سندھ فوڈ اتھارٹی غیر فعال کیوں

سندھ فوڈ اتھارٹی اب تک صوبہ میں فوڈ اشیاء کے معیار کو عالمی سطح کا بنانے میں ناکام رہی ہے۔



گذشتہ ہفتے روشنیوں کے شہر کراچی میں ریسٹورنٹ سے کھانا کھانے کے بعد دو بچوں کے جاں بحق ہونے اور ان کی والدہ کے بے ہوش ہونے کا المناک واقعہ پیش آیا۔ بے ہوش ماں موت کے منہ سے پلٹ کر جب ہوش میں آئی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی گود اُجڑ چکی تھی ۔ اس وقت وہ کس کو کوس رہی ہوگی ؟

اپنے آپ کو کہ وہ بچوں کو کیوں باہر کھانا کھلانے لے گئی یا اس ریسٹورنٹ کے مالکان کو جو غیر معیاری کھانا کھلاکر لوگوں کی زندگیوں سے کھلوار کر رہے ہیں یا پھراپنی ذمے داریوں سے بے پرواہ حکمرانوں کو جو ملک میں معیار کو برقرار رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کرتے یا پھر اس معاشرے کو جو اسلامی فلاحی معاشرہ کی شناخت رکھنے کے باوجود کھلے عام حرام و انسانی صحت کے لیے خطرناک چیزوں کی فروخت کی رپورٹس دیکھ کر بھی خاموش رہتا ہے ۔

یہ کیسا معاشرہ ہو گیا ہے ؟جہاں انسان کی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی ۔ کیا ایسے معاشرے کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا ؟ جہاں ترقی کے بجائے تنزلی کا سفر تیزی سے طے کیا جارہا ہے ۔ جب ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں نہ صرف انسانی جان کی قدر تھی بلکہ انسان کی زندگی سہولیات و آسائشات سے پُرتھی ۔ جب ہم انگریز کی غلامی میں اپنی شناخت تک کھو بیٹھے تھے تو ایسا حال نہ تھا ۔

قیام ِ پاکستان سے قبل جب سندھ کی ریاست یا صوبہ کی حیثیت ختم کرکے اسے محض کمشنریٹ قرار دیکر چلایا جارہا تھا اس وقت کراچی کوصرف میونسپل کمیٹی کا درجہ حاصل تھا اس کے باوجوداس شہر کی رونقیں اور معیار ِ زندگی قابل ِ رشک تھا ۔ یہاں صفائی ستھرائی کے اعلیٰ نظام ، پابندی اور صفائی کی اوقات کا بھی تعین کیا ہوا تھا ۔ جس سے صحت مند آب و ہوا کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی تھی ۔ شہر میں باقاعدہ مچھر مار اسپرے گھر گھر جاکر کیے جاتے ۔

شہر میں ٹاور،میکلو روڈ ،بندر روڈ ، رام باغ ، صدر اور کلفٹن شام کے وقت یورپ کے کسی شہر کا منظر پیش کرتے تھے ۔ بہترین تفریح کے ساتھ ساتھ یہاں ہوٹل اور ریسٹورنٹس اور فٹ پاتھوں پر ترتیب سے کھانے پینے کے اسٹال یا ریڑھے بھی اعلیٰ معیاری کھانے اور اشیائے خور و نوش فراہم کرتے تھے ۔ یہاں کا نظم و نسق ایسا کہ ہر چیزو حرکت ترتیب و تربیت کے ساتھ حفظان ِ صحت و ماحول کے اُصولوں پر قائم اور رواں دواں نظر آتی تھی اور اشیائے خور و نوش کے نرخوں سے معیار تک کنٹرول اور مانیٹرنگ کا نظام بھی مثالی تھا ۔

قصاب خانے سے گوشت کی دکانوں تک جراثیم سے پاک ماحول اور صفائی ستھرائی تو لازمی عنصر تھے ہی لیکن کٹائی سے پہلے جانور کے صحت مند ہونے نہ ہونے کو بھی چیک کیا جاتا تھا ،جب کہ دکانوں پر باسی گوشت اور مکھیوں کی موجودگی کا بھی نوٹس لیا جاتا تھا ۔کے ایم سی کا فوڈ انسپکٹر گوشت کو چیک کرنے کے بعد اُس پر معیاری ہونے کا ٹھپہ (Stamp) لگاتا تھا اور یہ کارروائی دن میں دو بار دہرائی جاتی تھی۔

ریستوران یا کیفے ٹیریا ہوں یا پھر فٹ پاتھ پر کھڑے ریڑھے یا اسٹال ہی کیوں نہ ہوں ، ان کے باورچی خانے کی صفائی ستھرائی اور جراثیم کش اسپرے کے قوانین لاگو تھے ۔ یہ ان اقدامات کا ہی کمال تھا کہ ریڑھی پر دال چاول بیچنے والے سے ہوٹل و ریسٹورنٹس کے مالکان بھی صحت مند ماحول کے انتظام کے ساتھ ساتھ کھانوں کے معیار پر بھرپور توجہ دیتے تھے ۔

ہوٹل و ریسٹورنٹس سے لے کر فوڈ اسٹالز تک کے مالکان رات کو بچا ہوا کھانا تقسیم کردیا کرتے یا پھر قانونی طریقے سے ضایع کردیا کرتے تھے لیکن دوسرے دن فروخت کرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے کیونکہ انتظامیہ کی جانب سے کھانوں کے ذائقہ تک کا بھی نوٹس لیا جاتا تھا ۔ جب کہ ریاست کی رٹ کا یہ عالم تھا کہ باوجود ان تمام انتظامات کی پابندی کے جب ہر چند رائے بھیروانی بطور کے ایم سی کے سربراہ شہر میں گشت پر نکلتے تو مارکیٹ کمیٹی اور فوڈ انسپکٹر سے لے کر ہوٹل و ریسٹورنٹس کے مالکان تک سب کے پسینے چھوٹتے نظر آتے تھے ۔ جس کی وجہ انتظامیہ کی کڑی نگرانی اور ذمے داری سے فرائض کی سرانجامی کا جذبہ تھا ۔

بیسویں صدی کے اوائل کے یہ مناظر ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کراچی کے انتظامات میں رہنے کے دوران سے 1933میں کراچی کے میٹروپولیٹن بن جانے اور پھر سندھ کی صوبائی حیثیت کی بحالی کی صورت میں کراچی صوبے کا دارالحکومت قرار پانے کے بعد بھی صوبائی حکومت کے انتظامات ہوں یا شہری انتظامیہ کے انتظامات ہوں لیکن سرکاری و ریاست کی رٹ ہر لحاظ سے قائم و دائم نظر آتی تھی ۔

1940میں سندھ اسمبلی میں کی جانیوالی قانون سازی سے قائم کردہ سندھ فوڈ اتھارٹی کے تحت شہر میں سبزی و فروٹ منڈی تک کو بھی مانیٹر کیا جاتا تھا ۔ پھر قیام ِ پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات کے دوران ہندوستان سے یہاں آکرکیمپوں میں آباد ہونے والے لوگوں کو سرکار کی جانب سے فراہم کیے جانے والے کھانوں پر بھی یہ قوانین لاگو اور فعال نظر آئے ۔

اُس کے بعد 1956کے عبوری دستور میں بھی ان ہی پالیسیوں و قوانین کو شامل و برقرار رکھا گیا ۔ پھر ون یونٹ لاگو ہونے سے موجودہ جغرافیائی حدود کے حامل پاکستان کو ایک صوبہ مغربی پاکستان قرار دیے جانے کی وجہ سے 1960میں ویسٹ پاکستان پیور فوڈ آرڈیننس کے تحت ان انتظامات کو مانیٹر کیا جانے لگا اور بنیادی طور پر یہیں سے کراچی کے معیارات تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ جس کی وجہ سے 1965میں اس میں ترمیم کرکے ملک میں معیار کو بحال رکھنے کے لیے اسے ویسٹ پاکستان پیور فوڈ آرڈیننس رولز 1965کا نام دیا گیا لیکن یہ رولز بھی معیار کو برقرار رکھنے میں نا کام رہے ۔

ہاں البتہ انتظامیہ کی جانب سے اس مد میں بھرپور کارروائیاں نظر آئیں ۔ پھر 1973میں اس آرڈیننس کو کچھ سیکشنز میں ترمیم کے ساتھ آئین کا حصہ بنایاگیا ۔ اور سندھ پیور فوڈ اتھارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔معیار کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی گئی۔ 2013، 2016اور بالآخر 2017میں اس بل کو ایکٹ کی صورت میں پاس کیا گیا ہے لیکن خودمختار اتھارٹی کا درجہ ملنے کے باوجود سندھ فوڈ اتھارٹی اب تک صوبہ میں فوڈ اشیاء کے معیار کو عالمی سطح کا بنانے میں ناکام رہی ہے۔ صوبہ میں صحت مند ماحول کو بحال نہیں کیا جاسکا ہے ۔

ایسا بھی نہیں کہ ایسے واقعات صرف ہمارے یہاں ہوتے ہیں ۔ WHOکی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مضر ِ صحت کھانا کھانے سے دنیا میں ہر سال 4لاکھ لوگ موت کا شکار بن جاتے ہیں جب کہ 60کروڑ لوگ بیمار ہوجاتے ہیں ۔

رپورٹ میں اس کی وجوہات تعلیم و خواندگی کی شرح میں کمی ، حفظان ِ صحت کے اُصولوں کی آگاہی نہ ہونا اور فوڈ سیکیورٹی قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا بتائی گئی ہیں۔ جس کے لیے دیگر دنیا میں اس کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات و قانون سازی کے ساتھ ساتھ لاگو قوانین پر سختی سے عمل اور عوام کی جانب سے بھی معاشرے کی بہتر تشکیل کے لیے ذمے داری نبھانا نظر آتا ہے لیکن ہمارے یہاں حکومت سے لے کر عوام تک کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی نظر آتی ۔

یوں تو گذشتہ ہفتے کے دوران شہر میں ایک عالمی سطح کی دسویں کنزیومر فوڈ سیفٹی اینڈ کوالٹی کے عنوان سے کانفرنس کا بھی انعقاد ہوا جو کہ PSQCA، ملائیشین پام آئل بورڈ ، کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان اور حکومت ِ سندھ کے مشترکہ تعاون سے منعقد کی گئی ۔ جس میںحکومت کے نمائندے کی جانب سے صوبہ میں معیاری و غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراوانی کو یقینی بنائے جانے پر فخر کیا گیا، جب کہ معیار کو کنٹرول کرنے سے متعلق عالمی سطح کے قوانین بناکر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے پر معاونت کی بھی باتیں کی گئی ہیں لیکن کاش یہ سب عملی طور پر ممکن ہوسکے تاکہ پھر کوئی احمد ، محمد ایسی ناگہانی موت کا نوالہ نہ بن سکے۔

جہاں تک بات ہے غذائی فراوانی کی تو 2010-11میں قومی سطح کے غذائی سروے کیمطابق ملک میں 58%لوگوں کو غذائی تحفظ حاصل نہیں یا انھیں خوراک کی قلت کا سامنا ہے ۔ اسی رپورٹ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ملک میں زیادہ افراد کے حامل بڑے خاندان اپنی کمائی کا 46%حصہ خوراک پر خرچ کرتے ہیں جب کہ یہ شرح انڈیا میں 35%اور امریکا میں 7%ہے ۔ گذشتہ 10سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی سندھ حکومت مختلف ادوار میں یہ اعلانات اور دعوے کرتی رہی ہے کہ سندھ فوڈ اتھارٹی کو مکمل طورپر فعال کردیا جائے گا ۔

مارچ 2017میں پاس کیے گئے قانون کے باوجود سندھ فوڈ اتھارٹی فعال نہ ہوسکی اور رواں سال مارچ میں بھی یہ اعلان سامنے آیا کہ ایک ماہ کے اندر یہ اتھارٹی مکمل طور پر فعال کردی جائے گی لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ آج بھی یہ غیر فعال اور ناکارہ بنی ہوئی ہے ۔ جس کا منہ بولتا ثبوت ملک میں زیادہ تر غذائی اجناس و غذائی اشیاء پیداواری عمل اور غذائی تحفظ کے لحاظ سے غیر اطمینان بخش ہیں۔

ایک طرف تھر میں غذائی قلت سے مائیں کمزور ہوکر بیمار بچوں کو جنم دے رہی ہیں جو کہ دھڑا دھڑ لقمہ اجل بنتے جارہے ہیں تو دوسری طرف شہروں میں غیر معیاری اشیائے خور و نوش اور حفظان ِ صحت کے اُصولوں کے خلاف ماحول کے حامل ہوٹل و ریسٹورنٹس کی بھر مار ہے جس سے شہروں میں بڑے پیمانے پر بیماریاں پھیل چکی ہیں ۔ جب کہ 10سال گذرجانے کے بعد بھی صوبہ میں سرکاری جدید لیبارٹری تعمیر نہیں ہوسکی ہے ۔

آج بھی لیبارٹری میں زبان سے چکھنے کی بنیاد پر کام چل رہا ہے یا پھر غیر معیاری و قدیم طریقوں و پرانے آلات کے آسرے پر کام جاری ہے ۔ جب کہ سندھ اسمبلی میں اس واقعے پر بحث کرنے کے دوران سندھ کے وزیر برائے خوراک کی جانب سے اپنی ماتحت سندھ فوڈ اتھارٹی کی فعالیت کی عجیب داستان بتائی گئی ۔ موصوف نے لیبارٹری پر کام جاری ہے کہ نوید دی اور اتھارٹی کی جانب سے غیر معیاری کھانے سپلائی کرنیوالوں کے خلاف چھاپے مارنے سے ہونے والی 16لاکھ آمدنی فخریہ بتانے لگے ۔ اب انھیں کون سمجھائے کہ فوڈ اتھارٹی کا کام آمدنی بڑھانا نہیں بلکہ ہر حال میں غذائی معیار کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔

ملک بالخصوص سندھ میں کنزیومر کے حقوق کے تحفظ کے لیے کنزیومر کورٹس کا قیام اور ان کو فوری طور پر فعال کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے ۔ ملک میں غذائی اشیاء اور کھانے پکانے و استعمال کے صحت مند طریقوں سے متعلق آگاہی کی بھی شدید کمی ہے اور ملک میں غیر معیاری غذائی اشیاء کی بڑے پیمانے پر فروخت بھی جاری ہے۔ PSQCAکے ڈی جی کے بقول ملک میں تقریباً 400ٹن کھانے کا کھلا تیل و گھی معیار چیک ہوئے بغیر فروخت ہورہا ہے جو کہ صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے ۔

اس لیے ملک بالخصوص کراچی میں عوام کو کھانے کے معیار اور معیاری چیزوں کے استعمال اور باورچی خانہ کے ماحول کو حفظان ِ صحت کے اُصولوں کے مطابق رکھنے کے متعلق آگاہی دینا جب کہ ہوٹلز ، ریسٹورنٹس و دیگر کھانے کی اشیاء سپلائی کرنے والوں کی سخت نگرانی کے لیے سندھ فوڈ اتھارٹی کومکمل و مؤثر طور پر فعال کرنے جیسے اقدامات ہی مستقبل میں ایسے واقعات کی روکتھام اور بیماریوں میں کمی لاسکتے ہیں ۔ بصورت ِ دیگر اسی طرح روز کوئی نہ کوئی ماں اپنے معصوم احمد اور محمد کو اپنی نگاہوں کے سامنے لقمہ اجل بنتا دیکھتی رہے گی اور ہم یونہی گلی سڑی چیزیں کھانے اور بیماریوں میں اضافہ کرنیوالی قوم کے طور پر ترقی کرتے رہیں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں