شاید

برٹرینڈ رسل کا ایک قول سب کے لیے مشعل راہ کا کام دے سکتا ہے۔ اس مفکر کی نظر میں محبت سے دو...



برٹرینڈ رسل کا ایک قول سب کے لیے مشعل راہ کا کام دے سکتا ہے۔ اس مفکر کی نظر میں محبت سے دو طرح کی مسرتیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ فرض کیجیے آپ ایک بادبانی جہاز میں سفر کررہے ہیں اور آپ کو ایک حسین اور دلفریب منظر دکھائی دیتا ہے اور آپ اس منظر کی سحر انگیز تابندگی سے مسحور ہوکر ساحل کے لیے پیار کی ایک لہر محسوس کرتے ہیں۔ اس پیار میں آپ کو ایک عجیب طرح کی مسرت کا احساس ہوگا۔ لیکن اگر آپ کا جہاز تباہ ہورہا ہے اور عین جس وقت آپ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوں اور اچانک آپ کو ساحل نظر آجائے تب بھی آپ مسرت کی وہی والہانہ لہر محسوس کریں گے، لیکن یہ خوشی پہلی خوشی سے قطعاً مختلف ہوگی کیونکہ یہ منظر کی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں بلکہ ساحل کے طفیل موت سے محفوظ رہنے کی وجہ سے ہوگی۔

لہٰذا پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی قومی اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بعد پہلی تقریر سن کر مجھے اس دوسری خوشی کا بھرپور احساس ہوا۔ جس کی بنیاد تقریر کا متوازن ہونا اور تقریر میں درست مسائل کی نشاندہی، ان کا حل اور نئے وسائل کو پیدا کرنے جیسے بنیادی نکات بھی شامل تھے۔ کیونکہ دوران علاج عمران خان نے مختلف مسائل پر جس جارحانہ انداز میں اظہار خیال کیا تھا ان سے یہ خدشات پیدا ہوچلے تھے کہ شاید خان صاحب آنے والے دنوں میں مثبت اپوزیشن کے بجائے منفی تنازعات میں الجھنے والے ہیں اور آنے والے پانچ سال بھی جانے والے پانچ سال کی طرح ملک کی ڈوبی ہوئی معیشت، سرحدی تنازعات، امن وامان کی روز مرہ اور تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال اور مہنگائی کے طوفان پر قابو پانے کے بجائے حکومت اور اپوزیشن کی باہمی لڑائی، جھگڑوں کی نذر ہوجائیں گے۔ لیکن بظاہر اور فی الحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا بلکہ اسمبلی میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا اپنی نشست سے اٹھ کر عمران خان سے ملنا ان کی صحت سے متعلق دریافت کرنا اور بعد ازاں اپنے خطاب میں مل جل کر ساتھ چلنے اور تمام مسائل کے حل کے لیے اتفاق سے حکمت عملی ترتیب دینے اور جواباً عمران خان کی لطیف، طنزیہ اور کچھ مزاحیہ جملوں نے تو بلا شبہ قوم کو اس خوش فہمی میں مبتلا کردیا ہے کہ ہمارے سیاستدان بالغ بھی ہوگئے ہیں اور بالغ النظر بھی۔ دوسری جانب قطر کے دارالخلافہ ''دوحا'' میں افغان طالبان کی جانب سے ایک باقاعدہ اور باضابطہ دفتر کا کھولنا، امریکی وفد کا ان سے مذاکرات کے لیے قطر آنے کا اعلان کرنا اور صدر بارک اوباما کی تقریر جیسی خبریں بھی اس دوسری مسرت کے پیدا ہونے کا سبب بنیں جو ڈوبتے ہوئے جہاز پر ساحل کو دیکھ کر ہوتی ہے۔

آنے والے دن کیسے ہوں گے، کبھی تو انھیں سوچ کر دل دہل جاتا ہے اور کبھی مسائل کے اس سیل رواں میں کچھ پر سکون اور پر اطمینان لہریں بھی کہیں کہیں موجزن دکھائی دیتی ہیں۔کیونکہ جانے والا وقت بھی دکھوں کی، غربت کی، افلاس کی، نہ ختم ہونے والی مہنگائی کی، کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں قتل وغارت گری کی، دھماکوں کی، ایک ایسی ناقابل فراموش داستان رقم کرگیا ہے جو بھلائے سے نہیں بھولتی۔ جس کے خدوخال قلب و نظر پر اس طرح سے کندہ ہیں کہ مٹائے سے نہیں مٹتے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکز میں ختم ہوجانے والی حکومت پر پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں اس قدر تنقید ہوچکی ہے کہ اب اس پر مزید کوئی تبصرہ یا تنقید کرنا بعینہ اپنے الفاظ کو ضایع کرنے کے مترادف ہے اور پھر اطمینان بخش صورتحال بھی ہے کہ پی پی پی کی کارکردگی کا نتیجہ عوام کا وہ ردعمل ہے جو ان کی جانب سے الیکشن میں بہت صاف اور واضح طور پر سامنے آچکا ہے اور اب جب کہ مسلم لیگ ن کی نئی قائم ہونے والی حکومت کا پہلا بجٹ سننے، پڑھنے اور سمجھنے کو ملا تو صاف لگا کہ :

بے سہاروں کا انتظام کرو
جاؤ پھر ایک قتل عام کرو
سانپ سرگوشیوں میں کہتے ہیں
آستینوں کا انتظام کرو

اگرچہ پاکستان میں یہ روایت مضبوط تر ہے کہ مشورہ اچھا ہو یا برا، دونوں صورتوں میں اسے مان کر نہیں دینا لیکن میں پھر بھی حکمرانوں سے یہ گزارش ضرور کرنا چاہوںگا کہ آپ اب کس عوام سے مزید قربانی مانگ رہے ہیں۔ اس عوام سے جو سابقہ جمہوری وآمرانہ حکومتوں کے بدترین ظلم، جبر، استبداد اور ان کے من مانے فیصلوں کا شکار رہی، جو حکومتیں ان کے خون پسینے سے جمع کیے گئے ہزاروں ارب روپے اب تک ہڑپ کرچکیں، جو محض ان پر نت نئے ٹیکسوں کو عائد کرتی رہیں، وہ عوام قربانی دے جن پر مہنگائی کو اس حد تک لاد دیا گیا کہ صرف ایک وقت کا کھانا ان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا، جن میں سے سیکڑوں والدین نے اپنے بچوں سمیت خودکشی جیسا انتہائی اور آخری راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی اور آخر میں ان مرتے اور سسکتے ہوئے لوگوں پر بجلی، گیس اور پانی کو بھی بند کردیا گیا۔

یہ عوام نہیں ہیں، جن سے آپ بحیثیت حکمران مخاطب ہیں یہ زندہ بدست مردہ لوگ ہیں جو آپ کے جلسوں میں یہ امید لے کر شریک ہوئے تھے کہ ''شاید'' اس بار شاید اس سال، کچھ ہوجائے گا، شاید آٹا سستا ہوجائے اور وہ روٹی پانی میں بھگو کر کھا لیں۔ آپ کن سے قربانی مانگ رہے ہیں، محترم وزیراعظم! یہ عوام نہیں رہے اب یہ فقیر ہیں، گلیوں، کوچوں، محلوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے فقیر۔ جھلستی اور آگ برساتی ہوئی شدید گرمی میں، کھیتوں اور اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے فقیر، جو اب اپنی اجرت سے صرف روٹی بھی نہیں کھاسکتے۔ اور حکمرانوں یہ قربانی آپ سیاستدان کیوں نہیں دیتے، یہ قربانی وہ طبقہ کیوں نہیں دیتا جو ارب، کھرب پتی ہے، جو ہر صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ان غریبوں کا خون چوسنا شروع کرتا ہے اور ہر شام کی آخری کرن کے بعد ان پیسوں کو یا جمع کی گئیں ان خون کی بوندوں کو گنتا ہے اور آرام سے محوخواب ہوجاتا ہے۔ یہ قربانی آپ اس اسٹیبلشمنٹ سے کیوں نہیں مانگتے جس نے پچھلے 40 برسوں سے کوئی جنگ نہیں لڑی، لیکن ہر بجٹ میں ان کے لیے ایک خطیر حصہ موجود ہوتا ہے۔ اس بیوروکریسی سے یہ قربانی مانگیے جو آج تک ملک میں امن و امان قائم کرنے سے معذور ہے، اپنی ہر ذمے داری ادا کرنے سے معذور ہے، لیکن ان کی طاقت اور رشوت کا یہ حال ہے کہ ان کے بچے بیرون ملک مہنگے ترین اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں، رہائش پذیر ہیں۔ اور اگر آپ پھر بھی اس عوام سے قربانی مانگنے پر مصر ہیں تو جان لیں حکمران ، کہ یہ لوگ اب اپنے گھروں میں نہیں قبروں میں رہتے ہیں۔ آپ کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوگی۔ آپ کا حالیہ بیان پورے ملک میں سناگیا لیکن اسے سن کر ہنسی آگئی۔ ایسی ہنسی جس کے ساتھ آنسو بھی تھے۔ ایسی ہنسی جس کے ساتھ آہیں بھی تھیں۔ اور نظر تھی کہ بے ساختہ آسمان کی جانب اٹھ گئی۔

ہونٹوں پر وہی ''شاید'' تھا اس شاید میں نہ جانے ایسا کیا ہے کہ ہم اپنی بچی کچھی سانسیں لینے پر مجبور ہیں اور کہے چلے جاتے ہیں کہ شاید یہ حکومت، یہ موسم، اس بار، اس سال، یہ ساون، وہ بھادوں، کچھ ہوگا، کچھ نیا، شاید پہلے سے بہتر۔

دنیا ہمیں اس موڑ پر لے آئی ہے آخر
ہنسنا تو بڑی بات ہے، رو بھی نہیں سکتے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں