’’رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن‘‘
یوں تو ہمارے پالیسی سازوں کے بیشتر بیانات شب و روز کے اس غم افروز ڈرامے میں Comic Relief کا کام کرتے ہیں۔۔۔
یوں تو ہمارے پالیسی سازوں کے بیشتر بیانات شب و روز کے اس غم افروز ڈرامے میں Comic Relief کا کام کرتے ہیں کہ ان کو سُن کر نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کا ''ہاسا'' نکل جاتا ہے اب اس ''ہاسا'' نکل جانے کی وضاحت کرنا اُس وضاحت سے بھی مشکل تر ہے جو وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار صاحب نے آئی ایم ایف سے تازہ ترین قرضہ لینے کی نوعیت کے حوالے سے کی ہے جس میں اور کئی باتوں کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ بجلی پر سبسڈی جو اپنی جگہ پر ایک پُر اسرار گُتھی ہے کہ وطنِ عزیز میں ہائیڈل پاور سے پیدا ہونے والی بجلی کی جو قیمت عوام بیس برس پہلے تک ادا کر رہے تھے اُس پر تو حکومت کسی قسم کی سبسڈی دینے کے بجائے انتظامی اخراجات کے حوالے سے معقول منافع کما رہی تھی۔
یہ نام نہاد سبسڈی تو دراصل اُن نالائقی، جلد بازی اور بعض صُورتوں میں بے ایمانی پر مبنی معاہدوں کی پیدا کردہ ہے جس میں پانی کے علاوہ دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے ایسے منصوبے شروع کیے گئے جن سے پیداواری اخراجات ایک دم کئی گنا بڑھ گئے جو نہ تو حقیقت اور انصاف پر مبنی تھے اور نہ ہی عوام انھیں سہارنے کے لیے مطلوبہ معاشی قوتِّ برداشت رکھتے تھے اور اب جو ان سبسڈیز کو بتدریج کم اور ختم کیا جا رہا ہے تو یہ محض لفظوں اور ہندسوں کی ایک شعبدہ بازی ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بعض دکاندار اور ادارے کچھ اشیاء کی قیمتیں ڈبل کر کے ان پر 50% رعایت یا Sale کا اشتہار لگا دیتے ہیں اور جب جب ان اشیاء کی پیداواری لاگت میں کسی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے تو وہ Sale کی صورت میں اعلان کردہ اپنی اس نام نہاد Subsidy کو کم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کا کام مشروبات بنانے والی کمپنیاں اپنے اپنے Off Season میں بھی دکھایا کرتی ہیں) مرحلہ وار ختم کردی جائے گی اور ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا لیکن اس سے عوام ، پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اس جملے میں عوام کا محلِ استعمال کم و بیش ویسا ہی ہے جیسا اس لطیفہ نما واقعے میں پیش کیا گیا ہے ایک اخبار کی خبر تھی کہ
''پاکستان میں اوسطاََ ایک عورت چھ بچے پیدا کرتی ہے ''
اس پر کسی صاحب نے کہا:
''یار اُس عورت کا پتہ کرو اور اسے روکو اس طرح تو آبادی بہت بڑھ جائے گی''
قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے رہنما خورشید شاہ نے اس صورتِ حال پر جو تبصرہ کیا ہے وہ گزشتہ حکومت کے گناہوں کا کفّارہ اور اقرار نہ سہی مگر ہے بہت دلچسپ اور معنی خیز کہ ''ان کشکول توڑ دینے کا اعلان کرنے والوں کا کشکول تو ہم سے بھی کئی گنا بڑا ہے'' ظاہر ہے اس کے جواب میں حکومتی وکلائے صفائی پچھلی حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے بہت سے ایسے اعداد و شمار پیش کریں گے جن کے ترتیب دہندگان وہی لوگ ہوں گے جو اب اُن کے لیے نئے اعداد و شمار وضع کر رہے ہیں اور اگر یہی صورتِ حال رہی تو آئندہ بھی یہ حضرات اسی طرح اپنے فرائضِ منصبی ادا کرتے رہیں گے کہ شائد اسی کو ہی انگریزی محاورے میں Honesty Among Thieves کہا جاتا ہے۔
اس پر مجھے یاد آیا کہ سترّ کی دہائی میں ایک لطیفہ نما واقعے کی بازگشت بہت دنوں تک سنائی دیتی رہی اس سے قطع نظر کہ اس میں کوئی سچائی اور حقیقت تھی یا نہیں یہ ہمارے پالیسی سازوں کے عمومی مزاح کا ترجمان ضرور ہے۔ کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کی گرفتاری اور ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد جب اُس وقت کے متعلقہ وزیر غلام اسحق خان (جو آگے چل کر صدرِ پاکستان بھی بنے) پہلی بار سعودی حکومت سے امداد حاصل کرنے کے لیے گئے تو انھوں نے اپنے سعودی ہم منصب شہزادہ فہد کو (جو آگے چل کر سعودی عرب کے بادشاہ بنے) کچھ اعداد و شمار اور شواہد کے ساتھ یہ بتایا کہ پچھلی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سعودی عرب کی امداد صحیح طور پر استعمال نہیں ہو سکی لیکن اب مردِ مومن جنرل ضیاء الحق اس کا استعمال پوری ایمانداری سے کریں گے سو ہمارے کاسے میں کچھ ڈال دیجیے۔ اس پر بقولِ راوی شہزادہ فہد غلام اسحٰق خان صاحب کو ایک طرف لے گئے اور کہا کہ باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن ایک بات میری سمجھ میں نہیں آرہی کہ وہ کون سی پچھلی حکومتیں تھیں جن کی غلط پالیسیوں کا آپ ذکر کر رہے ہیں کیونکہ میری یاد داشت کے مطابق گزشتہ پندرہ سال میں جتنی بھی حکومتیں بنی ہیں آپ ہی ان کے نمائندے کے طور پر آتے رہے ہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا اگر یہ سارا واقعہ فرضی ہو تب بھی جو سبق اس سے حاصل ہوتا ہے اُس کی سچائی اُنیس بِیس کے فرق سے قطع نظر اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کشکول توڑنے والی بات نیّت کے اعتبار سے صحیح ہونے کے باوجود خلافِ واقعہ اور Wishful Thinking تھی اور اقتدار میں آنے کے بعد زمینی حقائق اور عملی صورتِ حال ایسی ہی ہے کہ آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لیے بِنا کوئی چارہ نہیں تھا تب بھی عوام کی اس توقع اور خواہش کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ دعووں اور سرابوں کی ماری ہوئی خلقِ خدا مجبوریوں اور وضاحتوں کی نہیں، ایسے عملی اقدامات کی منتظر ہے جن کے نتائج کو وہ ہاتھ لگا کر دیکھ اور چُھو بھی سکے اور یہ کہ اگر اُس کے گھر کی تاریکی ختم نہیں ہوتی تو کم از کم وہ روشنی کو اپنی دہلیز کی طرف آتے ہوئے تو دیکھ سکے۔ بلاشبہ ہمارے جیسی قوموں کے معاشی مسائل چٹکی بجا کر حل نہیں کیے جا سکتے اس کے لیے کچھ وقت اور نتیجہ خیز پلاننگ درکار ہوتی ہیں لیکن جب
رات کے پردے سے پھر رات نکل آئے
اُس وقت کدھر جائے جو اہلِ نظر ہو گا
''ایک صاحب نے بڑے فخریہ انداز میں اپنے دوست کو بتایا کہ اس نے بہت خوش اسلوبی سے اپنے معاشی مسائل صرف ایک اخباری اشتہار کے ذریعے حل کر لیے ہیں۔ تفصیل پوچھنے پر بولے کہ میں نے اخبار میں اشتہار دیا کہ مجھے ایک گھریلو ملازم کی ضرورت ہے جس کو رہنے کے لیے جگہ بھی فراہم کی جائے گی۔ بہت سے امیدوار آئے۔ اُن میں سے ایک کو میں نے منتخب کر لیا ہے، اب وہ میرے ساتھ ہی رہتا ہے اور اُس کا کام یہ ہے کہ وہ تین وقت داتا دربار جائے خود کھا آئے اور میرے لیے لیتا آئے''
حکومت کی طرف سے بار بار عوام کو یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ موجودہ حالات میں جو کچھ اُس سے ممکن ہے وہ کر رہی ہے اور یہ کہ عوام کو بھی اُس کے ساتھ ساتھ کچھ کڑوی گولیاں نگلنا ہوں گی۔ جن میں سے ایک اس طرح کے قرضے بھی ہیں (جن کا بوجھ پتہ نہیں عوام پر کس طرح نہیں پڑے گا) سو عوام کو چاہیے کہ وہ صبر اور ضبط سے کام لیں اور اچھے دنوں کا انتظار کریں درمیانی مدّت کے لیے غالبؔ کا یہ شعر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی، ایک دن