قالین سازی کی صنعت لاگت بڑھنے سے زبوں حالی کا شکار

حکومتی عدم سرپرستی اورمحدود اجرت سے قالین سازی کا فن معدوم ہونے لگا، مغربی ممالک پاکستانی قالین کے بڑے خریدار تھے


Kashif Hussain November 12, 2018
مارکیٹ میں بھارت سے مقابلہ دشوار ہو گیا، قالین کی کھڈیاں بند ہو گئیں، کاریگر متبادل روزگار پر لگ

حکومت کی عدم سرپرستی کے سبب پاکستان کی قالین سازی کی صنعت زبوں حالی کا شکار ہو گئی۔

45 کروڑ ڈالرسے زائد ایکسپورٹ کی مالیت 2 دہائیوں میں پاکستان سے نکل کر بھارت کے ہاتھ لگ گئی، پاکستان میں ہاتھ سے بنائے گئے قالین دنیا بھر میں مقبول تھے 20 سال قبل تک پاکستانی قالین ملک میں لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ زرمبادلہ کے حصول کا بھی اہم ذریعہ تھے اور امریکا، برطانیہ یورپی ممالک سمیت خلیجی ممالک پاکستانی قالین کے بڑے خریدار تھے، تاہم بڑھتی ہوئی لاگت کا شکار قالین سازی کی گھریلو صنعت کو حاصل حکومتی سرپرستی وقت کے ساتھ ختم کردی گئی جس سے پاکستان کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں بھارت سے مقابلہ دشوار تر ہوتا چلا گیا جس کے نتیجے میں ملک بھر میں لگی قالین سازی کی کھڈیاں بند ہوگئیں اور کاریگروں نے متبادل روزگار اختیار کرلیا۔

جس سے یہ فن کراچی سے تقریباً ناپید ہوچکا ہے اور پنجاب کی سطح پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، پاکستان کارپٹ مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نعیم ساجد نے ایکسپریس کو بتایا کہ پاکستان سے کارپٹ کی ایکسپورٹ کے لیے مارکیٹنگ کا موثر ذریعہ بین الاقوامی نمائشیں ہیں جن میں شرکت کرنے والی پاکستانی کمپنیوں کو بھاری اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں اسٹال کی فیس کے علاوہ کارپٹ لے جانے پر بھی کافی خرچہ آتا ہے جو چھوٹے تو کیا درمیانے درجہ کے ایکسپورٹرز کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔

پاکستان میں ایکسپورٹرز کو اہم تجارتی نمائشوں پر بہت کم مالی مراعات حاصل ہیں اس کے برعکس بھارتی حکومت دنیا میں ہونے والی تمام اہم نمائشوں میں شرکت کرنے والے بھارتی ایکسپورٹرز کو بھاری مراعات فراہم کرتی ہے حتیٰ کہ کمپنیوں کو بورڈنگ لاجنگ کی مد میں بھی یومیہ اخراجات ادا کرتی ہے، پاکستان میں سرکاری معاونت کا حصول بھی ایک مشکل کام ہے اور کڑی شرائط لاگو ہیں انھوں نے بتایا کہ ایکسپورٹ سال بہ سال محدود ہورہی ہے جسے فوری بحال نہیں کیا جاسکتا قالین کی صنعت کی بحالی کے لیے حکومتی توجہ ضروری ہے پاکستان سی پیک منصوبہ اور چینی مارکیٹ تک رسائی سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتا ہے اور کارپٹ کی صنعت کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے حکومتی سرپرستی فراہم کی جائے تو نہ صرف قالین بنانے کے فن کو دم توڑتے فن کو جلابخشی جاسکتی ہے بلکہ کھوئی ہوئی ایکسپورٹ مارکیٹ بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

دہشت گردی کے باعث غیرملکیوں کی آمد بندہونے سے تاجروں کا کام ٹھپ ہوگیا

قالین کی تجارت سے وابستہ مقامی تاجر بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، صدر ہینڈی کرافٹ مارکیٹ کے تاجر محمد سلیم نے قالین سازی کے عروج کا بھی زمانہ دیکھا جب صدر کے بازاروں میں غیرملکی سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا تھا تاہم دہشت گردی کی وجہ سے جہاں سیاحوں نے آنا بند کیا وہیں انٹرنیشنل مارکیٹ میں بھارت اور افغانستان کے ساتھ مسابقت دشوار ہونے سے مقامی تاجروں کا کام بھی ٹھپ ہوگیا، محمد سلیم کے مطابق پاکستان میں ہاتھ سے بنے قالین دنیا بھر میں مقبول ہیں اور کراچی میں تعینات سفارتکار اب بھی تحفہ کے طور پر پاکستانی قالین خریدتے ہیں۔

مقامی سطح پر زیادہ تر جال دار اور ایرانی ڈیزائن کے قالین تیار کیے جاتے ہیں ایرانی ڈیزائن میں ریشم بھی استعمال ہوتی ہے۔ چار فٹ ضرب آٹھ فٹ کا قالین ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں تیار ہوتا ہے پچھتر فیصد لاگت مزدوری میں جبکہ 25فیصد میٹریل پر خرچ ہوتی ہے اوون کے ساتھ ریشم اور دیگر لوازمات رنگائی کے سامان مہنگے ہونے سے قالین کی لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے جبکہ کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔

قالین سازی میں زوال کی وجہ غلط حکمت عملی ہے، صنعتی ماہرین

قالین سازی کی صنعت کی مشکلات میں حکومت کی عدم توجہ کے ساتھ خود قالین کی صنعت بالخصوص ایکسپورٹ سے وابستہ کمپنیوں کی حکمت عملی کا بھی ہاتھ ہے، پاکستان میں روایتی طرز کے قالین بنائے جاتے رہے جبکہ بھارت نے اپنی صنعت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا بھارت کی قالین کی ایکسپورٹ 2017-18 میں ایک ارب 43کروڑ ڈالر رہی بھارتی قالین کے بڑے خریداروں میں امریکا ، جرمنی، برطانیہ، آسٹریلیا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، پاکستان سے کارپٹ کی ایکسپورٹ گزشتہ مالی سال 7کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک محدود رہی، صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی ایکسپورٹرز محدود تعداد میں روایتی بین الاقوامی نمائشوں میں حصہ لیتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں انٹریریئر ڈیکوریشن، ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات میں نت نئے رجحانات متعارف کرائے جارہے ہیں۔

اس حوالے سے ٹیکسٹائل کی صنعت کی سب سے بڑی نمائش ہیم ٹیکسٹائل میں پاکستانی ہوم ٹیکسٹائل سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے لیکن میں بھارت سمیت دیگر حریف تجارتی ملکوں کے کارپٹ ایکسپورٹرز کی شرکت میں نمایاں اضافہ کے باوجود پاکستانی کارپٹ ایکسپورٹرز نے اس جانب توجہ نہیں دی اس نمائش میں کارپٹ کے ذریعے دیواروں کی سجاوٹ اور فلور ڈیکوریشن کیلیے جدید ڈیزائن اور رنگوں پر مشتمل کارپٹ کیلیے خصوصی فلور مخصوص کیے گئے ہیں جہاں سے کارپٹ کے جدید رجحانات سے آگاہی مل سکتی ہے دوسری جانب جرمنی میں ہی ہونے والی دوسری اہم نمائش ambiente بھی دنیا بھر کے انٹیریئر ڈیزائنرز اور ڈیکوریٹرز کا سب سے بڑا سالانہ میلہ ہے جس میں کارپٹ کے جدید تصورات ، ڈیزائن اور مصنوعات متعارف کرائی جاتی ہیں نمائش کی اہمیت کے پیش نظر بھارت کی46کارپٹ کمپنیاں ambiente شرکت کررہی ہیں اس نمائش میں پاکستان سے تاحال کسی کارپٹ کمپنی نے شرکت نہیں کی۔

صدر میں قالین کی 200 سے زائد دکانوں میں سیبیشتر بند ہو گئیں
مقامی سطح پر تیار قالین فروخت کرنے والے تاجر آہستہ آہستہ اپنا کاروبار سمیٹ رہے ہیں صدر میں ہینڈی کرافٹ مارکیٹ اور دیگر بازاروں میں قالین کی 200 سے زائد دکانیں قائم تھیں جن میں 70فیصد دکانیں بند ہوچکی ہیں قالین کے تاجر اپنا بچا کچھا مال فروخت کرکے کاروبار لپیٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، افغان پناہ گزین کراچی میں قالین تیار کرتے تھے جو اب بھارت کے ذریعے کاروبار کررہے ہیں اسی طرح سندھ کے دیگر شہروں میں بھی قالین سازی کا کام کم و بیش ختم ہوچکا ہے۔

اورنگی ٹائون میں قالین سازی کا 95فیصد کام بند ہوگیا
قالین سازی کو گھریلو صنعت کا درجہ حاصل رہا کراچی میں آباد ہونے والی نئی بستیاں قالین سازی کامرکز بنی رہیں تاہم اجرت نہ بڑھنے کی وجہ سے قالین سازی کا فن دم توڑ رہا ہے کراچی کے علاقے اورنگی ٹائون ، کورنگی، لانڈھی ملیر اور دیگر گنجان آبادی والے علاقوں میں کئی دہائیاں قبل بڑے پیمانے پر قالین سازی کی کھڈیاں لگائی گئیں جہاں بڑے کارخانوں اور ایکسپورٹرز کے علاوہ انفرادی سطح پر بھی قالین بنائے جاتے رہے، قالین کی تجارت کرنیالے سرمائے کے بل پر ترقی کرتے رہے تاہم قالین بنانے والے افراد کی مشکلات مہنگائی اور ناکافی اجرت کی وجہ سے بڑھتی چلی گئیں اورنگی ٹائون کے علاقے میں قالین سازی کا 95فیصد کام بند ہوچکا ہے اور کاریگر اس پیشے کو ترک کرچکے ہیں اور نئی نسلوں تک یہ فن منتقل نہیں ہو رہا۔

اورنگی ٹائون کے ایک کارخانے میں قالین بنانے والے کاریگروں نے بتایا کہ انھیں صبح 8 بجے سے رات 8بجے تک قالین بنانے کی یومیہ 250 روپے اجرت ادا کی جاتی ہے جوان اور زیادہ مشقت کرنے والے کاریگر زیادہ سے زیادہ 350روپے تک کی مزدوری لے پاتے ہیں ایک اوسط سائز کا قالین ایک سے ڈیڑھ ماہ میں مکمل ہوتا ہے اور کاریگر بمشکل 10ہزار روپے ماہانہ اجرت کما پاتے ہیں، کاریگروں کا کہنا تھا کہ سخت محنت کے باوجود محدود اجرت کی وجہ سے کاریگروں نے قالین سازی کا پیشہ ترک کردیا زیادہ تر کاریگر گارمنٹ فیکٹریوں میں ملازمت کرنے لگے یا پھر دیگر پیشہ اختیار کرلیے۔ کاریگروں کے مطابق کھڈی پر کام کی اجرت بڑھائے بغیر قالین سازی کی صنعت کو بحال نہیں کیا جاسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں