اتحاد کی ضرورت

اگر گردوپیش کا جائزہ لیں تو ایک عجیب سا اتفاق یا مماثلت دکھائی دیتی ہے۔



اور بالآخر فراعین کی سرزمین مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کو ختم کردیا گیا۔ منتخب مصری صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر امریکا سے قرابت رکھنے والے مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح خلیل السیسی نے ملک کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ٹیکنو کریٹس کی ایک حکومت قائم کردی جو نئے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات تک قائم رہے گی اور کام کرے گی۔

لیکن مصر میں اس صورت حال پر جو ممکنہ سوالات پیدا ہوتے ہیں ان میں سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ جنرل عبدالفتح نے یہ قدم کن طبقات کی حمایت کو بنیاد بناکر اٹھایا ہے؟ کون نہیں چاہتا تھا کہ مصر میں برسہا برس سے اسلام ، اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکامات کے نفاذ کے لیے انتھک محنت، جدوجہد اور بے شمار جانوں کی قربانی دینے والی جماعت اخوان المسلمین کی حکومت جو صرف ایک سال قبل منعقد ہونے والے انتخابات میں بھاری اکثریت لے کر قائم ہوئی تھی، ختم کردی جائے۔ کون مصر میں نام نہاد لبرل اور سیکولر طبقات کو یہ تحریک دے رہا تھا کہ ان کی من مانی آزادی اور خود ساختہ اصولوں کو اب اخوان المسلمین کے دین پرست قید خانوں میں پابند سلاسل کردیا جائے گا۔ کس نے فوج کو خوفزدہ کردیا تھا کہ ان کی کرپشن اور طویل حکومت کے دن اب ختم ہوگئے۔

اگر گردوپیش کا جائزہ لیں تو ایک عجیب سا اتفاق یا مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ مورخہ 5 جولائی 1977 کو پاکستان میں ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو اس وقت کیآمر ضیاء الحق نے مارشل لاء کے ذریعے سے ختم کردیا تھا اور بعد ازاں ایک جرم میں اعانت کرنے پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا اور بالکل اسی تاریخ پر مصر کی حالیہ فوجی بغاوت کے نتیجے میں صدر مرسی کو برطرف کرکے نظر بند کردیا گیا۔ جب کہ دونوں فوجی سربراہان کا تقرر برطرف کیے جانے والے وزیراعظم اور صدر نے خود کیا تھا لیکن پیش آمدہ دونوں واقعات کے پیش منظر میں جنرل ضیاء الحق تھے اور جنرل عبدالفتح ہیں۔

پس منظر میں کون تھا اور کون ہے؟ جو خطہ ارض کے مختلف ٹکڑوں یا حصوں پر اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنا چاہتا ہے، گویا جہاں اس کے مفادات آمریت یا فوجی مارشل لاؤں سے تکمیل پاتے ہیں وہاں اس ملک کے عوام کو آمریت کا مژدہ سنادیا جاتا ہے۔ اگر وہ خوشی سے قبول کریں تو بھی اور جبراً وصول کریں تب بھی۔ اور جہاں واپسی جمہوریت کا خواہش مند ہے جو کم وبیش کسی فوجی مارشل لاء جیسی ہی تابعداری اور وفاداری پر رضامند ہو تو وہاں جمہوریت کے فوائد بیان کرتے ہوئے ایک محدود جمہوری حکومت قائم کردی جاتی ہے۔

لیکن اس طاقت کو جس کا یہ سب شاخسانہ ہے، امریکا کہا جائے یا امریکی قوم یا اسرائیل، موساد، CIA یا پھر شاید ملا جلا کر امریکا کہنا ہی مناسب ہوگا۔ امریکا اپنے تمام تر منصوبوں میں اب تک مکمل کامیاب ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ وہ منصوبے اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہوں یا جو دوسرے ممالک بالخصوص مسلم ممالک کو بدحالی، بربادی اور تباہی کے لیے۔ لیکن ماننا ہوگا کہ امریکی منصوبوں کی کامیابی کا سہرا خود ان کا جزئیات پر بڑی گہرائی اور غوروخوض سے عمل کرنا اور باقی مسلم ممالک، مسلم امہ کے داخلی انتشار، گروہ بندیوں، دینی افترات و تفریق، سرحدی تنازعات، مسلم حکمرانوں کی بدترین عیاشی، غرور اور کرپشن کے سر جاتا ہے۔

علاوہ ازیں اگر رواں صدی میں ''مین حیث القوم'' مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیا جائے تو وہ کئی ایک طبقات میں منقسم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ لبرل نظر آنا چاہتے ہیں، کچھ سیکولر پسند ہیں۔ کچھ دین کے آدھے حصے پر عمل کرنے کو ممکن سمجھتے ہیں اور مکمل عمل کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ اسلام کا حقیقی مطلب صرف جہاد ہے۔ لہٰذا قتال کیا جائے اور بلا دریغ کیا جائے۔ آج کی مسلم دنیا میں مختلف طبقات سرگرم عمل ہیں اپنے اپنے پیغام کے ساتھ اور آپس میں ہی برسر پیکار ہیں۔

ہر طبقہ علی الاعلان باقی طبقات سے یا فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے اور اپنے دعوے یا فتوے کے حق میں خاطر خواہ دلیلیں بھی رکھتا ہے۔ ہاں ایک طبقہ اور ہے جو امریکا اور ہنود و یہود کو مسلم امہ کی تمام تباہیوں کا ذمے دار قرار دیتا ہے اور ہمہ وقت انھیں برا بھلا کہنے میں مصروف رہتا ہے۔ لیکن پوری مسلم امہ میں یا اسلامی دنیا میں کوئی جماعت، گروہ، فرقہ یا طبقہ ایسا نہیں ہے جو یہ مسلک رکھتا ہو یا اس کا پرچار کرتا ہو کہ آؤ مل کر غور کریں، فکر کریں اور سوچیں کہ آج ہماری قوم میں وہ حکیم، سائنس دان، کیمیا دان، ریاضی دان کیوں پیدا نہیں ہورہے، جن سے ہمارا ماضی تابناک اور تابندہ تھا۔

وہ ابن الہیثم، بوعلی سینا، جابر بن حیان کہاں ہیں، جنھیں پورے یورپ میں 1300 صدی عیسوی سے لے کر 1600 تک تمام یونیورسٹیز میں پڑھا گیا، جن کی قائم کردہ اکائیاں، فارمولے، آج تک سائنس، طب، کیمسٹری میں بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ طبقہ جو امت کو یہ احساس دلائے کہ آج کی ترقی یافتہ اقوام اور ملکوں کی ترقی میں کیا راز پنہاں ہے اور مسلمان جو کبھی فاتح عالم تھے آج غلام اور محکوم کیوں ہیں، جو قرآن کریم کی وہ آیات بالخصوص اور موجودہ دور کے پیش نظر مسلم امہ کے سامنے رکھیں اور ان آیات کی تفسیر تفصیلاً بیان کریں۔

جن میں ہمیں پیدا کرنے والے رب نے بارہا ان لوگوں کی قسم کھائی ہے جو غور کرتے ہیں، فکر کرتے ہیں، وہ جنھیں دانش مندی عطا کی گئی، اور وہ آیتیں جن میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ اور وہ طبقہ جو بڑی دیانتداری سے پوری اسلامی تاریخ کا مکمل عرق ریزی سے مطالعہ کرے اور ان تمام اسلامی ممالک کا بالخصوص جہاں پر اب تک مسلم حکومتیں قائم ہیں اور ساتھ ہی ان عظیم مسلم حکمت، کیمیا، ریاضی اور سائنس دانوں کی سوانح عمری کا بھی بھرپور جائزہ لے اور پھر یہ طے کرے کہ ہماری غلطیوں کی ابتدا کہاں سے ہوئی۔ یہ عیش پسندی ہمارے حکمرانوں اور مسلمانوں کی طبیعت میں کہاں سے درآئی، کہاں سے ہمارے باہمی تنازعات شروع ہوئے، ہمارے قومی غدار کون تھے اور کیوں تھے۔

ماضی میں ان کے مفادات کیا رہے، اب کیا ہیں اور وہ مستقبل کے کن خوش کن وعدوں پر اسلام دشمن ممالک کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور آخرش ازسرنو اور موجودہ حالت کے زیر اثر ایک بالکل بدلی ہوئی دنیا کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمین و مسلمات کو ان کے پہلے اور اولین فرض سے آگاہ کرے، جو بالیقین علم ہے، آگہی ہے، مساوات اور انصاف ہے۔

لیکن افسوس صد افسوس کہ پوری مسلم دنیا میں وہ طبقہ، وہ فرقہ نہیں ہے، کہیں نہیں ہے لہٰذا پھر حیرت کیسی اور تحیر کیسا کہ اگر کسی سپہ سالار نے کسی بھی آقا کے کہنے پر صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا یا ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھادیا یا ایٹمی ہتھیار بنانے اور رکھنے کی صرف افواہ پر عراق کو برباد کردیا یا افغانستان میں لاکھوں بے گناہ افراد کو ماردیا اور قبضہ کرلیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں