ترقی اور رشتوں کا مقام

اس کو سزا دی جائے۔ چین کی یہ سماجی صورتحال درحقیقت اس خواب کی تعبیر ہے


Dr Naveed Iqbal Ansari January 10, 2019
[email protected]

گزشتہ روز واٹس ایپ کے ذریعے چین میں والدین کی حالت زار سے متعلق ایک ویڈیوکلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اس میں مختلف واقعا ت کے مناظر پیش کرکے بتایا گیا تھا کہ چین میں اولاد اپنے والدین پر تشدد کرنے سے بھی باز نہیں آتی اور حد تو یہ ہے کہ دھکے دے کر زبردستی گھروں سے بھی نکال بھی دیتی ہے۔اس وڈیوکے ذریعے چینی زبان میں عوام سے اپیل کی گئی تھی وہ اپنے والدین کے ساتھ ایسا غیرانسانی سلوک نہ کریں۔

اس ویڈیوکودیکھنے کے بعد ہمیں اپنے ایک استاد کا لیکچر یاد آگیا، جس میں انھوں نے چین کے روایتی معاشرے کی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ماضی میں چینی لوگ اپنے بزرگوں سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ جب خاندان کا کوئی بزرگ انتقال کرجاتا تو عقیدت میں اس کی مورتی یا تصویر بنا کر رکھ لیتے تھے، لیکن رفتہ رفتہ چینی معاشرے میں تبدیلی آتی گئی اور وہ مادہ پرست بنتی چلی گئی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ چین میں والدین کو نظر اندازکرنا،کلچرکا حصہ بن گیا اور بے حسی اس حد تک بڑھ گئی کہ حکومت کو قوانین بنانے پڑے کہ جو والدین کا خیال نہ رکھے۔

اس کو سزا دی جائے۔ چین کی یہ سماجی صورتحال درحقیقت اس خواب کی تعبیر ہے، جس کا نام ''ترقی'' ہے۔ چین نے بھی جب دیگر اقوام کی طرح ترقی کاخواب دیکھا اور چاہا کہ جلد ازجلد ترقی حاصل کی جائے تو اس نے کئی اقدامات کیے ۔آبادی کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا گیا اور ایک بچہ فی خاندان کی پالیسی کو اپنایا گیا۔ نتیجے میں بوڑھوں کی آبادی بے تحاشہ بڑھ گئی اور بوڑھوں کی بڑی تعداد تنہائی کا شکار ہے۔ یوں چین کو ترقی تو ضرور مل گئی مگر اس کی سماجی صورتحال بری طرح بگاڑکا شکار ہوگئی۔ آج بھی یہاں ایک خبرکے مطابق بہت سے والدین ''چلڈرن ڈے '' پر اپنے بچوں کوتفریح گاہ لے جانے کے بجائے انھیں قیمتی بنگلوںکی سیرکرانے لے جاتے ہیں تاکہ بچپن ہی سے بچے کو دولت حاصل کرنے کے خواب دکھائے جائیں۔

چین کی یہ معاشرتی خرابی محض چین ہی میں نہیں ہے، چین میں یہ خرابی مغرب سے آئی، مغرب کی ترقی دیکھ کر یہاں بھی دولت حاصل کرنے کو ایمان کا درجہ بنا لیا گیا۔ چین کی طرح تمام ترقی پذیر ممالک اور ان کی عوام بھی اس دوڑ میں لگ گئی اور یوں یہ بیماری تمام معاشروں کو لگ گئی ۔

آج ہم جس طرف نظر اٹھائیں،اس طرف تمام ہی لوگ پیسہ اور بہت سا پیسہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس مہم میں معاشرے سے مذہبی ہدایات، اخلاقیات، روایات ، انسانیت اور رشتے ناتے سب ہی پیچھے رہ گئے ہیں ۔ آج ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمارے ہاں بھی اکثریت اپنے بچوں کوبچپن ہی سے وہ ماحول دیتی ہے کہ جس میں بچہ انسانیت، انسانی رشتوں اور اخلاقیات کے بجائے دولت اور بلند معیار زندگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کے سامنے ان لوگوں کو زیادہ عزت دیتے ہیں جو زیادہ دولت مند ہوں ، ہم ان تقریبات میں بچوں کو فخر سے لے کرجاتے ہیں جہاں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، جہاں نمود و نمائش زیادہ ہوتی ہے، اسی طرح ان بچوں کو زیادہ اچھے طریقے سے ملتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں جو مہنگے اسکولوں میں پڑھتے ہوں، ہم اپنے بچوں کو بھی زیادہ سے زیادہ مہنگے اسکول میں پڑھاتے ہیں اورانھیں یہ کہتے ہیں کہ جتنی زیادہ محنت کرو گے اتنی ہی اچھی نوکری ملے گی اتنے ہی زیادہ کماؤ گے، بینک بیلنس بناؤگے۔

پیسے کے لحاظ سے بڑے آدمی بنو گے۔ غرض ہم اپنے بچوں کوبھی زندگی کا صرف اور صرف ایک مقصد ذہن نشین کرا دیتے ہیں کہ اچھا کیرئیر بنانا ہی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ہم اس تناظر میں اپنے بچوں کو ان ہی مضامین میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں جس کی سند حاصل کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جا سکے اور بات یہی ختم نہیںہوتی بلکہ ہم اس سے آگے اپنے بچوں کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے بھی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں مگر افسوس جب اس سارے عمل میں کامیابی ہوجاتی ہے تو والدین پھر تنہا رہ جاتے ہیں ، اولاد بیرون ملک ڈالرکماتی ہے اس میں سے کچھ اولادیں جو والدین سے محبت کرتی ہیں وہ ماہانہ رقم والدین کے خرچے کے لیے بھیجتی ہے اور کچھ مزید معیار زندگی بلند کرنے کے لیے یہ کام بھی بھول جاتی ہیں کیونکہ پھر وہ والدین کو بھی اپنے معیار زندگی کی دوڑ میں رکاوٹ سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی کچھ چین میں ہو رہا ہے کہ جہاں ریاست نے بھی ترقی کر لی اور لوگوں نے بھی مگر وہ مزید ترقی کے لیے والدین کو بھی اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگے ہیں ۔ بہت سی جدید ریاستیں اس بات پر فکر مند ہیں کہ ان کے بجٹ کی بڑی رقم عمر رسیدہ افرادکی بہبود پر خرچ کرنا پڑتی ہے۔

'' ترقی'' دراصل ایک ایساخواب ہے کہ جس کو حاصل کرنے کی دوڑ میں انسانیت ، اخلاقیات ، رشتے ناتے سب پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آج کے دور میں ترقی ہر ایک کا خواب ہے اور اس کی کوئی حد نہیں لہذا ہر شخض ترقی حاصل کرنے کے لیے خوب دولت کمانا چاہتا ہے، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔ عورتیں پیسہ کمانے کے لیے اپنی کوکھ تک کرائے پر دے رہی ہیں کہ کسی بھی قیمت پر بس دولت حاصل ہو جائے ۔ بھارت ، نیپال اور تھائی لینڈ وغیرہ میں خواتین نے اس ضمن میں فی بچہ چھ لاکھ روپے تک کمائے ، یہاں قانون کی سختیاں ہوئی تو پھر اس راستے سے پیسے کمانے والے دوسرے ملکوں میں بھی با آسانی مل گئے۔ ترقی کا خواب پورا کرنے کے لیے یورپ کے غریب ملک یوکرائن کی عورتوں نے بھی اپنی کوکھ کرائے پر دے کر پیسے کمانا شروع کردیے۔

پاکستان کے شہرملتان میں والدین نے اپنے لڑکے کو زمین میں سرنگ کھودنے پر لگا دیا کہ یہاں سونا دفن ہے مگر سرنگ کھودتے کھودتے لڑکا خود اس سرنگ میں دفن ہوگیا۔

اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ حکومت سے لے کرعوام تک ، سب بے تحاشہ دولت کما کرترقی کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی ایسی ترقی جس کی کوئی حد نہیں، لہٰذا ہم سب دن رات رشتے ناتے، اخلاقیات اور انسانیت چھوڑکرصرف اورصرف دولت کمانے اور دولت اکھٹی کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں جرائم بھی بڑی تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں ۔ رشتوں کا تقدس و احترام بھی دولت کے پیمانے میں ڈھل چکا ہے، عدالتوں میں خونی رشتے جائیداد کے جھگڑوں میںایک دوسرے کے سامنے ہیں ، بھائی ، بہنوں، چچا، ماموں جیسے خونی رشتے آپس میں ناراض، بول چال بند، صرف جائیداد اور دولت کے حصول کے لیے۔گھر میں رہنے والے سب پریشان کہ ٹی وی ہے مگر ایل ای ڈی نہیں، فریج ہے مگر ائیرکنڈیشنڈ نہیں، مکان ہے مگر بڑا نہیں، موٹر سائیکل ہے مگرکار نہیں، کار چھوٹی ہے مگر لگژری کار نہیں، نوکری ہے مگر سرکاری نہیں، سرکاری نوکری ہے مگرگریڈ انیس کی نہیں، آمدنی اچھی ہے تو بڑا بینک بیلنس نہیں۔ یہ اور اس جیسی بے شمار پریشانیاں آج ہر دوسرے گھر میں نظرآتی ہیں اورہم ہیں کہ مزید ان پریشانیوں کو بڑھانے پر تلے ہوئی ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ خواہش اور ضرورت میں فرق ہوتا ہے، انسان کی ضرورت پوری ہوجائے تو اسے شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ خواہشوں کے چکر میں پڑکر اپنا چین وسکون برباد کر لے۔ جن گھروں میں دولت کمانے، ترقی کرنے کے لیے خواہشات کا طوفان آجائے ان گھروں سے رشتے ناتے، اخلاقیات سمیت بزرگ والدین بھی باہر ہو جاتے ہیں ، چین کی مذکورہ واٹس ایپ کی ویڈیو بھی ہمیں یہی پیغام دے رہی ہے۔ آئیے ! غور کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔