سال کا سب سے لمبا دن لوڈشیڈنگ کے سائے میں
دن لمبا ہو یا مختصر ہو گرم ہو یا ٹھنڈا یخ ہو‘ جیسے تیسے گزر ہی جاتا ہے۔
جلال پور جٹاں سے یہ خبر موصول ہوئی ہے کہ آج کا دن اس برس کا سب سے لمبا دن ہو گا۔ آج کا دن یعنی 22 جون جب ہم یہ کالم لکھ رہے ہیں اور اس تاریخ کے اخبار ہمارے سامنے کھلے پڑے ہیں۔ اصل میں جون کی 21 تاریخ بدنام چلی آتی ہے۔ وہ کل تھی۔ بہت گرم دن تھا۔ خدا خدا کر کے گزر گیا۔ ابھی ہم نے اطمینان کا سانس لیا تھا کہ جلال پور جٹاں کے نامہ نگار نے یہ خبر سنائی کہ سال کا لمبا دن آج ہے۔ لاہور' کراچی' اسلام آباد سب شہروں کے رپورٹر منہ دیکھتے رہ گئے۔ سال کے سب سے لمبے دن کی خبر جلال پور جٹاں نے سنائی۔ ایسی خبر کو صحافت کی زبان میں سکُوپ کہتے ہیں۔ تو یہ جلال پور جٹاں کے نامہ نگار کا سکُوپ ہے۔
اس پر ہمیں یاد آیا کہ ہماری صحافتی تاریخ میں ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ اہم بین الاقوامی خبر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آیا کرتی تھی۔ وہ زمانہ وہ تھا جب زمانے میں اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں چین کے انقلاب کی دھوم تھی۔ سو ان دنوں ماؤزے تنگ جو بیان جاری کرتے تھے وہ ہم تک ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اخباری نامہ نگار کے واسطے سے پہنچتا ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا۔ اس زمانے کے سارے دفتر کو زمانے کی گائے چر گئی۔ آں دفتر را گاؤ خورد۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی رہی سہی ساکھ منٹو صاحب کے افسانہ ''ٹوبہ ٹیک سنگھ'' نے ختم کر دی۔ اس افسانے کا پچھلے برسوں میں اتنا چرچا ہوا ہے اور اتنی بحثیں ہوئی ہیں کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے کوئی خبر آتی بھی ہے تو اس کی بین الاقوامی کتنی بھی اہمیت ہو، سمجھا یہ جاتا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کسی پاگل قیدی نے یہ بے پرکی اُڑائی ہے۔ لگتا ہے کہ اب اس کی جگہ جلال پور جٹاں اپنے نامہ نگار کے واسطے سے پر پُرزے نکال رہا ہے۔
خیر آمدم برسر مطلب۔ دن لمبا ہو یا مختصر ہو گرم ہو یا ٹھنڈا یخ ہو' جیسے تیسے گزر ہی جاتا ہے۔ تو آج کا دن بھی گزر ہی جائے گا۔ جیسے کل کا دن بہت گرم ہونے کے باوجود گزر گیا تھا۔ سب سے لمبا دن جغرافیائی معاملہ ہے۔ ہاں اگر کوئی نامہ نگار یہ خبر لائے کہ سال کی سب سے لمبی لوڈ شیڈنگ والا دن کونسا ہو گا تو پھر ہمارے لیے اس خبر کے کوئی معنی ہوں گے۔ ارے لوڈ شیڈنگ ہی سے تو ہماری جانوں پر بنی ہوئی ہے۔ پچھلے پانچ برس ہم نے اس لوڈ شیڈنگ کے سائے میں رو رو کر گزارے ہیں۔ جب الیکشن کی آمد آمد تھی تو اس وقت تھوڑی سی آس بندھی تھی۔ الیکشن لڑنے والوں کی طرف سے جو وعدے وعید ہو رہے تھے۔ ان کی روشنی میں لوڈ شیڈنگ کے مارے لوگ سوچ رہے تھے کہ لوڈ شیڈنگ کی طویل رات اب ختم ہونے کو ہے؎
تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے بھی گزار دے
آنے والا دور بجلی کی روشنی لے کر آئے گا
اگر عمران خان کی پارٹی جیت جاتی تو ہمارے سارے مسائل تین مہینے کے اندر اندر حل ہو جانے تھے۔ خیر مسلم لیگ نون نے میدان مار لیا۔ یاروں نے عمران خان کو فراموش کر کے میاں نواز شریف کو نجات دہندہ کے طور پر قبول کر لیا۔ باقی مسائل تو خیر حل ہوتے رہیں گے اور انشاء اللہ جلدی ہی حل ہوں گے مگر بجلی کا مسئلہ فوراً سے پیشتر حل ہونا چاہیے۔ مگر کل تک جو لوگ دلائل دے رہے تھے کہ ہمارے آنے کی دیر ہے لوڈ شیڈنگ کا اندھیرا چھٹ جائے گا اور دم کے دم میں چراغوں میں روشنی آ جائے گی ان کا لہجہ ہی بدل گیا۔ بتایا گیا کہ فوراً کے فوراً تو یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ تھوڑا وقت لے گا۔ یہی کوئی دو سال' دو سال ارے یہ تو وہ مثل ہو گئی کہ تا تریاق از عراق آوردہ شود' مار گزیدہ مُردہ شود۔ تریاق عراق سے آئے گا۔ وہاں سے آتے آتے اِدھر سانپ کے ڈسے کا دم نکل چکا ہو گا۔
تو اسے کہتے ہیں کہ ٹکا سا جواب دیدیا۔ امید اور وعدوں پر دنیا قائم ہے۔ وعدہ کل کا کیجیے۔ کل سے پرسوں۔ پرسوں سے اترسوں۔ امید کا چراغ روشن رہنا چاہیے۔ بہر حال اب اسی اصول پر عمل ہو رہا ہے۔ اس وقت جیسے سارا زور بجلی کے مسئلہ کے حل پر ہے۔ مشورے ' تجویزیں' ہدایتیں' حکم احکمات' جلدی یہ مسئلہ حل کرو' جلدی جلدی جلدی؎
اور اگر صورت احوال یہ بھی ہو
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ نظر آنا چاہیے کہ کچھ ہو رہا ہے اور بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ ہم مایوسی سے بچ جاتے ہیں۔ آس بندھی رہتی ہے کہ بجلی اب آئی کہ اب آئی۔
ایک بڑی اچھی بات یہ ہے کہ جب کوئی ایسا گمبھیر مسئلہ ہوتا ہے اور بظاہر لاینحل نظر آتا ہے تو اس حساب سے اس کے ماہرین پیدا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت بجلی کا مسئلہ جتنا سنگین نظر آ رہا ہے۔ اس نسبت سے اس کے ماہرین نمودار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ روز اخبار میں کتنے بیان' کتنے خطوط' کتنے مضامین اخباروں کی زینت بنے ہوتے ہیں۔ ہم نے تو جس خط' جس مضمون کو پڑھا یہی احساس ہوا کہ ارے یہ مسئلہ تو چٹکیوں میں حل ہو سکتا ہے۔ حکومت آخر کیوں ان ماہرین سے استفادہ نہیں کرتی۔
ہمیں پچھلے ایسے کتنے مواقع یاد آ رہے ہیں کہ جب جب کوئی سنگین صورتحال پیدا ہوتی ایسے ہی ماہرین سامنے آئے مگر ان کی لیاقت سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ لیجیے ہمیں یہاں 65ء کی جنگ یاد آ گئی۔ جب سیز فائر ہوا تو اچانک کتنے جنگی ماہرین ہماری صفوں سے برآمد ہوئے تھے۔ ان سب کا ایک بڑا افسوس یہ تھا کہ کمند اس وقت آ کر ٹوٹی دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا۔ ایک ہفتے کی مار اور تھی۔ جنگ کے سارے نشیب و فراز کو جانچ پرکھ کر وہ یہ ثابت کر رہے تھے کہ اگر پاکستان ایک ہفتہ اور نکال لیتا تو میدان مار لیا تھا۔ حیرت ہوتی تھی کہ انھیں کتنی جنگی مہارت ہے۔ مگر ان کی مہارت سے ارباب بست و کشاد نے فائدہ ہی نہیں اٹھایا۔
اس وقت بھی صورت حال یہی ہے کہ روز اخباروں میں تجویزیں آ رہی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک تجویز کو بھی حکومت درخور اعتنا سمجھے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اگر تجاویز تعداد میں بہت زیادہ ہیں تو قرعہ اندازی کر لی جائے۔
خیر ہمیں آم کھانے سے مطلب ہے نہ کہ پیڑ گننے سے۔ مطلب یہ ہے یعنی یہ جاننے کو جی چاہتا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کی یہ لمبی تاریک رات کے ختم ہونے کی امید واقعی کی جا سکتی ہے یا ہمیں اسی کے ساتھ گزارہ کرنا ہے اور خاص طور پر اب جو موسم جا رہا ہے وہ اسی رنگ سے گزرے گا جیسا اب گزر رہا ہے۔ یا... بس اس یا پر ہی بات ختم کرتے ہیں۔ علقمندوں کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔