بڑے نام سبط حسن کے ساتھ حبیب جالب کی شام میں موجود تھے باقی تمام ''ادھر'' تھے۔
اسی شام دسمبر کے برفیلے موسم کو حبیب جالب اپنی شعلہ بار شاعری سے گرما رہے تھے۔ پہلی بار اپنی مشہور نظم سنا رہے تھے۔
ظلمت کو ضیا' صر صر کو صبا 'بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر' دیوار کو در' کرگس کو ہما کیا لکھنا
قائد اعظم کے یوم پیدائش 25دسمبر کے حوالے سے انھوں نے تازہ نظم پہلی بار سنائی۔
تم نے کہا تھا' اب نہ چلے گا محلوں کا دستور
بنے گی وہ قانون' جو ہوگی بات ہمیں منظور
ہر اک چہرے پر چمکے گا آزادی کا نور
لیکن ہم کو بیچ رہا ہے' اک جابر سلطان
قائد اعظم! دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان!
25 دسمبر 1980 تھا۔ آج 2013 ہے۔ ان بدطینت حکمرانوں نے آخر کار قائد اعظم کے پاکستان کو کہاں پہنچادیا۔ جہاں قائد اعظم کا گھر بھی جل کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ جہاں قائد کے شہر میں روزانہ دس بیس لاشیں گرتی ہیں۔ جہاں ''کالے پانی'' دندناتے ہیں بلاؤں کی طرح'' اور انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے مگر جالب کہتا ہے اور ٹھیک کہتا ہے۔
جھکے گا ظلم کا پرچم' یقین آج بھی ہے
میرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے
ہوائیں لاکھ چلیں' میرا رخ بدلنے کو
دل و نگاہ میں وہ سرزمین آج بھی ہے