چین کے ساتھ تعلقات میں نئی پیش رفت

وزیراعظم کے بیرون ملک دورے کا مرحلہ آیا تو پہلا انتخاب برادر ملک چین کا کیا گیا۔


Nasir Alauddin Mehmood July 12, 2013

نئی جمہوری حکومت کو کئی پیچیدہ مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ سنگین اور بنیادی نوعیت کے مسائل میں توانائی کی شدید کمی کے علاوہ بدامنی، لاقانونیت اور دہشت گردی جیسے مسائل شامل ہیں۔ یہی وہ مسائل ہیں جنہوں نے پاکستان میں گزشتہ دس سال سے صنعتی سرگرمیوں کو جمود کا شکار کر رکھا ہے، جس وجہ سے آج ملک میں غربت اور بیروزگاری میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ مہنگائی نے غریب تو کیا متوسط درجے کے لوگوں کے لیے بھی زندگی عذاب کردی ہے۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری نے مختلف نوعیت کے دیگر سماجی اور معاشرتی مسائل کو جنم دیا ہے۔

فرقہ وارانہ دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، لوٹ مار اور قتل و غارت گری جیسے مسئلوں نے معمولی معاشی سرگرمیوں کو بھی ختم کردیا ہے۔ ملک میں کرپشن، سرکاری افسران کی رشوت لے کر ٹرانسفر پوسٹنگ، بھتہ خوری، چور بازاری اور لوٹ مار کے سبب عالمی سطح پر حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد اس وقت دیکھنے کو ملا تھا کہ جب سیلاب جیسی قدرتی آفت کے متاثرین کی مالی امداد بھی عالمی ڈونر اداروں نے حکومتی سرپرستی میں کروانے کے بجائے خود یا مختلف این جی اوز کے ذریعے سے کروائی تھی، باالفاظ دیگر حکومت کی ساکھ عالمی سطح پر بری طرح سے مجروح ہوچکی تھی۔

ملک کے سیاسی اور معاشی حالات اتنے خراب ہوگئے کہ مقامی سرمایہ کار کو بھی اپنی معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے بیرون ملک کا رخ کرنا پڑا۔ ان بدتر معاشی حالات کے تناظر میں مئی 2013 کو قومی انتخابات کا مرحلہ آیا اور قوم نے مسلم لیگ (ن) پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور اسے قومی اسمبلی میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔

میاں محمد نواز شریف کی حکومت جب برسراقتدار آئی تو اس کے سامنے بجٹ کی تشکیل کا مشکل مرحلہ تھا۔ بجٹ میں چند سخت فیصلے ضرور کیے گئے لیکن قومی مفادات عزیز تر رہے۔ قومی وقار میں اضافہ، آزادی و خود مختاری کا دفاع، توانائی کے بحران میں فوری کمی اور جدید خطوط پر ریاست کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر حکومت کی اولین ترجیح رہی۔

وزیراعظم کے بیرون ملک دورے کا مرحلہ آیا تو پہلا انتخاب برادر ملک چین کا کیا گیا۔ دورہ چین ہر اعتبار سے اس قدر کامیاب ہوا کہ مخالفین بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ وزیراعظم کے دورہ چین کے موقع پر ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی کے لیے کئی معاہدے ہوئے، جن میں توانائی کے حصول اور مواصلات کے شعبے میں ترقی کے منصوبے شامل تھے۔ تفصیلات کے مطابق گوادر پورٹ کی جدید طرز پر تعمیر اور وہاں سے کاشغر تک شاہراہ اور ریلوے ٹریک کی تعمیر، کراچی تا لاہور موٹروے منصوبہ اور توانائی کے حصول کے دیگر کئی منصوبے قابل ذکر ہیں۔

بجلی کی پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو ہر ماہ کئی ارب روپیہ گردشی قرضہ کی مد میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔ حکومتی خسارے کو روکنے کے لیے فوری طور پر انرجی سیکٹر میں ایسی اصلاحات کی ضرورت تھی کہ جس کے نتیجے میں سستی بجلی پیدا کی جاسکے۔ اس ضمن میں شنگھائی میں پاک چائنا انرجی فورم کا پروگرام منعقد ہوا، جس میں 50 سے زائد چینی کمپنیوں نے شرکت کی۔ وزیراعظم پاکستان نے انرجی سیکٹر میں چینی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہوئے بجلی گھر کو کوئلے پر منتقل کرنے اور دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے معاونت کی بھی پیشکش کی۔

اس کے علاوہ وزیراعظم نے شرکاء کے وفد کے ہمراہ بلٹ ٹرین میں سفر بھی کیا اور پاکستان میں اسی طرز کی ٹرین کی سفری سہولت کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ پاکستان کے شہری بھی آرام دہ، برق رفتار ٹرین کے ذریعے ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر کرسکیں۔ دورہ چین کے موقعے پر وزیراعظم نے چین کی مدد سے توانائی بحران پر قابو پانے اور ترسیل کا نظام مضبوط بنانے کے عہد کا بھی اظہار کیا۔ اس کے علاوہ فرنس آئل سے چلنے والے بجلی گھروں کو کوئلے پر منتقل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا۔

میاں محمد نوازشریف نے کہا کہ حکومت پاکستان انرجی سیکٹر میں چینی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرے گی۔ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار بہتر بنانے کے لیے چائنا انجینئرنگ کارپوریشن اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ ان منصوبوں کے نتیجے میں پاکستان میں سستی اور وافر بجلی پیدا ہوسکے گی جب کہ گوادر تا کاشغر شاہراہ کی تعمیر کے منصوبے سے خطے میں معاشی انقلاب برپا ہوجائے گا۔ 2 ہزار کلومیٹر طویل شاہراہ کی تعمیر کو ''اکنامک کوریڈور'' کا نام دیا گیا ہے جو یقینی طور پر معاشی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ ان تمام منصوبوں کے نتیجے میں کئی صنعتوں کو فروغ حاصل ہوگا اور لاکھوں ہنرمند اور غیر ہنرمند افراد کو روزگار میسر آسکے گا۔

چین سے طے پانے والے معاہدوں پر فوری عملدرآمد کی ضرورت ہے تاکہ ترقی کے سفر کا آغاز ہوسکے۔ اب حکومت کی تمامتر توجہ بدامنی، لاقانونیت اور دہشت گردی کے مستقل خاتمے پر مرکوز ہے تاکہ بیرون ملک سے آنے والے سرمایہ کار اپنی جان و مال کو پوری طرح محفوظ سمجھ سکیں اور منصوبوں پر کام کرنے والے انجینئرز سمیت دیگر ٹیکنیکل افراد بھی پاکستان میں اپنی زندگیوں کو محفوظ سمجھ کر پوری یکسوئی کے ساتھ خدمات انجام دے سکیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے وفاقی حکومت نے عنقریب متفقہ قومی سیکیورٹی پالیسی پرکل جماعتی اجلاس منعقد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

متفقہ قومی سیکیورٹی پالیسی مرتب کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس منعقد کیا جائے گا جس میں قومی سیاسی رہنمائوں کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے سربراہوں کو بھی مدعو کیا جائے گا جو تمام قومی سیاسی رہنمائوں کو دہشت گردی سے نمٹنے اور طالبان سے ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر بریفنگ دیںگے، جس کی روشنی میں ملک کو درپیش دہشت گردی کے چیلنجوں کے خاتمے اور متفقہ قومی سیکیورٹی پالیسی ترتیب دی جاسکے گی۔

اس مربوط عمل ہی کے نتیجے میں ملک سے بدامنی، لاقانونیت اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے امکانات پیدا ہوں گے اور چین و دیگر ممالک کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں پر عملدرآمد ممکن ہوسکے گا۔

چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی نگرانی کے لیے وزیراعظم آفس میں خصوصی سیل بنایا جائے گا جس کا کام پاکستان میں چین کے تعاون سے چلنے والے تمام ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرنا ہوگی۔ وزیراعظم نواز شریف نے دورہ چین کے موقعے پر وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی ہے تاکہ منصوبوں میں کسی قسم کی رخنہ اندازی نہ ڈالی جاسکے اور کسی کی جانب سے ان قومی اہمیت کے حامل منصوبوں میں غفلت بھی نہ برتی جاسکے۔

چین اور پاکستان کے مابین طے پانے والے گوادر تا کاشغر راہدرای منصوبہ پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔ گوادر شہر کو دنیا کے جدید ترین اور ترقی یافتہ شہروں دبئی اور ہانگ کانگ کی طرح فری پورٹ بنایا جائے گا۔ یہ سب ایسے منصوبے ہیں کہ جن کی تکمیل سے پاکستان میں غربت اور بیروزگاری میں کمی آئے گی، معاشی سرگرمی تیز ہوگی اور پاکستان ایک ترقی یافتہ فلاحی جمہوری ملک بن سکے گا۔ پاکستان کے قیام کا حقیقی مقصد بھی یہی تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں