تیمر کے پودے لگانے کا ریکارڈ
میری نظر سے یہ خبر گزری کہ سندھ فاریسٹ ڈپارٹمنٹ ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے 5 ملین روپے کا قرضہ لے کر ضلع ٹھٹھہ کے ۔۔۔
میری نظر سے یہ خبر گزری کہ سندھ فاریسٹ ڈپارٹمنٹ ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے 5 ملین روپے کا قرضہ لے کر ضلع ٹھٹھہ کے علاقے کھارو چھان میں ڈیلٹا کے قریب ساحل سمندر پر سات لاکھ سے زیادہ تیمر Mangrovesکے پودے لگا کر ہندوستان کا پچھلا ریکارڈ توڑا ہے جب کہ اس سے پہلے پاکستان نے 2009 میں ریکارڈ قائم کیا تھا اور پھر انڈیا نے یہ ریکارڈ2010 میں توڑا تھا۔
اس پروجیکٹ میں انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر میڈیا پارٹنر ہے۔ ورلڈ بینک کا بھی تعاون ہے، میرین بائیو لوجسٹس، سندھ کونسل ڈیولپمنٹ اتھارٹی، سندھ کونسل کمیونٹی ڈیولپمنٹ بھی شامل ہیں۔ اس پروجیکٹ کے پروگرام کو دیکھنے کے لیے بین الاقوامی اور مقامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافی اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے پاکستانی نمائندے بھی موجود تھے۔ اس موقع پر آنے والے مہمانوں کی خاطر کے لیے ڈنر اور میوزک کا بھی پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ فنکاروں اور گلوکاروں کو تقریباً 4لاکھ روپے دیے گئے۔
یہ اچھی بات ہے کہ اس 5 سالہ پروجیکٹ کو مکمل کرنے میں بڑی محنت کی گئی ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے لوگ، صحافی اور دوسرے پروجیکٹ پارٹنرز نے اس بات کو کبھی نہیں دیکھا کہ ہر سال اتنے پودے لگائے تو جاتے ہیں جس کے لیے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، لوگ اپنا وقت نکال کر آتے ہیں کہ اس سے وابستہ فوائد اور مقصد حاصل ہوں۔
مگر کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ لگائے گئے پووں میں سے کتنے پودے بچ چکے ہیں کیا وہ بڑے ہوچکے ہیں؟ کیونکہ پودا لگانا اتنا مشکل کام نہیں ہے جتنا کہ ان کا پوسٹ کیئر ہے، ان کی دیکھ بھال، ان کی نشوونما اور افزائش کے لیے کیا کیا انتظامات اور اقدام کیے گئے ہیں؟ ہمارے صحافیوں کو چاہیے تھا کہ وہ اس سلسلے میں ایک جامع رپورٹ بناتے اور باقی آرگنائزیشن بھی اس کا حساب کتاب پوچھیں اور رکھیں۔ اتنے لاکھ پودے ہر سال لگتے ہیں مگر صحیح دھیان نہ دینے کی وجہ سے وہ مر جاتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ؟
تیمر کے درخت کو ساحل کا سپاہی کہا جاتا ہے جو ساحل سمندر سے آنے والے خطرات کو روکتا ہے، یہ پہلی ڈیفنس لائن ہے جو سمندری طوفان، سائیکلون اور کئی خطرات کا سامنا کرتا ہے۔ ایک تو ڈیلٹا تک دریائے سندھ کا پانی نہیں پہنچتا ہے جس کی وجہ سے سمندر کا کھارا پانی ساحلی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، لاکھوں ایکڑ زمین کھارے پانی کی وجہ سے بیکار ہوچکی ہے، گاؤں کے گاؤں وہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں کیونکہ ایک تو وہ بے روزگار ہوگئے ہیں اور دوسرا ان کی زمین بنجر ہوچکی ہے۔ یہ لوگ مچھلی کے شکار پر اپنی معیشت کو چلا رہے تھے وہ رک گئی ہے۔
اس سلسلے میں حکومت سندھ، حکومت پاکستان، این جی اوز اور صحافی مل کر مسئلے کو اٹھائیں اور بین الاقوامی سطح پر کوششیں تیز کریں اور جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہوجائے سکون سے نہ بیٹھیں۔ تیمر کے پودے لگانے والے پروگرام اور پروجیکٹ کے لیے فاریسٹ ڈپارٹمنٹ نے 3 سو کے قریب لوگوں کو ہائر کیا تھا جو صبح کے ساڑھے پانچ بجے سے شام 6:30 بجے تک تیمر کے پودے اندازاً 750 ہیکڑ پر لگاتے رہے۔ ان ورکرز کو دس گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر گروپ میں 30 افراد شامل تھے جن کے پاس دو (بیگ) تھیلے تھے جس میں ہر ایک میں 11 سو پودے موجود تھے۔
ان افراد کا کہنا ہے کہ ایک ہزار روپے اور دو جوڑے کپڑوں کے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 4 لاکھ روپے موسیقی کے پروگرام پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس سے اچھا تھا کہ ان میں کچھ پیسے ڈال کر تیمر کے پودوں کی دیکھ بھال کے لیے کچھ افراد متعین کرواتے اور ان کے کام کو دیکھنے کے لیے وہ ہر ہفتے ایک وزٹ کرتے۔
میں آج تک اس بات کو سمجھ نہیں پایا کہ جتنے بھی پروجیکٹ چاہے وہ صحت کے ہوں، تعلیم کے ہوں یا پھر عورتوں کی بھلائی کے، ان کے لیے بڑے بڑے لوگوں کو بڑے بڑے ہوٹلوں میں بلایا جاتا ہے، اس میں تقریریں کی جاتی ہیں، اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں، میڈیا کوریج حاصل کی جاتی ہے جس کے فوٹو اور ویڈیو اداروں کو بھیج دیے جاتے ہیں کہ ہم نے awareness کے لیے پروگرام کیے ہیں اور لوگوں نے شرکت کی ہے۔ تیمر کے پودوں کے سلسلے میں اگر وہاں کے لوگوں کو بلاکر ان میں شعور پیدا کیا جائے کہ پودے تو ہم لگا رہے ہیں مگر ان کی دیکھ بھال آپ کریں، جس سے ان کو فائدہ ہے کیونکہ ان گاؤں والوں کی بھی معیشت ان سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ کوسٹل ایریاز میں اور بہت سارے ادارے ہیں ان کو بھی احساس دلایا جائے کہ وہ وہاں پر آتے جاتے ان پودوں کی دیکھ بھال میں اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ یہ فرض اجتماعی ہے جسے پورا کرنے کے لیے عزم اور جذبہ چاہیے، جسے میڈیا اور باقی اداروں نے پیدا کرنا ہے۔
تیمر کی چار اقسام ہیں اور ہر قسم کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں۔ جب یہ درخت ایک فاریسٹ کی شکل اختیار کرتے ہیں تو اس میں مچھلی،جھینگے، کیکڑے اور دوسری آبی مخلوق اپنا گھر بناتی ہیں، وہاں وہ انڈے اور بچے دیتے ہیں جو انسانوں کی خوراک کے ساتھ پرندوں کی بھی خوراک ہیں اور انھیں بیچ کر لوگ اپنا پیٹ بھی پالتے ہیں، اس کے علاوہ قدرتی آفتوں سے بھی یہ درخت ہم لوگوں کو اور علاقے کو بچاتے ہیں اور محفوظ رکھتے ہیں۔ جب یہ فاریسٹ کی صورت میں ہوتے ہیں تو ان کی جڑیں ریت میں ایک پہاڑ کی طرح مضبوطی بنالیتی ہیں اور پھر سمندر کے کھارے پانی کو آگے بڑھنے سے بھی روکتی ہیں۔
دنیا میں اس طرح کے درختوں کے فاریسٹ موجود ہیں جس میں پاکستان 24 ویں نمبر پر ہے مگر جہاں بھی یہ فاریسٹ ہیں وہاں کی حکومتوں نے انھیں محفوظ رکھنے کے لیے بھرپور انتظامات کیے ہیں۔ مگر ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے ڈیلٹا کے چاروں طرف ریت بہت زیادہ جمع ہوگئی ہے جسے ہٹانے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ اس ڈیلٹا میں 17 بڑے کریکس اور کچھ چھوٹے کریکس موجود ہیں۔
ہماری یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہمارے پاس جو قدرتی وسائل ہیں انھیں ہم خود بھی ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جس میں سندھ میں دوسرے فاریسٹ کو ختم کرنے میں مافیا مصروف ہے، اسی طرح تیمر کے فاریسٹ کو بھی تیزی کے ساتھ ختم کیا جارہا ہے اور موجودہ درختوں کو کاٹ کر اس کی لکڑی بیچ رہے ہیں جو ایک بہت بڑا جرم ہے، جسے گاؤں والے اس لیے نہیں روک سکتے ہیں کہ اس مافیا کے لوگ بڑے بااثر ہیں۔ اس میں حکومت نے بھی اپنا رویہ ایسا رکھا ہوا ہے جیسے وہ بے خبر ہے اور اگر جانتے بھی ہیں تو منہ اس طرح کرلیتی ہے کیونکہ اس مافیا میں شامل لوگوں کی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی ہے۔ لیکن ہم سب پاکستان میں رہتے ہیں اور ہمیں اپنے قدرتی وسائل کو بچانا ہے، ان کی حفاظت کرنی ہے، ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا اور پھر ایک بار ہم دوسروں کی طرف دیکھیں گے جو ہماری غیرت کی موت ہے۔