دیکھتے چلو
صرف 100 دن کا حساب پوچھنے والے اپنے ’’تیس سال‘‘ کا حساب دینے کو تیار نہیں
''ڈاھڈا اوکھا ویلا ہے'' 70 سال کا گند صاف کرنا ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، 70 سال میں لوٹ مار ہی ہوتی رہی ہے صرف چند ساعتیں سکون کی ملیں، اور وہ بھی لٹیروں سے برداشت نہیں ہوئیں، ملک کو بننے کی طرف جانے ہی نہیں دیا گیا، بربادی کا ہر کام کیا گیا، سارے ملک کو امریکا کے اشاروں پر نچایا گیا اور ''سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا'' اب کہ جب سب کچھ لٹ چکا تو آواز بلند ہو رہی ہے کہ ''ہم کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے'' اور یہ آواز جو بلند کر رہا ہے اس عمران خان کی ٹانگیں کھینچنے پر سب لگے ہوئے ہیں۔
امریکا نے ہمیں کیا دیا؟ دھوکا، فریب، دغابازی اور نتیجہ بربادی۔ ادھر اپنے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو فہم و فراست والے تھے مگر ان لوگوں نے اپنی فہم و فراست کو بیچ کر اپنے لیے آسائشیں خرید لیں یہ ''لوگ'' مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رہے فیضؔ کہتے رہے ''بول کہ لب آزاد ہیں تیرے'' مگر یہ لوگ ابن الوقت، موقع پرست، چپ کے سایوں کو پھیلاتے رہے اور اگر کوئی غیرت مند ''مجرمانہ چپ'' کے خلاف بولتا تھا اور کہتا تھا:
اپنے ہونٹ سیے ہیں تم نے
میری زباں کو مت روکو
تم کو اگر توفیق نہیں تو
مجھ کو ہی سچ کہنے دو
تو ایسی بات کہنے والے حبیب جالبؔ کا ساتھ کسی نے نہ دیا، سارے ''فہم و فراست'' والے درباری بنے رہے، اپنے ''حالات'' ٹھیک کرنے میں جتے رہے اور کروڑوں غریب، تنگ و تاریک راہوں میں مرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے۔
آج بھی بڑے عالی شان ڈرائنگ روموں میں پنج ستارہ ہوٹلوں میں یہ ''فہم و فراست'' والے بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ''پاکستان ایک کرپشن فری'' ملک ہے۔ یہاں کرپشن کا نظام ہی چلے گا ''اسے یوں ہی چلنے دو'' یہ وہ فہم و فراست والے ہیں جن کے کاروبار خوب چل رہے ہیں، پھل پھول رہے ہیں۔ بیرون سے بھی فنڈ آجاتے ہیں اور خوب وارے نیارے ہیں۔ چین، ملائیشیا، ترکی بھاڑ میں جائیں۔ مہاتیر، طیب اردوان کا قصہ چھوڑو، ان کا ذکر بے کار ہے۔
پاکستان میں کرپشن کرو اور جیو، غریبوں کو مرنے دو، غربت غربت کی گردان بند کرو۔ لاہور میں گورنر ہاؤس کی صدیوں سے قائم مضبوط دیواروں پر چند ہتھوڑے ہی پڑے تھے کہ ظالم بلبلا اٹھے۔ کوئی عدالت میں جا پہنچا کہ ''ظلم اور قتل گاہ کی حفاظتی دیوار کو گرانے سے روکا جائے'' جب عمران خان غریبوں کے لیے 50 لاکھ مکان اور ایک کروڑ نوکریوں کی بات کرتا ہے تو یہ ظالم ہنستے ہیں اور مذاق اڑاتے ہوئے صرف 100 دن کا حساب پوچھتے ہیں اور اپنے ''تیس سال'' کا حساب دینے کو تیار نہیں۔ ''50 لاکھ مکان اور ایک کروڑ نوکریاں'' یہ غریبوں کی فوری ضرورت ہے۔ اس فوری ضرورت کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس تلخ حقیقت کی طرف کوئی نہیں آتا۔ پاکستان کو لوٹ کر اپنے خزانے بھرنے والے بڑی دیدہ دلیری سے جی رہے ہیں۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں' آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
چمڑی جاتی ہے تو جائے مگر دمڑی نہ جائے۔ شریفو یہ ''مال'' سب اسی پاکستان نے تمہیں دیا ہے، تو امانت دار کو ان کی امانت لوٹا دو۔ اس ''مال سے بڑی عیاشیاں کرلیں اب بس کردو۔ یہ ملک تم سے کہہ رہا ہے (ایک فلمی گیت میں تصرف کے ساتھ)
میرا مال مجھے لوٹا دو
میں قرضوں میں جکڑ گیا ہوں
تم قرضہ چھڑوا دو
میرا مال مجھے لوٹا دو
گنے کے کاشتکار سڑکوں پر سراپا احتجاج رہے، چینی کے مل مالکان اپنی ملیں بند کیے بیٹھے ہیں، گنے کی فصل خریدنے کے لیے دھوکا بازی کی جا رہی ہے۔ ملک میں ساری شوگر ملیں، انھی سیاستدانوں کی ہیں جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ خود عمران خان کی تحریک انصاف میں 40 شوگر مل مالکان بیٹھے ہیں۔ عمران خان کس کس سے نمٹے۔ کالی بھیڑیں تو ہر جگہ ہی موجود ہیں۔
جب گورنر ہاؤسز، وزیر اعلیٰ ہاؤسز، ایوان وزیراعظم، صدارتی محل کے خاتمے کی باتیں کی جاتی ہیں تو ''زر پر بکنے والوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے''(یہ مصرعہ شاعر توقیر چغتائی کا ہے) مگر غریبوں کواس سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ غریبوں کی حسرتیں، ارمان، آرزوئیں، تمنائیں اور سبھی کچھ ان بلند و بالامضبوط عمارتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ انھیں گرا ہی دینا چاہیے اور انھیں تعلیم، اسپتال کے لیے بھی مخصوص کر دیا جائے۔
گند صاف کرنے میں بڑا وقت لگے گا اور اس گند کو صاف کیے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ عمران خان اسی بنیاد پر وزیر اعظم بنا ہے کہ اس نے سارے لٹیروں سے لوٹا ہوا عوام کا پیسہ پیسہ واپس لینا ہے اور ''ظلمت کدوں'' کو ڈھانا ہے۔ اس بات پر کسی کو حیران اور پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر کوئی پریشان ہوتا ہے تو اس کا کیا کیا جائے؟
خطے میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں امریکا نے بھی گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ مگر اب اس امریکا سے دور ہی رہنے میں عافیت ہے۔ ہندوستان، ایران، روس، چین، افغانستان ہمارے ہمسائے ہیں۔ ان سب کے ساتھ موجودہ حالات خوش آیند ہیں۔ سعودیہ، ملائیشیا، ترکی، خلیج کی ریاستیں، ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں یہ سب غیرت مندی کا مظاہرہ کرنے کے سبب ہوا ہے۔ عوام مضبوط، مستحکم پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں انصاف کا بول بالا ہو اور دشمنوں کا منہ کالا ہو۔ اخبار ابھی دیکھا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی تاریکی میں ڈوب گیا، اندھیروں سے کیا نکلے گا؟