جھرک قائد اعظم کی جائے پیدائش
جب انگریزوں نے سندھ کو فتح کیا تو انھوں نے جھرک شہرکی تجارتی اہمیت کے پیش نظر 1843ء میں اسے ضلع کا درجہ دیا۔
ہم جب پرائمری اور سیکنڈری اسکول میں پڑھتے تھے تو ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی اور پاکستان بننے میں ان کی جدوجہد کے بارے میں سبق پڑھایا جاتا تھا، جس میں یہ لکھا تھا کہ قائداعظم سندھ کے قدیم اور تجارتی شہر جھرک میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول جھرک سے حاصل کی تھی۔
ہم جب شہر کی طرف جانے لگے تو دور سے ہی ہمیں کھنڈرات نظر آئے،ہم کبھی کبھار نظر آنے والے بندوں سے قائد اعظم کے گھر اور اسکول کے بارے میں پوچھتے، تو وہ صرف انگلی کے اشارے سے کہتے تھے کہ اس طرف جائیں۔ آخرکار ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں پر آغا خان اول کا مکان تھا۔
بہرحال ہم اس گھر کے باہر بیٹھے ہوئے چوکیدار سے ملے جس نے ہمیں اندر سے پورا مکان دکھایا۔ پھر اس سے ہم نے قائد اعظم کے مکان کا پوچھا جو آغا خان کے مکان سے کچھ قدم آگے تھا مگر اسے مسمار کرکے اس پر ایک نئی عمارت بنائی جاچکی تھی، جس میں ایک پرائیویٹ اسکول چل رہا ہے۔ میں وہیں کھڑا حیرانی سے اس نئی عمارت کو دیکھ رہا تھا کہ ہماری حکومتیں کتنی بے حس اور بے خبر رہی ہیں کہ قائد اعظم کے اس مکان کو جس میں وہ پیدا ہوئے تھے اور اس کا درجہ ایک ہیرٹیج کا تھا جس کے ساتھ یہ حشرکیا گیا۔
میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ جھرک شہر ایک تاریخی شہر ہے جو ٹھٹھہ ضلع میں کینجھر جھیل کے قریب کوٹری۔ ٹھٹھہ روڈ پر واقع ہے۔یہ شہر دریائے سندھ کی سطح سے 150 فٹ بلند ہے، یہ کسی زمانے میں تجارتی مرکز تھا، وہاں پر ایک بندرگاہ بنائی گئی تھی جہاں سے تجارتی جہاز، کشتیاں اور اسٹیم بوٹ خام مال لے جاتے تھے۔ اس چھوٹے سے شہرکی آبادی تقریباً 5 ہزار تھی جس میں ہندو قوم کے لوگ زیادہ تھے جب کہ خوجہ، میمن بھی بڑی تعداد میں رہتے تھے۔
بندرگاہ سے مچھلی کا بھی بڑا بیوپار چلتا تھا اور خاص بات یہ تھی کہ ماحول صحت بخش اور پرسکون تھا۔کہتے ہیں کہ ٹالپروں کی حکومت میں اسلحے کے کارخانے تھے، وہاں پر موجود چھوٹی سی پہاڑی پر بدھ دھرم کا مندر تھا، جس کے نشان ابھی واضح نہیں ہیں، علی شاہ کا محل بھی تھا اور پھر چھوٹے شاہجہان کے نام سے مسجد بھی موجود تھی۔ ان کھنڈرات میں کچھ ملٹری کنٹونمنٹ کے نشان بھی دھندلے سے نظر آتے ہیں۔
جب انگریزوں نے سندھ کو فتح کیا تو انھوں نے جھرک شہرکی تجارتی اہمیت کے پیش نظر 1843ء میں اسے ضلع کا درجہ دیا جسے کراچی کلیکٹوریٹ سے منسلک کر دیا گیا۔ اس ضلع کی حدیں باگڑکریک، سن شہر اور ھاد ندی تک پھیلی ہوئی تھیں جس میں سیڑی، خانوٹ، مانجھند اور کوٹری سب ڈویژن شامل تھیں جب کہ سونڈا قبرستان والا علاقہ بھی اس ضلع میں شامل تھا۔ اس ضلع کی لمبائی 150 میل اور وسعت 70 میل تک تھی۔ جس زمانے میں کلیکٹر کیپٹن پریڈی تھے انھوں نے کمشنر آر کے پرنگل کو لکھا تھا کہ جھرک شہر ایک خوشحال شہر ہے۔
جہاں پر مکئی، گندم، مچھلی بڑی تعداد میں پیدا ہوتی ہے اور یہاں پر بسنے والے بڑی تعداد میں مچھیرے ہیں جن کے روزگار کا ذریعہ مچھلی کا شکار ہے۔ ہندو سب سے بڑی تعداد میں رہتے ہیں اور وہ کاروباری لوگ ہیں۔ جھرک میں اس وقت تقریباً 983 گھر بنے ہوئے تھے اور پورے جھرک ضلع کی آبادی 175000 تھی۔ جھرک میونسپل کمیٹی تھی اور وہاں ہر علاقے میں سیاست میں اچھا خاصا اثر و رسوخ تھا اور سماجی کاموں میں بھی لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
مذہب میں دلچسپی بھی زیادہ تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں نے انجمن اصلاح مسلمین کی بنیاد رکھی جس کی سربراہی محمد اخوند جمن کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ یہ شہر خلافت تحریک میں بھی بڑا متحرک رہا ہے جس میں سیٹھ اللہ ورایو میمن اور پیر مہر علی شاہ پیش پیش تھے۔
جب انگریزوں کی حکومت سندھ میں قائم ہوئی تو جھرک شہر میں آغا حسین علی 1843ء میں یہاں آکر آباد ہوئے۔ خوجہ قوم کے لوگ اس شہر میں بڑی تعداد میں رہنے لگے۔ سر چارلس نیپیئر نے اسمائیلیوں کو جھرک شہر میں آباد کرنے میں بڑا رول ادا کیا۔ شہر بڑا خوشحال تھا اور ساری سہولیات سے آراستہ تھا۔ وہاں پر پوسٹ آفس، مولانا جوہر ڈسپنسری، جیل خانہ، ڈاک بنگلہ، ملٹری کنٹونمنٹ ، پولیس تھانہ، اسکول، کلیکٹر آفس وغیرہ بھی تھے اور شہر میں ہر چیز دستیاب تھی۔
اس وقت، ان سب سہولتوں والی برباد عمارتیں ماضی کی تاریخی حیثیت اور وقار کی کہانی سنا رہی ہیں۔ دریائے سندھ کا پانی جہاں سے بھی گزرتا تھا وہاں ہریالی، خوشحالی اور رونقیں پیدا ہوجاتی تھیں مگر اب اس میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے چاروں طرف ریت اڑ رہی ہے، زمین خشک اور برباد پڑی ہے، مچھیرے نئے مقامات کی طرف جاچکے ہیں۔
مجھے ایک بات یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جب شروع سے ہم درسی کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ قائد اعظم کی جائے پیدائش جھرک شہر ہے جہاں پر ان کے والد پونجا جناح جھرک شہر میں آکر بسے تھے انھوں نے بزنس کے خیال سے اس شہر میں آنا پسند کیا۔ اس بات کا ثبوت اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر مینشن میں جب قائد اعظم پیدا ہوئے تھے، اس کا کوئی وجود نہیں تھا کیونکہ تاریخ لکھنے والے کہتے ہیں اس وقت کھارادر اور میٹھادر میں تو سمندر کا پانی کھڑا ہوا تھا۔
اس ثبوت کو مٹانے کے لیے اس وقت کے کمشنر حیدرآباد مسرور حسن جو ایک کینہ اور بغض رکھنے والا شخص تھا، پرائمری اسکول جھرک کا داخلہ رجسٹر لے کر چلے گئے کہ انھیں اس میں سے کچھ کام لینا ہے اور پھر اسے گم کردیا۔ دوسری بات کہ جب سندھ ٹیکسٹ بورڈ کے پاس اس زمانے میں پڑھائے جانے والی کتابیں موجود ہیں تو وہ انھیں سندھ اسمبلی میں کیوں نہیں پیش کرتے ہیں اگر انھوں نے ان کتابوں کا ریکارڈ نہیں رکھا تو یہ بڑی مجرمانہ غفلت ہے، جس کے لیے متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
اس میں مزید ثبوت لانے میں سندھ کے بڑے نام رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، جی اے الانا وغیرہ نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں ثابت کیا کہ قائد اعظم کی جائے پیدائش جھرک ہے۔ اس ضمن میں ایک مرتبہ جب حمیدہ کھوڑو وزیر تعلیم تھیں اور جب ڈاکٹر ارباب رحیم وزیر اعلیٰ سندھ تھے انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس بات کا حل اور ثبوت نکال لیں گے مگر ابھی تک کچھ بھی نہیں ہو سکا ہے۔ محقق رضوان احمد نے بھی ریسرچ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ 1876 میں وزیر مینشن بنا ہی نہیں تھا۔
وہاں رہنے والوں نے بتایا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کئی مرتبہ جھرک شہر آچکی تھیں اور اپنے گھر کو دیکھا کرتی تھیں، انھوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ قائد اعظم کی جائے پیدائش جھرک ہی ہے۔ اگر ہم لوگ اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے سنجیدہ ہوتے تو شاید وہ کئی سال پہلے ہی معاملہ طے ہوجاتا ہے۔ خیر اگر کچھ لوگ کراچی مینشن کہتے ہیں تو انھیں یہ بھی سمجھنا اور سوچنا چاہیے کہ کراچی بھی سندھ ہے، جب 1943ء سے 1969ء تک کا کریکولم ہوتا تو سب کچھ حل ہوجاتا۔
یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ قائد اعظم کے دادا میگھا جناح اور ماموں موسیٰ بھائی بھی آغا علی حسن کے ساتھ جھرک شہر آگئے تھے۔ جب پونجا جناح کراچی شفٹ ہوئے تو اس وقت قائد اعظم کی عمر 9 سال تھی، جو گھر قائد اعظم کی پیدائش والا ہے اسے پونجا جناح نے امید علی خوجہ سے خریدا تھا۔ پونجا چمڑے کا بیوپار کرتے تھے۔
اس مسئلے کو حل ہونا چاہیے جس کے لیے سندھ حکومت پرانی سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی چھپی ہوئی کتابیں کہیں سے بھی حاصل کرے۔ جھرک میونسپل کمیٹی اور کراچی مونسپل کمیٹی اور سندھ مدرستہ الاسلام کا رجسٹرڈ داخلہ، پرائمری سرٹیفکیٹ اور میٹرک سرٹیفکیٹ اور تاریخی تحریریں حاصل کرکے صحیح جائے پیدائش متعین کرکے تاریخ کی تصحیح کی جائے۔