ہمارے دو صوبے اور ایک شہر
الیکشن2013 کے نتائج جو بھی آئے جیسے بھی آئے جس طرح بھی آئے عام و خاص سبھی نے ان نتائج کو قبول کر لیا ہے۔
الیکشن2013 کے نتائج جو بھی آئے جیسے بھی آئے جس طرح بھی آئے عام و خاص سبھی نے ان نتائج کو قبول کر لیا ہے۔ چند سیٹوں پر بہت زیادہ واویلا مچا۔ وہاں بھی دوبارہ پولنگ کے بعد حالات معمول پر آ گئے۔ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، الیکشن کمیشن کی کارکردگی میں خامیاں تھیں، مگر ملک کو درپیش سنگین حالات میں الیکشن 2013کا ہو جانا اور ایسا الیکشن ہو جانا کہ جسے قبول بھی کر لیا جائے یہ بہت بڑا معجزہ ہے۔ یہ سب خدا ہی کے رحم و کرم کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں حلف برداری کے بعد بحال ہو چکیں۔ وزیر اعظم اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ نے اپنے منصب سنبھال لیے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی وزراء بھی حلف اٹھا چکے ہیں، خصوصاً صوبہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کا حلف اٹھانا۔ یہ سب موجودہ سیاست دانوں کی فہم و فراست کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ واقعی ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کی غلطیوں سے ٹھیک ٹھاک سبق حاصل کیا ہے۔
صوبہ بلوچستان میں تربت کے غریب گھرانے کے ڈاکٹر عبدالمالک کے نام پر بلوچستان کے روایتی سردار گھرانوں کا اقرار! یہ بہت بڑا انقلاب ہے۔ یقینا آج کے حالات نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ گزشتہ 65 سالوں میں کیا کچھ ہوتا رہا، یہ سب جانتے ہیں اور اب بھی بلوچستان میں حالات کو بہتر نہیں کہا جا سکتا۔ مگر وزیر اعظم نواز شریف نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خود کو اور اپنی جماعت کو پیچھے ہٹایا اور بلوچستان کی وزارت اعلیٰ ایک عام گھر کے مضبوط کردار اور ماضی رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک کو سونپ دی۔ڈاکٹر عبدالمالک سابق نیشنل عوامی پارٹی کے تربیت یافتہ ہیں۔
یہ جماعت پاکستان کے سچے کھرے اور بے باک رہنماؤں کی جماعت تھی۔ آئیے کچھ یادیں تازہ کر لیں۔1958 کے لگ بھگ نیشنل عوامی پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس جماعت میں پورے ملک کے بے مثال لوگ شامل تھے۔ صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) سے خان عبدالولی خان، اجمل خٹک، ارباب سکندر خان خلیل، افضل خان، بنگال (مشرقی پاکستان) سے مولانا عبدالحمید خان بھاشانی، پروفیسر مظفر احمد، پنجاب سے میاں محمود علی قصوری، راؤ مہروز اختر، حبیب جالب، طاہرہ مظہر علی، باجی تسلیم، سندھ سے محمود الحق عثمانی، عبدالحمید جتوئی، حسن ناصر شہید، لالہ لعل بخش رند، فصیح الدین سالار، انیس ہاشمی، عابد زبیری، ڈاکٹر اعزاز نذیر، بلوچستان سے میر غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، عطاء اللہ مینگل، گل خان نصیر، ہاشم غلزئی، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، ان اعلیٰ کردار والے لوگوں کا نوجوان ساتھی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنا ہے۔
ڈاکٹر مالک کے حلف اٹھانے کے دو چار روز بعد ہی، زیارت میں قائد اعظم کی آخری ایام کی رہائش گاہ کو مکمل تباہ کر دیا گیا۔ دوسرے روز بولان میڈیکل کالج کی بس میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے سے 18 طالبات کو شہید کر دیا گیا۔ اور بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اس واقعے کے فوراً بعد دہشت گرد، بولان میڈیکل اسپتال میں مریض بن کر داخل ہوئے اور اسپتال میں موجود ڈاکٹرز، دیگر عملہ، مریض اور ان کے لواحقین یرغمال بن کر رہ گئے۔ دہشت گردوں نے کئی گھنٹوں تک فورسز کا مقابلہ کیا اور بالآخر خود کو بم سے اڑا کر کارروائی کا خاتمہ کر دیا۔
یہ الیکشن 2013کے بعد اسمبلی بحال ہونے اور وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے بعد کا بلوچستان ہے۔ لشکر جھنگوی نے فخریہ اس دہشت گردی کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور بلوچستان میں موجود فورسز خاموش ہیں۔ کوئی جھنگوی ابھی تک گرفتار نہیں ہوا ہے۔ یہ حال ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک جیسے سیاسی کارکن کو بھی ''حالات'' قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ تو پھر کیا چاہتے ہیں یہ ''حالات''۔ یہ ''حالات'' سے پوچھ لو۔
ادھر صوبہ خیبرپختونخوا میں طالبان کا کام جاری ہے۔ اپنے سینیٹر شاہی سید اور سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا امیر حیدر ہوتی کے شہر مردان میں نماز جنازہ میں ''طالبان'' کے ایک خود کش بمبار نے خود کو اڑایا، نتیجہ 30 افراد شہید اور 70 زخمی۔ اس صوبے میں طالبان کے شدید مخالفین عوامی نیشنل پارٹی کا الیکشن 2013میں عوام نے صفایا کر دیا اور طالبان سے مذاکرات کی حامی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر اوپر آ گئی۔ جیتنے والی دیگر جماعتیں مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام اور شیرپاؤ صاحب کے لوگ شامل ہیں۔ یہ تمام جیتنے والی جماعتیں طالبان کے لیے درجہ قبولیت رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں نے عمران خان کی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بھی بنا لی ہے، مگر طالبان پھر بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ذرا سوچیے! امریکی ڈرون بھی لوگوں کو مار رہے ہیں اور طالبان بھی لوگوں کو ہی مار رہے ہیں، لگتا ہے کہ بلوچستان والے ''حالات'' کو خیبرپختونخوا میں تبدیلی بھی قبول نہیں ہے تو طالبان سے پوچھ لو کہ بھئی! آخر تم کیا چاہتے ہو؟ یہاں کے ''حالات'' سے پوچھ لو کہ کیا چاہتے ہیں؟ہمارے دو صوبوں کے یہ حالات ہیں۔ شہر کراچی کا میں ذکر نہیں کر رہا کہ جہاں وہی حالات کم و بیش جاری ہیں کہ جو پچھلے پانچ سال میں جاری رہے۔ وہ جالب نے کہا تھا نا! ''وہی حالات ہیں فقیروں کے'' تو ذرا سی ترمیم کے ساتھ میں کہوں گا:
وہی حالات ہیں کراچی کے
دن پھرے ہیں' تو اپنے ''شاہ جی'' کے
شاہ جی تیسری بار وزیر اعلیٰ بن گئے۔ چلو یہی خوشی کی بات سہی۔ اسی پر ہم خوش ہو لیتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے 19 جون 2013 کے دن قومی اسمبلی میں حلف اٹھا لیا۔ اسمبلی میں خان صاحب کی آمد، ان کا استقبال، ان کی تقریر یہ سب کچھ میں اپنی مصروفیت کی وجہ سے نہ دیکھ سکا۔ خیر آج کل میں جان جاؤں گا، یقیناً عمران خان نے اچھی باتیں کی ہوں گی۔ ملک کے حالات خصوصاً صوبہ بلوچستان اور اس کے ساتھ لگا ہوا ہمارا شہر کراچی اور پھر ان کی حکومت والا صوبہ خیبرپختونخوا یہ سب خان صاحب کے پیش نظر ہو گا۔ عام لوگ نواز شریف، عمران خان اور شہباز شریف سے بہت آس امیدیں لگائے بیٹھے ہیں حالات سنگین ہیں، مگر ان تینوں کو سنگین حالات سے ملک کو نکالنا ہے۔ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ رہا سوال عوام کے کردار کا تو عوام آج بھی قربانی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ نواز شریف، عمران خان، شہباز شریف، بہتری کی کوئی صورت پیدا کریں، عوام خصوصاً ہماری تاجر برادری حکومت سے بھرپور تعاون کرے گی۔ بس تاجر برادری کو بھتہ خوروں سے نجات دلا دو۔ اور جو مالی تعاون چاہیے لے لو۔ مگر ذرا اک نظر اپنی اسمبلیوں میں بیٹھے لوگوں پر بھی ڈال لو۔ بقول احمد فراز جو انھوں نے جالب کے انتقال پر انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
کیسے کیسے دشمن جاں اب پرسش حال کو آئے ہیں
ان کے بڑے احسان ہیں تم پر اٹھو استقبال کرو
ذرا ان پرسش حال والوں سے بھی کہو کہ جیبیں ڈھیلی کریں، بڑا کچھ وطن سے وصول کیا ہے اب وطن کو ضرورت ہے واپس کرو۔