زیارت ریزیڈنسی پر حملہ غور و فکر کے چند پہلو

اگر یہ منتخب نمائندے یہ سب کچھ کرتے تو یقیناً بلوچستان میں احتجاج کی صورتحال وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔


Dr Naveed Iqbal Ansari June 20, 2013
[email protected]

قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ ''زیارت ریزیڈنسی'' صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر صحت افزا مقام زیارت میں واقع ہے۔ یہاں قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری دو قیمتی ماہ گزارے تھے۔ یہ عمارت 1892 میں تعمیر کی گئی تھی۔ انگریزوں کے دور میں برطانوی افسران یہ عمارت استعمال کرتے تھے۔ 1948 میں قائداعظم اپنی ناساز طبیعت کے باعث یہاں آئے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد اس عمارت کو قائداعظم ریزیڈنسی کا درجہ دیدیا گیا تھا۔

ذرائع ابلاغ سے جو اطلاعات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق نہ صرف اس تاریخی اہمیت کی حامل عمارت کو تباہ کردیا گیا بلکہ قومی پرچم کو اتار کر ایک تنظیم کا پرچم بھی لہرا دیا گیا۔ اس واقعے کے 24 گھنٹے بعد تک کوئی قابل ذکر حکمراں یہاں نہیں پہنچا نہ ہی کوئی بہت بڑا ردعمل سامنے آیا، شاید اس لیے کہ اب الیکشن ختم ہو چکے ہیں! اگر الیکشن میں مزید وقت ہوتا تو ہمارے رہنماؤں کے جلسے، جلوسوں میں یہ ایک اہم ترین ایشو ہوتا۔ بہرکیف جہاں سیاست ہی نان ایشوز پر کی جاتی ہو وہاں قائداعظم عمارت پر حملے اور قومی پرچم کو اتارنے کا واقعہ بھلا کب اہمیت رکھتا ہے۔

اس واقعے پر جو ردعمل ہونا چاہیے تھا وہ حکمرانوں اور رہنماؤں کی جانب سے نہیں ہوا یہاں تک کہ (ایک اخباری اطلاع کے مطابق) اسپیکر سردار ایاز صادق نے قائداعظم ریزیڈنسی پر حملے کو صوبائی معاملہ قرار دیدیا۔ اس سارے واقعے کے منظرنامے میں اور خصوصاً بلوچستان میں جاری وطن مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے چند ایک سوال ضرور جنم لیتے ہیں، جن کے جوابات ہم سب کو خصوصاً جو لوگ اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا اس کی حمایت کرتے ہیں انھیں بھی تلاش کرنے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں جن زیادتیوں اور حقوق نہ ملنے کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ان کے ازالے کے لیے کیا اس قسم کی ریاست مخالفت کارروائیاں اور مہم درست ہے؟ اور اگر درست ہے تو کیا بلوچستان کو آزاد کرنے کے بعد بلوچستان کے عوام کو وہ تمام حقوق مل جائیں گے اور وہ تمام زیادتیاں ختم ہوجائیں گی جو آج محسوس کی جارہی ہیں؟

اگر ان سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو پھر ضمن میں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے جو انتہائی اہم اور قابل غور ہے اور اس پر غور کرنے کا وقت بھی یہی ہے کیونکہ اگر یہ وقت نکل گیا تو بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا اور وہ سوال یہ ہے کہ ماضی میں مشرف کے دور میں، پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اور اب نواز شریف کے دور میں بلوچستان کے لوگوں کو وہ حقوق کیوں نہیں مل سکے جن کا وہ تقاضا کررہے ہیں، حالانکہ ان تمام حکمرانوں کے ادوار میں بلوچستان کے نمائندے (خواہ ان کو کسی نے بھی ووٹ دیا ہو) ایوانوں میں پہنچتے رہے ہیں۔ ایوانوں میں پہنچے کے بعد انھوں نے اپنے ہی صوبوں کے لوگوں کے لیے حقوق کی بات کیوں نہیں کی؟ انھوں نے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی میں بلوچستان کے عوام کے لیے کس قدر آواز بلند کی، کس قدر قراردادیں پیش کیں؟ کس قدر احتجاج کیا اور کس قدر حقوق کے لیے قانون سازی میں پیش رفت کی؟

اگر یہ منتخب نمائندے یہ سب کچھ کرتے تو یقیناً بلوچستان میں احتجاج کی صورتحال وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ ان منتخب نمائندوں نے کیا صرف اپنے بینک بیلنس بڑھانے کے لیے کام کیا؟ اگر عوام کے لیے کام نہ کیا تو پھر عوام اور دیگر جماعتوں یا گروہوں نے ان کے خلاف کس حد تک احتجاج کیا؟ اور ردعمل میں اپنے صحیح اور عوام کے ہمدرد نمائندوں کو کیوں نہیں انتخابات کے ذریعے ایوانوں میں بھیجا تاکہ وہ ایک جمہوری طریقے سے (جو اس ملک میں رائج ہے) ایوانوں میں قانون سازی کرکے اور آواز بلند کرکے بلوچستان کے مسائل حل کراتے۔

مذکورہ بالا سوالوں کا ہوسکتا ہے کہ یہ جواب دیا جائے کہ جناب اسمبلیوں میں عوام دشمن اور حکومت کے یا ایجنسیوں کے ایجنٹ ہی پہنچ پاتے ہیں اور حقیقی عوامی نمائندے نہیں پہنچ پاتے۔ نیز اعلیٰ مقتدر اور خفیہ قوتوں کے گٹھ جوڑ کے باعث عوام کے حقیقی نمائندے ایوانوں سے باہر ہیں اور عوامی مسائل حل نہیں ہوپارہے ہیں لہذا مجبوراً مسلح، پرتشدد اورعلیحدگی کی تحریک کا ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔

یہاں اب اصل سوال اٹھتا ہے کہ مندجہ بالا جواب اور جواز درست ہے تو پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ بالفرض کل اگر علیحدگی کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو بلوچستان کے عوام کو وہ تمام حقوق مل جائیں گے جن کے حصول میں رکاوٹ آج کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سردار، نواب اور دیگر لوگ ہیں! یہ کیسے ممکن ہے کہ کل اگر بلوچستان آزاد ہوتا ہے تو یہی لوگ جو آج ایوانوں میں بیٹھ کر عوام کے حقوق غصب کر رہے ہیں کل دوسروں کے لیے راستہ چھوڑ دیں اور دوبارہ اپنے مفاد کے لیے عوام کا استحصال نہ کریں؟ اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بڑی طاقتیں اس علاقے میں اپنے مفاد کو خیر باد کہہ دیں؟ کیا یہ بڑی طاقتیں کل اپنا کھیل نہیں کھیلیں گی؟ اگر بڑے خون خرابے اور جدوجہد کے بعد کل آزادی ملتی ہے تو ان تمام قوتوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے گا جو آج حقوق غصب کرنے کی اصل ذمے دار ہیں؟ اگر ان قوتوں کو کنٹرول نہ کیا جا سکا تو آزادی کی ساری جدوجہد پر ہی پانی پھر جائے گا۔

آئیے غور کیجیے ماضی قریب کا! اپنے وطن پاکستان کی آزادی کا کیا حال ہوا۔ کیا آزادی حاصل کرتے ہی ایک ایک کرکے تمام قابل ذکر محب وطن اور تحریک پاکستان کی نمایاں شخصیات کو منظرنامے سے ہٹا نہیں دیا گیا؟ کیا یہ کھیل تسلسل کے ساتھ چلتا نہیں رہا؟ آج جو پاکستان کی اور عوام کی حالت ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مفاد پرست ٹولہ غلبہ حاصل کر بیٹھا اور بڑی طاقتوں نے بھی اسی مفاد پرست ٹولے کی سرپرستی کی اور جاری رکھی کیونکہ اسی طرح ان کے مفادات پورے ہوتے ہیں۔ راقم کا سوال پھر یہی ہے کہ بالفرض آزادی حاصل کر بھی لیں تو مفادات پرست ٹولے اور بڑی قوتوں کی سازشوں سے محفوظ رہا جا سکے گا، جن کا مفاد ہی عوام کے استحصال سے جڑا ہوا ہوتا ہے؟

اس سے انکار نہیں کہ بلوچستان کے عوام کی شدید حق تلفی ہورہی ہے اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بھی اپنے عروج پر ہیں، جن پر پورے پاکستان کو احتجاج کرنا چاہیے، لیکن ان سوالات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ وہاں کے لوگوں کو حقوق صحیح معنوں میں کس طرح مل سکتے ہیں، علیحدگی کی بنیاد ڈال کر؟ بے گناہوں کا خون بہاکر، آگ و خون کا دریا پار کرکے، قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ ''زیارت ریزیڈنسی'' کو تباہ کرکے یا ان لوگوں کے خلاف تحریک چلا کر جو اس وقت بھی اپنے ہی ہم زمین و ہم زبان کے حقوق سلب کرنے کے اصل مجرم ہیں۔ راقم کی اس تحریر کا مقصد صرف غور و فکر کی طرف راغب کرنا ہے، درست یا غلط کا فیصلہ پڑھنے والے خود بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔