رب کا شکر ادا کر بھائی
دفتر میں بیٹھ کر اپنی زندگی کے برے پہلوؤں پر غورکر رہا تھا۔
ISLAMABAD:
دفتر سے گھر جاتے ہوئے ایک شخص کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ بڑی مشکل سے سڑک پارکر رہا تھا۔ ثاقب ہمارے اسکول کا ذہین طالب علم تھا۔ کھیلوں اور تقریروں کے مقابلے میں وہ نمایاں تھا۔ جب ہم آٹھویں میں تھے تو وہ میٹرک میں تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں عمر میں ایک دو سال کا فرق بہت زیادہ ہوتا ہے جب کہچالیس پچاس کے درمیان یا اس کے بعد دو تین برسوں کا فرق ہم عمری کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ گویا ایک ایسا ہم عمر جو اسکول کے زمانے میں شاندار طالب علم تھا اب تقریباً معذور ہے۔ اس ایک منظر نے مجھے سڑک کے کنارے لاکر کھڑا کردیا۔ چند لمحے سوچنے کے بعد شکر کے جذبات پیدا ہوئے۔
تھوڑی دیر رکنے اور شکر کرنے کی ایک وجہ رہی۔ دفتر میں بیٹھ کر اپنی زندگی کے برے پہلوؤں پر غورکر رہا تھا۔ حالات کی مشکلات ذہن میں تھیں اور ان کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وکالت کی پریشانیاں،گھریلو مسائل اور لکھنے لکھانے کی الجھنیں۔ اب جو اپنے ہم عمر کو اپنے سے زیادہ تکلیف میں دیکھا تو ربّ کا شکر ادا کرنے کا جی چاہا۔ اس وقت کو کوسا جب دل میں ناشکری کے جذبات پیدا ہوئے تھے۔ ہم انسان ذرا سی تکلیف پر شکایتوں کے دفتر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو یاد کرتے ہیں جو ہم سے کم عمر و کم علم ہیں اور ان کے پاس مال دولت زیادہ ہے۔
ہم اپنے آس پاس کے ان لوگوں پر نظر دوڑاتے ہیں جنہوں نے ہم سے کم محنت کی ہے اور ہم سے کم ذہانت کے باوجود زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں۔ ہم کسی اور کو دیکھنے کے بجائے صرف اپنے آپ کو دیکھیں کہ چند برسوں قبل ہمارے پاس کیا تھا اور آج کیا ہے تو نوے فیصد سے زیادہ لوگ شکر ادا کریں گے۔ صحت کی بہتری کے حوالے سے بھی ایک بڑی تعداد سمجھے گی کہ وہ اب بہتر حالت میں ہیں۔ گویا تقریباً پچانوے فیصد لوگ ماضی کے مقابلے میں اپنی حیثیت اور صحت پر غور کریں تو اپنے آپ کو بہتر پائیں گے۔ آئیے آپ سے ایک ذاتی تجربہ شیئر کرتے ہیں۔
2003 میں واک کرنے جاتا تو ایک دو چکر بھی نہ لگا سکتا۔ دو تین منٹ میں سانس پھولنے لگتا۔ محسوس ہوتا کہ بلڈ پریشر ہائی ہے۔ ایک دوست کو تفصیل بتائی تو اس نے دو بیوقوفیوں کی طرف توجہ دلائی۔ پہلی ہاضمے کی ٹکیاں کھاتا تھا جس میں پچھتر فیصد کالا نمک ہوتا اور دوسرے پانی میں بچوں کے لیے آیا ہوا ORS گھول کر پیتا، یہ سوچ کر کہ گرمی کی وجہ سے نمکیات جسم سے کم ہو جاتی ہیں۔ ان دو کاموں سے کام خراب ہونا شروع ہوگیا۔ جسم میں نمک کی مقدار بڑھنے سے بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا۔جب یہ دونوں چیزیں چھوڑدیں تو معاملات درست رہنے لگے۔ دس سال سے اس بہتری پر اگر دس ارب مرتبہ بھی شکر ادا کیا جائے تو کم ہے۔
''جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے'' یہ گانا محبوب کے لیے بھی ہوسکتا ہے کہ جب عاشق اپنے عشق کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے تو اسے ہرطرف محبوب ہی محبوب نظر آتا ہے اور وہ یہ مصرعہ گنگنانے لگتا ہے۔عشق مجازی سے ہٹ کر عشق حقیقی کی طرف آئیں تو ہر طرف وہ نعمتیں نظر آتی ہیں جو رب کائنات نے ہمارے لیے رکھی ہیں۔ سورج سے گرمی اور چاندکی ٹھنڈک۔ ان سے پکنے والے پھل فروٹ و اناج۔ زمین سے تانبہ، سونا، پیتل، چاندی، تیل،گیس اور کھانے پینے کی ہر چیز۔
باہر سے اندر کی جانب آئیں تو سب سے بڑھ کر آنکھیں، کان، ناک، دل،گردے، ہاتھ، پاؤں،دماغ، پھیپھڑے وغیرہ اور پھر صحت۔ یہ چلنا پھرنا، یہ گھومنا پھرنا، یہ آنا جانا، یہ بولنا اور گانا۔ ہر چیز صحت کی منظور نظر ہے۔ اس میں خرابی بھی دو وجہ سے ہوسکتی ہے۔ اندر سے یا باہر سے۔ کوئی گاڑی یا اسکوٹر والا ہلکی سی چوٹ لگادے تو زندگی کی ساری رونقیں ختم ہوجائیں۔ کوئی چیز اوپر سے لگ جائے یا جسم سے گزر جائے تو ہلکی سی معذوری تمام پھنے خانی ایک منٹ میں ختم کرسکتی ہے۔ اندر کی جانب آئیں تو کوئی بیماری اسپتالوں کے چکر لگواکر تمام مال و دولت کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ دل، گردے، آنتوں یا کان کی بیماری ہو یا دماغ، ہاتھ پاؤں یا ہڈی کا کوئی مسئلہ ہو۔ یہ مسئلہ معذوری بناکر ہمیں بھی ثاقب کی طرح بڑی مشکل سے اور کسی سے مدد سے سڑک پار کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔
ثاقب کو جس دن سڑک پار کرتے دیکھا اس دن رب سے شکایت کر رہا تھا۔ وہ جاہل انسان کی ناشکری کا دن تھا۔ جب اسی کے ایک بندے کو زیادہ آزمائش میں دیکھا تو سڑک پر رک کر گناہوں کی معافی چاہی۔ صحت، وکالت، کالم نگاری، خاندان، دوست، اتنا کچھ شکر کرنے کا اور ذرا سی مصیبت پر ہم شکایتوں کے دفتر لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ابھی ثاقب کو سوچ رہا تھا کہ شعیب کی یاد آگئی۔ شعیب ہمارا فرسٹ کزن تھا اور پرائمری اسکول کے دور کا ساتھی۔ اس دور میں تو دو سال کا بڑا ہونا بہت کچھ ہوتا تھا۔ شعیب ہماری اسکول بس میں شیشے سے اندر کود جاتا اور ہمارے لیے جگہ روکتا۔ اس کے اندر جانے کے بعد ہم اسے اپنے بیگ دیتے اور وہ ہم سب کو بٹھانے کا انتطام کرتا۔جوں جوں ہم بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے اکثر بے تکلفی کے رشتے ختم ہوتے جاتے ہیں۔
شعیب کی کسی رشتے دار کا کوئی فیملی مقدمہ تھا۔ تمام معاملات خوش اسلوبی سے نمٹ گئے سوائے ایک کے۔ دفتر آنے کے بعد شعیب نے مجھے تم سے آپ کہنا شروع کردیا تھا۔ خواتین کے سامنے تو چپ رہا لیکن بعد میں اس سے اس تکلف کو برطرف کرنے کی گزارش کی۔ دو تین سال قبل سنا کہ شعیب گھر بیٹھ گیا ہے۔ اس کے بچے کام کر رہے ہیں لیکن وہ اب کہیں آتا جاتا نہیں۔ علم ہوا کہ وہ ذرا سا چلتا ہے تو اس کا سانس پھول جاتا ہے۔ شعیب کو دیکھا تو اس کا وزن بھی بڑھا ہوا تھا۔ سارا دن گھر بیٹھے رہنا اور چلنے پھرنے سے بھی معذوری ہو تو یہ تو ہونا تھا۔ مزید معلوم کیا تو پتہ چلا کہ شعیب کے پھیپھڑے سوکھ گئے ہیں۔
چند روز قبل شعیب کا انتقال ہوا تو اسکول کے زمانے سے اب تک کا پورا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا۔ اب سنا ہے کہ ارشد ایڈووکیٹ کا بھی گردوں کا کوئی مسئلہ ہے۔ پیٹ کی خرابیاں بڑی نازک ہوتی ہیں اور بڑی مشکل سے ہاتھ آتی ہیں۔ ہمیں رب کی رضا میں راضی رہنے کے علاوہ کیا کرنا چاہیے؟ ایک مثال واضح کردے گی کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ایک آدمی بس میں بیٹھا ہے۔ ڈرائیور کی غلطی یا کسی اور سبب سے وہ بس حادثے کا شکار ہوجاتی ہے۔ جو آدمی بس میں بیٹھا ہے اس کا کوئی قصور ہے؟ جی نہیں اس کی کوئی غلطی نہیں۔ اب ایک اور آدمی ہے جو بس پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے یا لٹکنے کے بعد حادثے کا شکار ہوگیا؟ یہ شخص قصوروار ہے۔ بالکل۔
اسے دوسری بس کا انتظار کرلینا چاہیے تھا۔ یہی مثال ریلوے پھاٹک کراس کرنے والوں یا کچی شراب پی کر مرجانے والوں کے بارے میں دی جاسکتی ہے۔ سگریٹ و سگار پینے والے یا گٹکا کھانے اور پان چھالیہ چبانے والے بھی اسی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں احتیاط سے بس میں سوار ہوجانا چاہیے اور پھر اوپر والے کی مرضی کہ وہ ہمیں منزل پر پہنچاتا ہے یا نہیں۔ بات آخری لمحوں میں واضح ہورہی ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ہمیں جلد سوکر جلد اٹھنا چاہیے، فطرت سے قریب تر رہنا چاہیے، کھانے پینے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ ورزش کرنی چاہیے اور سستی وکاہلی سے گریز کرنا چاہیے۔ مذہب کی جانب راغب رہنا چاہیے خدمت خلق کے ساتھ۔ ممکنہ حد تک اپنے علم میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے اور وقت ضایع کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر ہم یہ کام کرلیتے ہیں تو ہم گاڑی میں بیٹھ گئے ہیں۔ پھر اگر گاڑی حادثے کا شکار ہوجائے تو ہم قصور وار نہ ہوں گے۔ اگر ہماری لاپرواہی سے صحت خراب ہوجاتی ہے تو ہم خود شکار ہیں اور قصوروار ہیں۔ اگر قدرت کی آزمائش ہے تو وہ ہماری قدرت سے باہر ہے۔
ایک کام اور رہ گیا ہے۔ ان تمام تر احتیاطوں کے باوجود جو کچھ ہمارے پاس موجود و حاضر ہو اس پر شکر بجالانا چاہیے رب سے۔ ہلکی پھلکی خواہش بجا لیکن شدید خواہشات اور ہوس ہو تو وہ بے جا ہوگی۔ زیادہ کی خواہش اور ہوس کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھرسکتی ہے۔ ہادی برحقؐ کی اس بات کے بعد ہمارے لیے کیا رہ جاتا ہے؟ہم اپنے ساتھیوں کو اپنی خود کی یاد دہانی کی خاطر کہتے ہیں کہ رب کا شکر ادا کر بھائی۔