گورکھ ہل

برصغیر میں یہ مقام تیسرے پُرفضا سیاحتی مرکز کی حیثیت کا حامل ہے۔



سندھ کرہ ٔ ارض پر بے شمار معدنی وسائل کی نعمتوں سے مالامال اور جغرافیائی خصوصیات کا حامل خطہ ہے۔ اس کے جنوب مشرق میں تھر کا سحرزدہ ریگستان اور رِن جو کچھ کا بیابان ہے، مغرب میں وسیع سمندر اور سمندری جزائر ہیں تو مشرق سے مغرب تک شمال میں پھیلا پہاڑی سلسلہ ہے ۔جب کہ اس کے چوڑے سینے پر پھیلا سرسبز و شاداب میدانی علاقہ ہے، جس کے بیچ میں دریائے سندھ کسی سہاگن کی مانگ کی طرح سجا ہوا ہے۔

شاید اسی لیے ہندو دھرم کے قدیم پُستکوں میں اسے سدا آباد رہنے والی دیوی سے متشابہ قرار دیا گیا ہے ۔پھر دنیا بھر میں مشہور انڈس سولائیزیشن کے موہن جو دڑو ، رنی کوٹ ، کوٹ ڈیجی جیسے قدیم آثارات اور گریٹ وال آف سندھ (دیوار ِ سندھ ) جیسی خصوصیات بھی اس خطے کو منفرد بناتی ہیں ۔جو کہ دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھتے ہیں ۔ جس سے یہاں سیاحت کا مستقبل روشن ہونے کے قوی امکانات ہیں، حالانکہ دنیا بھر کے ممالک میں سیاحت کو اولیت دی جاتی ہے جو کہ نہ صرف اُس ملک کے عوام کو تفریح کے مواقع فراہم کرتے ہیں بلکہ بیرونی سیاحوں کی آمد سے اس ملک کی معاشی آمدن اور روزگار کے مواقعے بھی بڑھتے ہیں۔

اسی لیے اس جدید دور میں جب دبئی جیسے ملک اپنی سیاحت کے فروغ کے لیے مصنوعی برفانی جزیرے، مصنوعی آبشاروں اور پُھواروں پر سرمایہ کاری کررہے ہیں ، شہروں سے گذرنے والے دریا و ندیوں کو تفریح کا سامان بنارہے ہیں ، یہاں تک کہ سمندر پر سیاحتی مقامات و پُلوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ وہاں ہمارے ملک پاکستان میں قدرتی طور پر موجود سیاحتی مقامات انتہائی نظراندازی کا شکار اور تفریحی و سیاحتی مقامات پر سرمایہ کاری حکومتی ترجیحات میں شامل نظر نہیں آتی ۔

دوسری جانب دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک سمیت کئی ترقی پذیر ممالک بھی اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سیاحت سے ہونے والی آمدنی کو اولیت دیتے ہیں مثلا ً یورپ کی معیشت کے استحکام میں سیاحت کا 39%حصہ ہے اسی طرح دبئی کی مجموعی معیشت جی ڈی پی میں 7.6حصہ ہے ۔جب کہ انڈیا جیسے ترقی پذیر ملک کی جی ڈی پی کا 9.4%حصہ سیاحت سے آتا ہے ۔ لیکن پاکستان محض 2.7%جی ڈی پی پر کھڑا ہے اور اس میں بھی ملکی سطح کی سیاحت کا زیادہ حصہ ہے اورعالمی حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔

حالانکہ پاکستان میں نہ صرف سیکڑوں فطرتی حسن سے مالامال سیاحتی مقامات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ انڈس سولائیزیشن کے قدیم آثارات اور دیگر تاریخی فن تعمیرسازی کی حامل عمارتیں اور قلعے وغیرہ موجود ہیں جو کہ غیر ملکی سیاحوں کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے کے قابل ہیں لیکن دنیا کے سیاح سہولیات کی کمی اور آسان رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں آنے سے کتراتے ہیں ۔ہماری تمام باتیں اور پالیسیاں ہی نرالی ہیں ۔

یہاں کسی ایک چیز، ایک فرد ، ایک جماعت یہاں تک کہ ایک مقام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے دوسری تمام چیزوں ، افراد ، جماعتوں اور مقامات کو انتہائی حد تک نظرانداز کیا جاتا ہے ۔ یہی روش سیاحتی مقامات کے ساتھ بھی روا رکھی گئی ہے ۔یوں تو پاکستان میں سیکڑوںفطرتی سیاحتی مقامات ہیں لیکن ملکی و بیرونی سطح پر صرف کوہ مری کو ہی مشہور کیا گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مری ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے ۔ لیکن عرصہ دراز سے سرکاری سطح پر ملک میں دوسرے مقامات کو نظر انداز کرنے سے ملک میں کوہ مری واحد ہل اسٹیشن کا درجہ رکھتا ہے ۔

حالانکہ ملک میں کے ٹو سمیت ناران ، کاغان اور گلگت بلتستان کے پہاڑی سلسلے، چترال کے قدآور درختوںسے ڈھکے پہاڑی جنگلات ، سوات کی پرکیف وادیوں ، بلوچستان کے ہنگول نیشنل پارک سمیت کوئٹہ -چمن کے پہاڑوں میں پھیلی حنا جھیل اوربرف باری پر سلائیڈنگ فیلڈ اور دیگر تفریحی و قدرتی ہل اسٹیشنز کی بھی کئی لوکیشنز موجود ہیں ۔جب کہ تھر، سندھ میں کارونجھر وغیرہ اچھے سیاحتی مقامات ہیں لیکن کراچی سے دادو تک پھیلا 7ہزار بلندی رکھنے والا کھیر تھر کا پہاڑی سلسلہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد سیاحتی علاقہ ہے ۔

یہ ایک پتھریلا پہاڑی سلسلہ ہے۔اس میںڈائنو سارز کے Skeleton، لکی جبل میں غار اور قدیم قبل مسیح کے Rocky Carvingکے نشانات بھی موجود ہیں ۔یہ 130کلو میٹر لمبائی رکھنے والا وائلڈ لائف اور Rockyخصوصیات کا حامل پہاڑی سلسلہ ہے۔ یہ Mountain Adventureکی اعلیٰ مثال ہے۔اس میں کئی بلند چوٹیوں کا ایک متواتر سلسلہ ہے ۔ اس کی سب سے اونچی چوٹی ڈاڑھیارو جبل پر کتے جی قبر (Dog's Grave) ہے۔

اس پہاڑی سلسلے میں مختلف مقامات پر کئی جھرنے ، تالاب اور برساتی نالے و ندیاں ہیں ۔ اس کے معروف مقامات میں بڈو جبل و کھیر تھر نیشنل پارک ہے جہاں دنیا کے نایاب ہرن ودیگر جانوروں اور پرندوں کی اقسام پائی جاتی ہیں ۔ یہ دنیا کی بہترین Hunt Sites(شکار کے مقامات) میں سے ایک ہے۔کھیر تھر نیشنل پارک کواقوام ِ متحدہ کی جانب سے 1975میںدنیا کے نیشنل پارکس کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

اس پہاڑی سلسلے کے دامن میں موجود رنی کوٹ کا قلعہ اور گریٹ وال آف سندھ (دیوار ِ سندھ ) جیسے عالمی ورثہ جات بھی ہیں ۔ لیکن یہاں کا سب اہم ترین سیاحتی مقام گورکھ ہل اسٹیشن ہے ۔ جو کہ سطح ِ سمندر سے تقریباً 6ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔ یہ 2500ایکڑ پر پھیلا سیاحتی مقام ہے ۔یہاں کا درجہ حرارت جون کی جھلستی گرمیوں کے دوران بھی 10 سے 12 سینٹی گریڈ رہتا ہے جب کہ سردیوں میں درجہ حرارت منفی 7سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ہے ۔یہ مقام ملک کے سب سے بڑے معاشی حب اور صنعتی و ساحلی شہر کراچی کے قریب ہی واقع ہے ۔

کراچی سے جامشورو اور سیوہن انڈس ہائی وے کے راستے 450 کلو میٹر پر 7گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے ۔ ریلوے کے ذریعے وہاں جانے کے لیے دادو اسٹیشن کا استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں سے براہ راست گورکھ تک جیپ سروس موجود ہے۔ جب کہ واہی پاندھی تک بس سروس ہے،جہاں مقامی طور پر 4x4 گاڑیاں دستیاب ہیں ۔

گورکھ کے نام سے متعلق کئی باتیں گردش میں ہیں ۔ مقامی لوک داستان گو کے مطابق یہ جگہ ایک ہندو سنیاسی و روحانی پیشوا شری گورکھ ناتھ کے نام سے منسوب ہے، جو یہاں یوگا کی مشق کے ساتھ ساتھ گیان و دھیان میں مصروف رہا کرتے تھے جب کہ کچھ لوگ اس کی تائید میں استہزائیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بابا گورکھ ناتھ ہندو نہیں بدھ دھرم کے پیشوا تھے ۔ گورکھ خوبصورت اور بلند و بالا چوٹیوں کا حامل سرد ترین سیاحتی مقام ہے ۔

کہرے میں ڈھکے یہاں کے Rockyپہاڑوں سے بھاپ کی طرح اُڑتے بادل صبح کے لمحوں میں پھسلتے رہتے ہیں اور انسانی جسم کو ہر وقت بھگوئے رہتے ہیں ، جس سے انسان خود کو ہواؤں میں اُڑتا محسوس کرتا ہے ۔ رات کو کھلے آسمان کا منظر تو ایسا کہ لگتا ہے ہاتھ بڑھاکر ستاروں کو چھولیا جائے ۔ پھر پل پل ہوتی برساتی پُھوار بھی طبیعت میں بے خودی اور سرور و مستی کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔

رات کو زیرو پوائنٹ پرکھڑے ہونے سے جہاں ستاروں کے جھرمٹ سر پر منڈلاتے محسوس ہوتے ہیں ،وہیں سرد ہوا کے جھونکے جسم کو تھپتھپاتے رہتے ہیں ، ایسے میں بون فائر کرتے نوجوانوں کے گروہ یا پھر سندھی روایتی مچ کچہری اور پھر عارفانہ کلام کی ہوک تو انسان کو رمز و نیاز کی وادی میں ہچکولے دینے کے لیے کافی ہے ۔ اس کی 53کلومیٹر اونچائی کی طرف جاتی زگ زیگ پختہ سڑک ایڈوینچر کے شائقین کے لیے نہایت پُرکشش جگہ ہے ۔

یہاں سالانہ اوسطاً 120ملی میٹر بارش ہوتی ہے ۔ برساتی موسموں میں یہ جھرنوں کی وادی کا منظر پیش کرتی ہے ، اس پانی سے کئی تالاب بنتے ہیں ۔ یہاں ایک مقام پر ہینگر چشمہ بھی ہے ۔یہاں سب سے زیادہ Adventureوالی جگہ خَوَل پاس کی چڑھائی ہے۔ گورکھ کے زیریں حصے میں وسیع گاج ندی ہے ، جہاں ہوائی چھتری سے اُڑان (Paragliding) کا بھی انتظام موجود ہے ، جو یہاں آنیوالے سیاحوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔ یہ ندی بارشوں کے دوران دریائے سندھ کی طرح موجزن رہتی ہے ۔

کچھ عرصہ قبل محکمہ ثقافت سندھ نے اس خطے کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور دنیا کے ایڈوینچر فلمسازوں کی دلچسپی کے لیے ایک کمرشل ڈاکیومینٹری جاری کی تھی لیکن اس سائٹ کے لیے وفاقی و صوبائی سرکاری سطح پر ابھی تک کوئی پالیسی واضح نہ ہونے اور یہاں پر سیاحتی و انتظامی سہولیات کے اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک کوئی عالمی پیش قدمی نہیں ہوسکی ہے ۔ حالانکہ فطرت پسند سیاحوں کے لیے نہایت پُرکشش مقام ہے، جو دنیا کے سیاحوں کو یہاں کھینچ لانے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اس کے لیے اس سے متعلق عالمی سطح پر تشہیر اور سہولیات و ٹرانسپورٹ کے مزید اقدامات کے ساتھ ساتھ یہاں کی تزئین و آرائش کی بھی سخت ضرورت ہے ۔

یہاں کے انتظامات کے لیے 2008میں گورکھ ہلز ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی ۔ جس کے توسط سے کافی تعمیراتی کام کیے گئے ہیں۔ یہاں بجلی و پانی کا بھی بہتر انتظام ہے ۔ویسے تو یہاںہسپتال، شاپنگ مال ، بچوں کے لیے پارک اورباربی کیو پوائنٹ بھی زیر تعمیر ہے اور میوزیم و Zoo پارک کا پروجیکٹ بھی جلد شروع کرنے کامنصوبہ تیار کیا گیا ہے لیکن حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ترقیاتی اسکیموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ یہاں اچھے و معیاری رہائش کے حامل ہوٹل ،اعلان کردہ ہیلی کاپٹر سروس کو فعال اور وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ 20سال قبل تعمیرشدہ سیہون ایئرپورٹ کو بھی فعال کرنے اور وسعت دینے کی ضرورت ہے ۔

جب کہ گورکھ پر تفریحی سرگرمیوں کا سامان بھی مہیا کرنے کے انتظامات کیے جائیں، تاکہ قدرت کے شاہکار اس فطرتی سیاحتی مقام کے ساتھ ساتھ Mountain Adventure کے لیے Idealکھیر تھر پہاڑی سلسلہ عالمی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکے ۔

دشوار اور طویل راستے پر رہنمائی اور مناسب ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی لازمی ہے ، کیونکہ کراچی و دیگر علاقوں سے بہترین ہائی ویز پر لگژری گاڑیوں میں سفر کرکے آنیوالے سیاحوں کو کوہ کھیر تھر کے دامن میں واقع آخری شہر واہی پاندھی سے 1000سی سی سے الٹریشن کے ذریعے 1800سی سی بنائی گئی پرانے ماڈل کی پوٹو ہار گاڑیوں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے ،جو کہ کسی طرح بھی آرام دہ نہیں ہوتیں جب کہ 50سال سے دریافت شدہ اس تفریحی مقام گورکھ پر محض چند سال قبل کچھ ریسٹ ہاؤس اور ایک ریسٹورنٹ تعمیر کیا گیا ہے جوکہ گزشتہ 2برس کے دوران سوشل میڈیا پر مقامی نوجوانوں کی کوششوں سے بڑھنے والی سیاحوں کی تعداد کے لیے ناکافی ہیں جب کہ وہاں تفریحی سرگرمیوں کے لیے بھی بڑے پیمانے پر مزید تعمیرات کی اشد ضرورت ہے ۔

50سال سے نظرانداز کیے گئے ''گورکھ ہل'' پروجیکٹ کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جانا چاہیے اور سندھ کے خمیر میں شامل صوفیانہ نیازمندی اور ثقافتی رنگوں کو فروغ دینا چاہیے۔یہاں انڈس سولائیزیشن کے قدیم مقامات کے Monomentsاور ماڈل بھی تعمیر کیے جائیں اوردنیا کے جدید ترین سیاحتی مشاغل کا ماحول بنانے کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی سرمایہ کاری سے یہاں شجر کاری کر کے خوبصورتی میں اضافہ اور مری ایکسپریس وے کے طرز پر شاہراہ کی تعمیر سے مقامی و قومی سطح پر سیاحت کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جاسکتا ہے، جس سے لوگوں کو ذاتی گاڑیوں میں وہاں تک رسائی بھی میسر ہوگی اور تفریحی اخراجات و دشواریوں میں بھی کمی واقع ہوگی ۔

جب کہ سندھ حکومت کو چاہیے کہ گورکھ ہل اسٹیشن کے ساتھ ساتھ سندھ بھر کے سیاحتی مقامات سے متعلق ملکی و عالمی سطح پر ایک آگاہی تشہیری مہم چلائے ۔کیونکہ برصغیر میں یہ مقام تیسرے پُرفضا سیاحتی مرکز کی حیثیت کا حامل ہے ۔ اس منصوبے کی سنجیدہ اور پیشہ ورانہ کاروباری بنیادوں پر تعمیر و ترقی نہ صرف یہاں سیاحتی ماحول کو جلا بخشے گی بلکہ انڈس سولائیزیشن کے حقیقی خطے تک دنیا کو رسائی کا ذریعہ بھی بنے گی ۔ جس سے سندھ کا روادارانہ صوفی پیغام دنیا میں پھیلے گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں