صحرا میں اذان حصہ اول
اس صوبے میں ساڑھے تین سو میل لمبا ساحل سمندر ہے جہاں دنیا کی بہترین مچھلی، جھینگا لابسٹر پیدا ہوتا ہے
تقسیم ہند کے بعد جب چارلس نیپیئرکراچی چھوڑ رہا تھا، تو بحری جہاز کے عرشے پرکھڑے ہوکرکراچی پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس نے کہا تھا ''اے کراچی کاش میں تیری جوانی دیکھ سکتا'' بقول شخصے ایک ''قابض'' کے تو یہ جذبات تھے اور اب ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان، کراچی کے باسی اپنے شہر کی ناگفتہ بہ حالت پر آٹھ آٹھ آنسو رو رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ 71 سال بعد ہماری زندگی میں کیا کوئی ایسا دن بھی آئے گا جب ہم اس شہر ناپرساں کو اپنے صحیح رنگ و روپ میں دیگر بین الاقوامی معاشی ہب کے حامل دنیا کے دیگر شہروں کی مانند دیکھ سکیں گے جس کی آبادی اب دنیا کے کئی چھوٹے ممالک سے بھی بڑھ چکی ہے۔ لیکن ہمارے باکمال الیکشن کمیشن کی مردم شماری میں یہ حیرت انگیز طور پر کم دکھائی گئی ہے اور باوجود بھرپور عوامی احتجاج کے اس پر ہنوز کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور اسی کم آبادی کی بنیاد پر الیکشن بھی ہوگئے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی آبادی کی اپنی گروتھ 3 فیصد سالانہ اور دیگر صوبوں سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کی تعداد بھی 3 فیصد سالانہ ہے،گویا تقریباً ہر 17 سال بعد کراچی کی آبادی دگنی ہوجاتی ہے اور اس میں کچی آبادیوں کا تناسب 50 فیصد سے بھی زیادہ ہوچکا ہے اور یہ مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے وجود میں آیا ہے۔ کراچی کو ''منی پاکستان'' تو کہہ دیا جاتا ہے مگر اس کے حقیقی مسائل کو ''اون'' کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں جب کہ یہ مسئلہ بقیہ پاکستان سے جڑا ہوا ہے اور اب یہ شہر بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ، مسائل کے حل نہ ہونے، کرپشن درکرپشن اور ناانصافی در ناانصافی کے بوجھ تلے سسک رہا ہے اور ٹیکس ریونیو میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے کے باوجود یہاں ہر شعبے میں ان کے ساتھ شرمناک سلوک کیا جا رہا ہے اور آبادی کی اکثریت کو کمی بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی میں سرائیکی علاقوں سے دھڑا دھڑ نقل مکانی ہو رہی ہے، صوبہ سرحد سے لوگ آ کر بس رہے ہیں۔ اندرون سندھ سے لوگ آرہے ہیں اور یہی حال دوسرے صوبوں سے آنے والوں کا ہے تو اس کی وجہ جاننا ضروری ہے۔ جنوبی پنجاب اور دیگر علاقوں میں بڑے بڑے جاگیرداروں اور مفاد پرستوں نے عام لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ملازمت کے مواقع ناپید، صنعتیں نہیں، مزدوری اتنی قلیل کہ گزر بسر مشکل۔ یہی حال سندھ کا ہے بڑے بڑے جاگیردار اور رسہ گیر وسائل پر قابض۔ نہ تعلیم نہ روزگار۔ کسان اور ہاری کمی۔ وہ آدھا پیٹ کھاتا ہے یا بھوکوں مرتا ہے یا خودکشی کرتا ہے۔ وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں سردار اور مفادات پرست بیٹھے ہیں جو عوام تک کوئی سہولت نہیں پہنچنے دیتے اور سارے پیسے ڈکار جاتے ہیں۔
اس صوبے میں ساڑھے تین سو میل لمبا ساحل سمندر ہے جہاں دنیا کی بہترین مچھلی، جھینگا لابسٹر پیدا ہوتا ہے، گیس ہے،صوبے میں سونے اور پیتل کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے کئی قسم کی منرلز ہیں۔ نایاب جڑی بوٹیاں ہیں اور باوثوق ذرایع کے مطابق آج سے تقریباً 15 سال پہلے گوادر کے سمندری علاقے میں اور بلوچستان کے دیگر زمینی علاقوں میں گیس کے علاوہ تیل کا اتنا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا تھا جو نہ صرف پاکستان کی ضروریات پوری کرسکتا تھا بلکہ اس کی برآمد سے لاکھوں ڈالر کمائے جاسکتے تھے مگر مفاد پرستوں نے وہ خبر اور فائل ہی دبا دی اور اس مشہور و معروف آف شور ڈرلنگ کمپنی کو اس کے بحری ایکسپلورنگ ساز و سامان کے ساتھ خاموشی سے بمع خرچہ روانہ کر دیا گیا۔
بلوچ ایک غیور اور خوددار قوم ہیں اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل اس کے نوجوان عوام کی کسمپرسی اور زندہ درگور حالت پر آواز اٹھاتے ہیں تو بجائے وہاں کی غربت کو کم کرنے اور اس میں حصے داری دینے کے انھیں بروز طاقت دبا دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان کے دشمن تو اس سے فائدہ اٹھائیں گے جس کا موقع خود ہم فراہم کر رہے ہیں انھی حالات سے مجبور ہوکر کچھ بلوچ آبادی بھی کراچی اور دیگر صوبوں کا رخ کرتی ہے۔ اگر تمام صوبوں میں تعلیم، صحت، روزگار کے مواقعے ہوں، وہاں کے وسائل کو عوام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے، صنعتیں قائم کی جائیں اور زراعت کو ترقی دی جائے تو وہ کیوں اپنا گھر بار چھوڑ کر کراچی یا دیگر بڑے شہروں کا رخ کریں؟
اب آتے ہیں کراچی میں تجاوزات کے خلاف تازہ مہم پر جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار چھن گیا ہے۔ تجاوزات یقینا غلط ہیں اور دنیا کے کسی بھی شہر میں اس بے ہنگم طریقے سے ان کا قیام ممکن نہیں مگر بغیر کسی پلاننگ اور سوچ بچار کے اس طرح کے اقدامات مثبت سے منفی اثرات کے حامل ہوجاتے ہیں اور وقتی طور پر اس کا سدباب بھی ہو جاتا ہے مگر کچھ عرصے بعد یہی سلسلہ پھر شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس میں مقامی انتظامیہ کا بہت عمل دخل ہے جس کی کرپشن اور نااہلی اس مسئلے کو بار بار ابھارتی ہے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو یہ حکم بھی جاری کرنا چاہیے کہ آیندہ جس علاقے میں بھی تجاوزات کا قیام عمل میں آئے گا وہاں کے تمام سرکاری حکام اس کے ذمے دار ہوں گے اور آیندہ ان کی منتقلی اور متبادل جگہ کی فراہمی سمیت تمام اخراجات ان کو اپنی جیب سے ادا کرنا ہوں گے یا وہ گھر جائیں گے۔
بھتہ خوری کے بغیر یہ تجاوزات قائم ہو ہی نہیں سکتیں۔ تو بجائے دوسروں کو بھتہ دینے کے حکومت ٹوکن سسٹم پر ان کو ٹیکس نیٹ میں کیوں نہیں لاسکتی؟
اس مسئلے بلکہ مسائل کی بنیادی وجہ مقامی حکومتی سسٹم کا نہ ہونا ہے جس میں شہر کا میئر وہاں کے مقامی لوگوں کی جمہوری رائے سے منتخب ہوتا ہے اور لوگ مقامی پولیس اور مقامی افراد پر مشتمل عدالتیں اور ہر محلے سے ممبر منتخب کرتے ہیں جو شہر کے تمام انتظامی امور اور ٹیکس کلیکشن کا بھی ذمے دار ہوتا ہے اور وفاقی حکومت کو اس کا حصہ ادا کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے مقامی حکومتوں کا وعدہ کیا ہوا ہے تو کیوں نہ کراچی اور اسلام آباد کو ایک ماڈل سٹی بناکر یہاں مقامی حکومت مقامی لوگوں کے ذریعے پر عمل کیا جائے جب کہ پاکستان میں جمہوریت کا مطلب ''اشرافیہ کی لوٹ مار، کرپشن اور مادر پدر آزاد لوٹ کھسوٹ' کے جمہوری حق اور جمہوری انتخاب کے ذریعے حکومت میں آکر عوام کا خون چوسنا رہ گیا ہے اور اس سے کوئی بھی حکومت سرِ مو انحراف نہیں کرتی۔
کراچی کے اہم ترین مسائل میں سب سے پہلے پانی کا مسئلہ ہے۔ بے وسیلہ لوگوں کو تو دنوں ہفتوں پانی میسر نہیں مگر صاحب استطاعت کے لیے 3000، 5000، 6000 روپے میں وافر پانی فی ٹینکر موجود ہے چاہے آپ50 ٹینکر پانی منگوا لیں یا 100 ٹینکر ان کے لیے پانی کی کوئی قلت نہیں۔ جگہ جگہ پوائنٹس بنے ہوئے ہیں جہاں سے دن رات پانی کی سپلائی وافر مقدار میں جاری و ساری ہے اور خصوصاً بلڈرز کے پروجیکٹ کے لیے پانی کی کوئی کمی نہیں ۔
(جاری ہے)